سلمان رشید، کچھ باتیں کچھ یادیں

 سلمان رشید اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے تحقیقی سفرنامہ نگار ہیں

فوٹو : فائل

شام پاچ بجے۔۔۔لاہور

گذشتہ سفرِلاہور اس وقت خاص بن گیا جب میرے پسندیدہ ترین تحقیقی مصنف سلمان رشید صاحب سے ملاقات کا موقع ملا۔

 سلمان رشید اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے تحقیقی سفرنامہ نگار ہیں، وطن کا شاید ہی کوئی گوشہ ہو جہاں ان کے قدموں کے نشان ثبت نہ ہوئے ہوں۔ آپ پاک فوج سے بھی وابستہ رہے۔ دس سے زائد انگریزی کتب کے مصنف ہیں جن میں آپ کے کئی بہترین اخباری مضامین شامل ہیں۔ یہ کتابیں یونیورسٹیوں سے لے کر سفارت خانوں تک ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ آپ نے شمال کی وادیوں سے لے کر پنجاب کے دریاؤں، سندھ کی درگاہوں اور بلوچستان کے ویران ریلوے اسٹیشنوں تک کا سفر کیا اور انہیں خوب صورت تصاویر کے ساتھ کتب کی صورت میں ہمارے سامنے لائے، جو آْپ کی تحقیق کا نچوڑ ہیں۔

سلمان رشید صاحب کی مشہور کتابوں میں درج ذیل انگریزی کتب شامل ہیں؛

٭   Deosai: Land of the Giant

٭  The Apricot road to Yarkand

٭  Jhelum: City of the Vitasta

٭  From LandiKotal To Wagah

٭  Sea Monsters and the Sun God: Travels in Pakistan

٭  Salt Range and Potohar Plateau

٭  Gawadar: Song of the Sea Wind

٭  Prisoner on a Bus: Travels Through Pakistan

٭  Between Two Burrs on the Map: Travels in Northern Pakistan Gujranwala: The Glory That Was

٭  Riders on the Wind : Travels through Pakistan

٭  Mithi : Whispers in the sand

٭  Ziarat

سلمان رشید صاحب کو کئی ملکی اور غیرملکی پلیٹ فارمز پر سراہا گیا ہے اور آپ اب بھی کچھ تعلیمی اداروں میں لیکچر دے رہے ہیں۔ آپ سے ملنے کی خواہش بہت پرانی تھی کیونکہ جب میرے جیسے پالنے میں جھول رہے تھے، تب سلمان رشید صاحب سفر کر رہے تھے۔ سو وہ میرے لیے ایک بہت بڑی آئیڈیل شخصیت ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے مصنف اور میرے بہت اچھے دوست جناب ظفر عباس نقوی نے اس ملاقات کا اہتمام کیا جو سلمان رشید صاحب کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ٹھیک پانچ بجے ہم اُن کے گھر پہنچے تو موصوف نے پُرتپاک طریقے سے ہمارا استقبال کیا اور اندر اپنی لائبریری میں لے گئے جو بات کرنے کے لیے میرے نزدیک سب سے بہترین جگہ تھی۔ جگہ جگہ کتابیں اور پیپر بکھرے پڑے تھے، میں نے کچھ وقت لیا اور تمام کتب کو سکین کر کے دو چار چھانٹ لیں جن پر میری نیت خراب تھی۔ وقت کم تھا سو میں نے تمام تکلفات بالائے طاق رکھتے ہوئے گفتگو شروع کی اور ان سے کچھ سوالات کیے جن کے جواباً انہوں نے کسی دوست کی طرح ہنسی خوشی دیے۔

پہلا سوال تھا کہ اُس دور میں آپ نے بلوچستان اور دور دراز کے سفر کیے جب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، کیا مشکلات پیش آئیں؟

