قارئین کرام! دوہفتے کی بوجوہ غیرحاضری کے بعد، آج راقم ایک مرتبہ پھر ایک نئے موضوع کے ساتھ حاضرِخدمت ہے۔
میرے واٹس ایپ حلقے ’بزم زباں فہمی‘ میں ہونے والی روزمرّہ گفتگو سے محض اراکین ہی کی معلومات میں اضافہ نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات کچھ مباحث سے کوئی ایسی نئی بات دریافت ہوتی ہے جو خاکسار کو آمادہ تحقیق کرتی ہے اور بحمداللہ! کئی موضوعات پر اسی سلسلے میں ایسا مواد مرتب ہوکر روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین کی زینت بنا کہ اس سے پہلے یا تو اُس موضوع پر لکھا نہیں گیا تھا، تحقیق نہیں ہوئی تھی یا نامکمل اور تشنہ مواد دستیاب تھا۔ تازہ بات یہ ہوئی کہ کسی صاحب نے کہیں یہ لکھا کہ لفظ ’لفظ‘ کی جمع ’لفظیں‘ بھی ہوتا ہے۔
ہم نے حسبِ معمول کہا کہ اُن سے ثبوت طلب کریں۔ بس پھر کیا تھا، ثبوت وہاں سے آیا تو اَدھورا تھا اور ہمارے فاضل اراکین نے جو فوری توجہ کی تو ہمیں حوالہ جات سے مالا مال کردیا کہ صاحب! یہ بھی ہوتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قبل اردو بول چال کی ہلکی پھلکی، غیرمعیاری شکل یعنی عوامی بولی یا تحتی یا ذیلی بولی عُرف Slang سے مِلتی جُلتی مثالیں پیش کی جائیں۔ ہمارے یہاں زمانہ قدیم سے جیل (Jail) کی جمع جیلیں اور ریل (Rail) کی جمع ریلیں (بمعنیٰ ٹرینTrain) رائج ہیں اور شاید کبھی کسی نے ان کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا ہوگا۔ یہاں ایک بہت پرانا لطیفہ یاد آرہا ہے:
کوئی صاحب بغیر ٹکٹ خریدے ، ریل پر سوار ہوئے اور جب ٹکٹ چیکر نے ٹکٹ کا پوچھا تو بڑے مزے سے بولے،’’اب ہم آزاد ہیں، ہمارا مُلک آزاد ہے۔ یہ ریلیں ہماری ہیں، ہم کیوں ٹکٹ خریدیں؟‘‘۔ حاضر جواب ٹکٹ چیکر نے فوری جواب دیا: ’’جی جی حضور! جیلیں بھی تو آپ کی ہیں، چلیں تشریف لے چلیں‘‘۔
ویسے سوچنے کی بات ہے کہ جب سہولت کی جمع سہولیات غلط ہے تو جیل کی جمع جیلیں اور ریل کی جمع ریلیں کیسے صحیح قرار پاگئیں؟ یہ وہی بات ہے کہ جب کوئی ہم سے ایسا سوال کرے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ بھئی رائج ومروّج کا معاملہ ہے۔ بس رائج ہوگیا تو صحیح ہے!
کوئی تین چار عشروں سے کراچی میں اخبار کی جمع اخبارات کی بجائے ’اخباریں‘ سننے کو مِل رہی ہے، بلکہ کہیں لکھی ہوئی بھی دیکھی ہے۔ یہ لفظ گجراتی، میمن ، سندھی اور پنجابی حضرات، اردو بولتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ حضرات بینک کی جمع بینکیں بولنے لگے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، انگریزی الفاظ کی اردو میں جمع بھی بنائی جانے لگی ہے اور یہ تمام متغیر الفاظ اب ہمارے اہل ِزبان کے گھروں میں بھی بولے جارہے ہیں۔ اب لوگ بجائے تاریخ کے Date بولتے ہیں تو اِس کی جمع ڈے ٹیں، معاوضے کی بجائے Payment سب کے منھ پر چڑھ گیا ہے تو اِس کی جمع پے مینٹیں، CD کی جمع سی ڈیاں، Design کی جمع ڈی زائینیں، لاش کی جگہ ڈیڈ باڈی اور جمع ڈیڈ باڈیاں یا فقط باڈیاں .....علی ہٰذا القیاس!
