لاہور میں ہوئی میرانیس کانفرنس

 میر انیس کے ۱۵۰ سالہ یوم وفات کے حوالے سے سجائی جانے والی شان دار محفل کا احوال

فوٹو : فائل

سرسید جیسی تاریخ ساز شخصیت سے زندہ دلی کا خراج تحسین پانے والا ،پاکستان کا دل،’’شہر لاہور‘‘ اپنی مخصوص ثقافتی رنگا رنگی، جداگانہ تہذیبی انداز اور فنون لطیفہ کی ترقی و ترویج کے قدیم نمایاں مرکز کی حیثیت سے دنیا بھر میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔

تاریخ، تمدن، تصوف، مختلف سیاسی وعلمی تحاریک کے شان دار ماضی سے مزین اس شہر کا ایک موثر، مضبوط، معتبر اور معروف حوالہ، اردو زبان و ادب کے فروغ میں اس کا ناقابل فراموش کردار بھی ہے۔ ’’انجمن پنجاب‘‘ سے ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ تک کا یادگار ادبی سفر، اردو زبان و ادب سے اس شہر بے مثال کی ناقابل فراموش محبت کی ایک ایسی داستان ہے جس کے بغیر اردو کی تاریخ یقیناً نامکمل ہے۔ اردو لسانیات کی ادق گتھیوں کو سلجھانا ہو یا ادبیات کی شعری و نثری اصناف کو ہییت و تخیل کے نئے تجربات کے ذریعے مزید بارآور بنانا ہو، مذکورہ شہر کے شعراء و ادباء نے ہر دو جہات میں ایسے لازوال شاہ کار تخلیق کیے جو آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔

انہی شان دار ادبی روایات کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے، ابوالفصاحت، رئیسِ سخن، میرِسلاست، روح ِمرثیہ حضرت میر انیس ؔرحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے ڈیڑھ سو سال مکمل ہونے پر، ان کی رثائی خدمات کو عقیدت مندانہ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ’’بزمِ راحت ِسخن‘‘،’’خیال نوِ‘‘ اور ’’عروس سخن ‘‘نامی ادبی تنظیموں کے باہمی اشتراک سے ۸ دسمبر بروز اتوار ’’میر انیس ؔکانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔

تقریب کا سب سے پہلا خوش گوار تاثر اس کا اپنے مقررہ وقت پر شروع ہونا تھا، جب کہ دوسرا مسرت آمیز اور حیرت انگیز تجربہ، کسی ادبی تقریب میں حاضرین کا اس قدر کثیر تعداد میں موجود ہونا تھا، چوںکہ عصرحاضر کی ادبی محافل میں شرکاء کی شمولیت ایک حد تک حوصلہ شکن ہی ہوتی ہے، مگر یہ اس تقریب کے عدیم النظیر ممدوح کی شاعرانہ عظمت تھی کہ میر ؔصاحب سے محبت کرنے والے ملک کے طول و عرض سے کشاں کشاں کھنیچے چلے آئے۔

 تقریب کی نظامت کے فرائض سید بابر زیدی اور روما زیدی نے بطریق احسن نبھائے۔ تلاوت قرآن پاک اور نعت خوانی کے بعد تقریب میں شامل مہمان خاصِ ڈاکٹر اسد اریب کو تقریب کے منصب صدارت کے لیے اسٹیج پر مدعو کیا گیا، جن کے ساتھ معروف محقق، معلم اور مرثیہ نگار ڈاکٹر ہلال رضا نقوی نے بطور نائب صدر اپنی نشست سنبھالی، جب کہ تقریب کے دیگر مقررین میں عابد مرتضی لکھنوی، کراچی سے تشریف لائے پروفیسر جوہر عباس، نامور خطیب اور محقق علامہ ارتضٰی عباس نقوی، معروف ادیبہ اور شاعرہ محترمہ تسنیم عابدی صاحبہ اور عادل مختار کے علاوہ استاد گائیک رضا علی خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ تقریب کے باقاعدہ آغاز سے قبل صدر ِبزمِ راحت ِسخن محمد علی ظاہر اور تقریب کے روح رواں محترم کاظم ناصری نے تشریف لانے والے تمام معزز مقررین اور قابل قدر حاضرین کی بھرپور تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا۔

 تقریب میں سب سے پہلے عادل مختار صاحب نے اپنا مقالہ ’’میر انیس کی شاعری میں negitive probability ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا، جس میں انہوں نے ’’جان کیٹس‘‘ کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی ایک شاعرانہ تخلیقاتی کیفیت کے تناظر میں میرانیسؔ کے کلام کا جائزہ لیا۔ اس کیفیت کے تحت ’’شاعر وفور تخلیق میں اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے خود کو مکمل طور پر اپنے شعری موضوع میں ڈھال لیتا ہے۔‘‘ ان کے بعد محترم عابد مرتضی لکھنوی نے میرانیس ؔکے حوالے سے اپنے والد استاد العلماء مرتضی حسین فاضلؔ لکھنوی کی تحریر کردہ تصانیف کا تفصیلی ذکر پیش کیا۔