انہوں نے بتایا کے یہ جو کتابیں لکھی ہیں، یہ سب ایک ہی سفر میں ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لیے کسی بھی جگہ  دو چار بار جانا پڑتا ہے۔ کبھی چیزیں ملتی ہیں کبھی نہیں۔ وقت نکال کے دوبارہ یا تیسری بار بھی جانا پڑتا تھا۔ ہر قسم کی سواری استعمال کی کیوںکہ کئی جگہ پکی سڑک نہیں تھی، اور موبائل کا تو زمانہ ہی نہیں تھا، گھر والوں سے رابطہ کبھی کبھی ہوتا تھا۔

میرا سوال تھا کے دریائے سندھ کے پاس کھڑی انڈس کوئین کو آپ نے سب سے پہلے تب دریافت کیا جب وہاں راستے بھی کچے تھے اور اس کی تاریخ بھی آپ ہی کے توسط منظرِعام پر آئی، تو یہ سب آپ تک کیسے پہنچا؟

انہوں نے بتایا کہ اس کا مجھے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ایک بیڑی چلتی ہے کوٹ مٹھن کے پاس۔ میں وہاں پہنچا اور پوچھنا شروع کیا یہ کہاں سے آتی ہے؟ پتا چلا کہ یہ پہلے ستلج کوئین تھا جو ریاست بہاولپور کے نوابوں کی ملکیت تھا۔ اسی طرح مقامی لوگوں سے کافی معلومات ملیں، لیکن ہم چوکی داروں یا مقامیوں کی بتائی تاریخ پر انحصار نہیں کر سکتے، اس کے لیے پھر میں نے پڑھا اور آج سے چالیس سال پہلے مجھے سارا سارا دن لائبریری میں پڑھنا پڑتا تھا، تب جا کے معلومات ملتی تھیں، اور آج یہ سب ایک کلک سے مل جاتا ہے۔

میں نے بتایا کہ آپ کا بلوچستان کی چھپرگھاٹی کا سفر میرا پسندیدہ ہے اور میں نے بھی اس پر لکھا ہے۔ میری جین اور اس پورے علاقے پر آپ کی زبردست تحقیق ہے۔ انہیں سبی ہرنائی ٹریک کے حوالے سے آگاہ کیا کہ بحالی کے بعد پھر وہاں بارشوں نے تباہی مچائی تو وہ بند کرنا پڑا۔ اس دور کے بارے میں پوچھا تو سلمان صاحب نے کہا؛  میں بھی ٹرین پر گیا تھا خوست تک اور یہ بات ہے مارچ  1987 کی۔ وہاں اسٹیشن ماسٹر مانسہرہ کا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تھوڑا آگے زردالو ہے اور چھپر رفٹ ہے۔ میں نے پڑھا تو ہوا تھا اس کے بارے میں، پوچھا کیسے جاسکتا ہوں؟ کہتا ٹھہرو جیپ کروا کے آپ کو لے چلتا ہوں۔ خیر بیٹھ بیٹھ بیٹھ کے بس ہوگئی جیپ نہ ملی۔  انہوں نے بندہ بھیجا خوست، پتا چلا کہ ایک ہی جیپ تھی کسی کوئلے کے ٹھیکے دار کی جو وہ لے کر کہیں گیا ہوا ہے۔ وہ نہیں آ سکا، تو چھپر رفٹ رہ گئی۔ وہاں سے سولہ سترہ کلو میٹر تھی بس، میں نہ دیکھ سکا۔ پھر 1993 میں، میں دوسری طرف سے آیا زیارت والی سڑک سے۔ اس زمانے میں کوئی خطرہ نہیں تھا، پُرسکون علاقہ تھا۔ میں تو ایویں ہی پھرتا رہتا تھا، بیگ پیک اٹھایا اور نکل گیا۔

یہاں میں نے پوچھا کے وہاں کہیں آْپ کی پوسٹنگ ہوئی؟ تو بتایا کہ میری ساڑھے چھے سالہ فوج کی نوکری صرف پشاور اور کھاریاں تک محدود رہی ہے، اس کے علاوہ کہیں پوسٹنگ نہیں ہوئی۔