یہ سارا تماشا اس لیے ہے کہ اب اہل ِ زبان بھی خود اَپنی زبان سے دُور ہوگئے ہیں۔ سہل کوشی اور سہل پسندی ہمارا قومی شعار ہے۔ ہمیں ہر شعبے میں پکی پکائی کھانی کی عادت پڑگئی ہے۔ اب تو شاعری Ready-made مل جاتی ہے، پی ایچ ڈی بھی ڈیڑھ دو ماہ میں ہوجاتا ہے، حسبِ ضرورت سائل کو کچھ رقم دے کر لکھوا بھی لیا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں ایک نامور ’محقق‘ نے سودا کرکے اُس موضوع پر پی ایچ ڈی کیا جس کے متعلق کبھی کوئی تحریر اُن کے قلم سے منصہ شہود پر نہیں آئی۔ یہ سب چلتا رہتا ہے کیونکہ ’’دنیا ہے، چلتا ہے...............چلنے دو، ہونے دو‘‘۔ دروغ برگردن ِ راویان، پہلے تو محض یہ ہوتا تھا کہ بیرون ِ ملک مقیم شعراء ومتشاعر اپنے خرچ پر (حتیٰ کہ اصل لاگت سے بھی زیادہ) کتاب لکھ کر یا لکھواکر، شایع کروانے کے بعد، اپنے اعزاز میں تقریب یا تقاریب (وہ بھی اپنے خرچ پر) پاکستان آکر منعقد کرواتے تھے، پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ بقول کسے ’کانفرنس‘ کے نام پر ہونے والے میلے میں بھی لوگ دیارِغیر سے مال خرچ کرکے شریک ہونے لگے۔
’’نجی تعلقات‘‘ کی بنیاد پر بھی بہت کچھ ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا، کیونکہ طلب بھی رَسَد کے حساب سے موجود یا قائم رہتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان ہی نہیں ہندوستان کے اہل ِ ادب بھی بہت سی ’’بے ادبیاں‘‘ کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ ہندوستانی معاصر جناب شموئیل احمد (مرحوم) نے ایک افسانہ ’لُنگی‘ لکھا تو اُنھیں ایک جامعہ میں باقاعدہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ کرداروں کے حقیقی ہونے سے قطع نظر، یہ سلسلہ تو اَب محض چند افراد تک محدود نہیں رہا، ہمارے یہاں اسکول سے جامعہ تک سب چل رہا ہے۔
ہماری محبوب ومرغوب ’فرہنگ ِ آصفیہ‘ میں لفظ ’لفظ‘ کے باب میں لکھا ہے:
’’لفظ (عربی) اسم ِمذکر: لغوی معنیٰ مُنہ سے باہر پھینکنا اور بات کہنا، اصطلاحی شَبد، کلِمہ، بات، لُغت، بول جو مُنہ سے نِکلے، وہ بامعنیٰ کلمہ جو آدمی کے مُنہ سے نکلے، بعض لغت نگاروں نے لغوی معنیٰ صرف پھینکنا بھی لکھے ہیں‘‘۔
اس کی نسبت نُوراللغات میں قدرے تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے:
دہلی میں مذکر، لکھنؤ میں مذکرومؤنث دونوں طرح بولتے ہیں، کثرت ِ استعمال تذکیر کے ساتھ ہے۔ا)۔ وہ کلمہ جو مُنہ سے نکلے۔
( ب)۔
کلمہ، بات ؎ ہے طلب سے اس قدر نفرت کہ رہتا ہے خیال
آنہ جائے لفظِ لب پر باب استفعال کا
(ناسخؔ)
؎وصل کی رات بنا نامہ ٔ شوقِ گیسو
شام لفظیں ہیں، سفیدی ہے سحر کاغذکی
(رشک ؔ)