بعد ازآں پروفیسر جوہرعباس نے اپنا پُرمغز مقالہ پیش کیا، جس کا موضوع تھا،’’میرانیس کے مرثیوں میں ایہام کی جلوہ آفرینی۔‘‘ جوہر عباس نے اپنے منتخب موضوع سے کماحقہ انصاف کرتے ہوئے میرانیسؔ کے کلام سے ایہام کی ایسی شان دار مثالیں پیش کیں کہ سامعین بے ساختہ جھوم اٹھے اور داد دیے بنا نہ رہ سکے۔ مقالے کے اختتام پر جوہرعباس نے اپنی اس خاطر خواہ اور حوصلہ افزاء پذیرائی پر شرکاء محفل کا خصوصی شکر ادا کیا۔ تقریب کے اس موڑ پر حاضرین کی روحانی غذا کا اہتمام کرتے ہوئے استاد رضا علی خان سے میرانیس ؔکے کلام کو مترنم انداز میں پیش کرنے کی استدعا کی گئی، جس پر انہوں نے مختلف راگوں کی بندشوں میں میرانیس ؔکے مختلف سلاموں کو کچھ انداز سے پڑھا کہ سننے والوں پر سحر طاری ہوگیا۔

 خطیب، محقق اور دانش ورعلامہ ارتضٰی عباس نقوی نے اپنے خطاب میں میرانیسؔ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ’’انیس اردو تہذیب کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ میرانیس نے سب سے پہلے سماجیات میں انسانی تعلقات کی اہمیت، بالخصوص انسانی رشتوں کے جذباتی پہلوؤں کو اپنے مخصوص شعری آہنگ میں بیان کیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’معاملہ خواہ ’شعر سازی‘ کا ہو یا ’موثر خطابت کا‘، رشتوں کے احترام کی بات ہو یا تمیزِحق و باطل کا مرحلہ درپیش، میرانیسؔ کے کلام سے ہر طرح کی راہ نمائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔‘‘

تقریب کے مہما ن ِخصوصی ڈاکٹر ہلال نقوی نے اپنا گراں قدر مقالہ بعنوان ’’کیا میرانیس آج بھی ہمارے ہم سفر ہیں؟‘‘ پیش کرتے ہوئے فرمایا،’’عصرحاضر کے سماجی انتشار میں انیس ؔکا مطالعہ پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔ میرصاحب کے مرثیے فقط ثواب دارین کے لیے نہیں بلکہ فہم و بصیرت کا سامان ہیں۔ میرانیس کو تعصباتی مسلک کی بھینٹ چڑھانا بجائے خود اردوادب کے ساتھ زیادتی ہے۔ میرانیسؔ نے اپنے کلام میں ہمیشہ سربلندی کا ذکر کیا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ میرانیس ؔکے مرثیوں میں طلوع آِفتاب کے مناظر تو جابجا ملتے ہیں مگر غروب آفتاب کی منظرنگاری نہیں ملتی۔‘‘

تقریب کے آخر ی مقرر ڈاکٹر اسداریب نے اپنے خطبۂ صدرات میں کانفرنس کے شان دار اور یادگار انعقاد پر منتظمین کو خصوصی مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد مرثیے کی پرداخت میں سب سے بڑا حصہ لاہور کا ہے، اور آج ایک بار پھر اس کانفرنس کے ذریعے رثائی ادب کے ذوق کو عام کرنے میں شہرِ لاہور نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا،’’میرانیس کے حوالے سے اس طرح کی تقریبات مزید ہونی چاہییں، تاکہ نہ صرف عوامی سطح پر میرانیس کے تعارف کو بڑھاوا ملے بلکہ ان کے ہمہ پہلو کلام کی مزید تحقیقی جہتوں کو بھی منظرعام پر لایا جا سکے۔‘‘

کانفرنس کے اختتام پر مہمانان گرامی کو یادگاری شیلڈز پیش کے گئیں جب کہ علامہ ارتضٰی عباس نقوی کے مرتب کردہ چار جلدوں پر مشتمل ’’کلیاتِ انیس‘‘ کی رونمائی بھی کی گئی۔

غرض اس کانفرنس کو موضوعاتی اہتمام، منعقدین کے حسنِ انتظام، مقررین کے حسن کلاِم اور سامعین کے پرشوق شرکت نے ایک ایسی یادگار تقریب بنادیا جس کی یادیں لاہور کی ادبی فضاؤں کو تادیر معطر و منور رکھیں گی۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ حا ل ہی میں کراچی میں منعقد ہونے والی چار روزہ ’’عالمی اردو کانفرنس‘‘ کے 64 سیشنز مین سے ایک بھی سیشن میرانیس ؔکے لیے مختص نہیں کیا گیا جو عالمی اردوکانفرنس کے منتظمین کی ’’اردو شناسی‘‘ اور ان کی ’’ترجیحات‘‘ کا کھلا ثبوت ہے۔

Load Next Story