پھر میں نے انہیں اس گھاٹی کی کچھ تصاویر دکھائیں۔ اس دوران انہوں نے پوچھا کے آپ نے تصویریں دیکھنی ہیں خوست کی؟

اور ہم دونوں نے اثبات میں سر ہِلا دیا۔

میرا جواب سن کے انہوں نے لیپ ٹاپ پر اپنے پرانے البم کھول لیے۔ مجھے ریلوے اسٹیشن ’’خوست‘‘ کی تصویر دکھاتے ہوئے بولے کہ اب یہ عمارت ختم ہوچکی ہے لیکن اس کی کئی تصاویر میرے پاس محفوظ ہیں۔ ایک اور بلوچی بزرگ کی زبردست سی تصویر دکھائی جن کے چہرے پر عمررفتہ کی کہانیاں پڑھی جاسکتی تھیں، کہنے لگے کہ اس بندے نے ہمیں چھپررِفٹ اور دور و نزدیک کے بارے میں کافی کچھ بتایا تھا۔

ان کے ذخیرے میں کافی ایسے مقامات کی تصاویر محفوظ ہیں جو اب صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ یہ واقعی اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے۔ 

لکھنے کے حوالے سے میں نے پوچھا کہ آج کے دور میں تحقیق کے بہت سے ذرائع دست یاب ہیں لیکن آپ کے شروعاتی دور میں یہ سب نہیں تھا، پھر آپ معلومات کیسے حاصل کرتے تھے؟

انہوں نے بتایا کہ ہر دست یاب ذریعے سے معلومات لیتا تھا (اور آج کل کا ہر اچھا لکھاری ایسا ہی کرتا ہے)۔ انگریزی کتب جو یہاں کم یاب تھیں وہ  باہر سے منگواتا تھا، پُرانے لوگوں سے ملتا،  ان کی کہانیاں سنتا اور لائبریری میں بیٹھ کر کتابوں کی ورق گردانی کرتا تھا۔ بہت سی کتابیں پڑھتا تو پھر کہیں جا کے کچھ مواد اکٹھا ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سُنی سنائی پر اندھا یقین نہیں کرنا چاہیے، اسے کنفرم کرنے کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔

 پھر ذکر چھڑ گیا میری پسندیدہ جگہ ٹلہ جوگیاں کا۔

سلمان رشید صاحب ان چند لوگوں میں سے ہیں جو اس دور میں ٹِلہ پہنچے جب کوئی اس کے بارے میں جانتا بھی نہ تھا۔ انٹرنیٹ پر دست یاب ٹلہ کی اولین تصاویر میں سے چند تصاویر اُن کی بھی ہیں۔ میرے اس سوال پر کہ ٹِلہ جیسی جگہوں، جن کے بارے میں بہت سی سچی جھوٹی کہانیاں مشہور ہیں، کے بارے میں مستند تاریخی حقائق ڈھونڈنا مشکل نہیں ہوجاتا تھا؟

 اُن کا جواب تھا کہ ’’اکبرنامے‘‘ میں اس کا ذکر ہے، ’’تزکِ جہانگیری‘‘ میں بھی ہے اور انگریزوں نے بھی کچھ لکھا ہے کہ وہاں کے کیا حالات تھے، اس سے کچھ نہ کچھ پتا چل جاتا ہے۔ اور ایک بات بتاؤں، جب تک یہاں ٹی وی نہیں پہنچا تھا تو لوگوں کے پاس واقعی سینہ گزٹ موجود تھا۔ مثلاً 1973 یا 74 کی بات ہے جب میں کھاریاں میں پوسٹڈ تھا، تو ہم دو لیفٹیننٹ ٹلہ جوگیاں  اور روہتاس گئے۔ ہم وہاں قلعے پر پہنچے تو سر پر لکڑیاں اٹھائے ایک بابا ملا، ہم نے اپنا تعارف کروایا۔ ان سے گپ شپ کی تو پتا چلا کہ وہ خود بھی فوج میں تھے اور پہلی جنگ عظیم لڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے دو باتیں ہمیں بہت کمال کی بتائیں کہ قلعہ روہتاس کا مرکزی دروازہ اصل میں ’’زحل دروازہ‘‘ ہے جسے اب سُہیل دروازہ کہتے ہیں۔ اور اس کا نام زحل اس لیے ہے کہ جب یہ تعمیر ہورہا تھا تو زحل سیارہ بالکل اوپر تھا۔ آج کل زحل صبح کے وقت اوپر ہوتا ہے۔ اب وہاں دفن کسی پیر کا نام سہیل شاہ ہے تو دروازے کا نام بھی وہی رکھ دیا ہے۔ کسی ایک نے سہیل لکھا تو باقیوں نے بھی تحقیق کیے بغیر یہی لکھ دیا۔

میں نے اپنی کتاب ’’واہگہ سے لنڈی کوتل تک‘‘ میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔

ابھی حال ہی میں یہ چیز جب میں نے ٹوئٹر پر ڈالی تو ایک بھارتی حساب داں نے تحقیق کرکے مجھے بتایا کہ 1543 میں اُن مہینوں میں زحل واقعی اوپر تھا، اور یہ وہی وقت ہے جب یہاں تعمیرات کی جا رہی تھیں۔

تو آپ دیکھیں کہ بابا کو چار، ساڑھے چار سو سال پرانی بات بھی یاد تھی۔ دوسری بات یہ بتائی کہ جسے اب شاہ چاند ولی گیٹ کہتے ہیں یہ اصل میں ’’اِندرکوٹ دروازہ‘‘ ہے اور پہلے قلعہ صرف اسی کے اندر والا تھا، اور آپ تاریخ پڑھ لیں کہ شیر شاہ سوری جب اسے بنانے کا حکم دے کر گیا تھا تو ایک بار ہی یہاں آیا۔

 جِسے بڑے میاں اندرکوٹ دروازہ کہ رہے تھے وہی مرکزی دروازہ تھا اصل میں۔ چوںکہ شیرشاہ نے یہاں بیس ہزار فوج رکھنی تھی تو اسے یہ چھوٹا محسوس ہوا سو اس نے اسے وسیع کردیا تاکہ بیرکیں بنائی جا سکیں۔ اس کی تعمیر کے بعد وہ مرگیا۔ آپ یہ دیکھیں کے یہ پیر (چاند ولی) کدھر سے آ گیا؟ یہ سب ان لوگوں کی قبریں ہیں جو وہاں کرنل یا میجر رینک کے لوگ تھے۔ تعمیر کے دوران کسی پر پتھر گرگیا تو کوئی بیمار ہوکے مرگیا۔ 

اس بیچ مجھے خیال آیا کہ اپنے شہر خان پور میں موجود بی بی مائی صاحبہ (دادی نواب صادق محمد عباسی پنجم) کے تعمیر کروائے اس لاوارث مقبرے کے متعلق پوچھ لوں جس کی تعمیر کا سال وہاں کسی کو نہیں معلوم۔ انہیں تصاویر دکھائیں اور کچھ تاریخ بتائی۔ کہنے لگے کے یہ تو انیسویں صدی میں تعمیر کیا گیا لگتا ہے اور یہ 1850 کے آس پاس بنایا گیا ہوگا۔ اتنا تو مجھے اندازہ تھا کہ وہ مقبرہ لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پرانا ہو گا، لیکن سلمان صاحب کی ماہرانہ رائے سے فائدہ اٹھانا بھی ضروری تھا۔

اگرچہ بہت سی باتیں ابھی رہ گئیں لیکن تھوڑے کو بہت جانتے ہوئے یہ چند باتیں آپ کے لیے پیش کردیں۔

یہ ایک بہترین شام تھی جس کی یادیں میرے ساتھ دیر تک رہیں گی۔

Load Next Story