یہاں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ شیخ امام بخش ناسخ ؔ(10اپریل 1772ء تا 16اگست 1838ء) جیسا زبان داں جو ہماری زبان میں ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتا ہے، اصلاحِ زبان کی تحریک چلانے والا سب سے مستند سخنور تھا، ایسا لفظ استعمال کرگیا جو اپنی ساخت میں عجب اور بے اصل تھا اور استعمال کے لحاظ سے لکھنؤ تک محدود۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ چونکہ وہ لکھنؤ کی بطور شعری مکتب آزاد حیثیت کے بانی تھے، اسی لیے انھوں نے ایسا لفظ برتا ہوگا جو دہلی میں پایا نہیں جاتا تھا۔ یہاں پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا آج کل ہوتو کیا اُسے اہل ِ زبان کی سندِقبولیت مل سکتی ہے؟
ناسخؔ ہی کے شاگرد، میر علی اوسط رشکؔ لکھنوی تھے جنھوں نے ناسخ ؔ کا تیسرا دیوان ’’دفتر شعر‘‘ کے نام سے مرتب کیا، ماقبل ’دیوانِ ناسخؔ‘ اور ’دفترِپریشاں‘ شایع ہوچکے تھے، جبکہ اُن کا کلیات، اُن کی وفات کے ساڑھے چار سال بعد 21 ذو الحجہ 1285ھ مطابق 23 جنوری 1843ء کو میر حسن رضوی کے مطبع محمدی‘ لکھنؤ میں چھپ کر شائع ہوا۔ دیوانِ سوُم میں شامل تتمہ کے اندراج کے مطابق اِس دیوان کی غزلیں، ردیف وار دیوان دوُم کی غزلوں میں ضم کردی گئی ہیں۔ کلیاتِ ناسخ کی پہلی اشاعت کے وقت نگراں، رشکؔ نے اِس اشاعت کا ایک مفصل اغلاط نامہ بھی مرتب کرکے ’’تصحیح اغلاط و تنقید ِ الفاظِ کلیات شیخ امام بخش ناسخ از میر علی اوسط متخلص بہ رشکؔ‘‘ کے عنوان سے آخر میں شامل ہے۔
معروف محقق رشید حسن خان نے ’’انتخاب ِناسخؔ‘‘ کے مقدمے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ: ’’غلط نامہ (اغلاط نامہ) میں بعض غلطیوں کی تصحیح اِس طرح کی گئی ہے جس پر تصحیح کی بجائے ترمیم کا گمان ہوتا ہے‘‘۔ انھوں نے اس ضمن میںبعض الفاظ کی تبدیلی کے پہلو بہ پہلو پورے مصرع کی تبدیلی کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ اس سے معلوم ہواکہ رشکؔ لکھنوی نے اپنے ہی استاد کے کلام پر ’اصلاح‘ دیتے ہوئے اُس کا حُلیہ بِگاڑا ہے۔ یہی رائے ممتاز محقق گیان چند جین کی ہے جنھوں نے اختلافِ متن کی نشان دہی کی تھی۔
اردو لغت بورڈ کی بائیس جلدوں پر مشتمل عظیم لغات کے خلاصے یعنی مختصر اُردولغت مبنی بر دو جلد میں ’لفظیں‘ کا اندراج نہیں، جبکہ آنلائن لغت ریختہ میں اس کا اِندراج مع شعریوں ملتا ہے:
محصل نظمِ ثاقب ؔ کا نہ پوچھو
فقط لفظیں ہیں، مطلب کچھ نہیں ہے
(ثاقبؔ لکھنوی)
محصل، لفظ ماحصل کا مخفف ہے۔ اسی لغت میں ’لفظ‘ کے باب میں استعمال کی مثال یہ درج کی گئی ہے:
ایسی سخت لفظیں فرمائیں کہ ملکہ مہ جبیں رونے لگیں
سوال یہ ہے کہ جب ہم اُردو کے کسی طالب علم کو واحد جمع کے متعلق بتاتے ہیں تو ایسے مستثنیات کی توجیہ کیونکر ممکن ہے؟ راقم کی رائے میں ’لفظیں‘ محض لکھنؤ تک محدودومخصوص ہونے کی وجہ سے ہرگز لائق تقلید نہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں دلِّی، دکن، بِہار، راجستھان، پنجاب اور دیگر علاقوں میں مل جائیں گی۔ خیر جب بات ناسخ ؔ کی ہو ہی رہی ہے تو لگے ہاتھوں اُن کی خدمات کا سرسری ذکر بھی کردیا جائے۔ اُردو کی ادبی زبان کی تشکیل بتدریج ہوئی اور قدیم ترین عہد یعنی غزنوی میں مسعودسعد سلمان لاہوری (1046ء تا 1121ء) کے دیوان ِ ہندوی کا محض ذکر ہی ملتا ہے، دیوان کا کوئی نسخہ محفوظ نہیں، البتہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہندوی یعنی قدیم اُردو اُس وقت تک ایسی زبان بن چکی تھی جس میں شاعری بھی کی جاسکتی تھی۔ اب ہمیں ہندوی سے ریختہ بننے کے سفرمیں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (1143ء تا 1236ء)، بابا فریدالدین گنج شکر (1188ء تا 1266ء) ، خواجہ نظام الدین اَولیاء (1238ء تا 1325ء)، امیر خسرو (1253ء تا 1325ء) اور مخدوم شرف الدین یحیٰ مَنیری (1263ء تا 1381ء) رحمہم اللّہ کے اسمائے گرامی نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ ماقبل اسی سلسلہ زباں فہمی میں متعدد بار ذکر کرچکا ہوں، ان بزرگوں میں بابافرید کے کچھ اور مخدوم بِہاری کے متعدد ملفوظات کی شکل میں اُن کی زبان کے کچھ نمونے ملتے ہیں، جبکہ امیرخسرو سے منسوب جعلی کلام کا ایک بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ میرے گذشتہ مضامین میں چند ایک قدیم نام اور بھی ملتے ہیں، مگر سرِدست حوالہ جاتی کتب میں تلاش نہیں کرپایا اور اپنے ہی مضامین میں بھی آنلائن تلاش کرنا فی الحال مشکل ہے۔ یہ سارے نام گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ اردو ہرگز کوئی دو سو سال پہلے کی زبان اور اِنگریز کی دین نہیں!
اردو کے ہندی رُوپ میں ہمیں کھڑی بولی کی وہ شکل نظر آتی ہے جسے ہندی کا نام دے کر ایک الگ دھارا سمجھا گیا اور اس کا ثقیل حصہ سنسکِرِت سے قریب تر اور بھجنوں میں شامل ہے۔
اُس دور میں بھگتی تحریک کے سَرخَیل بھگت کبیر کا نام سب سے نمایاں ہوا۔ بقول ڈاکٹر سہیل بخاری، مذہبی افتراق کے سبب اردو اور ہندی کے دھارے یکسر جُدا ہوئے تو ایک طرف عربی وفارسی وترکی سے اشتراک بڑھا تو دوسری جانب سنسکِرِت سے ارتباط، نتیجہ یہ ہوا کہ ’’اس طرح ہندی اور اُردو کی درمیانی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی اور آج ہندی اور اُردو، یورپ کی کروشین اور سربین کی طرح ایک زبان سے دو زبانیں بن گئیں‘‘۔ (’’ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ‘‘)۔
یہ بات بھی دُہراتا چلوں کہ برّعظیم کے کونے کونے، چپّے چپّے میں مقامی بولیوں اور زبانوں سے اشتراک کی وجہ سے اُردو کا علاقائی ڈھانچہ یا خاکہ تیار ہوتا گیا اور ہر نمونہ دوسرے سے قدرے مختلف یا یکسر جُدا ثابت ہوا۔ ہندکو، گوجری ، پہاڑی، پوٹھوہاری، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو اور پھر دیگر زبانوں سے حیرت انگیز اشتراک ومماثلت کے باب میں کئی مضامین ماقبل لکھ چکا ہوں۔ یہاں بس یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری ادبی تاریخ بھی فقط شمالی ہند یا دِلّی سے شروع نہیں ہوئی، بلکہ بابا فرید کے دور تک ، خصوصاً بِہار، آسام، بنگال، دکن اور مابعد پنجاب میں شعری ادب خوب پروان چڑھا اور پھر اِس میں سب سے کلیدی کردار ادا کرنے کا سہرا، ولیؔ گجراتی دکنی کی تقلید میں دہلوی شعراء کے سر بندھا۔ امیرخسرو کے کلام میں پایا جانے والا ریختہ (زِحالِ مسکین مَکُن تَغافل) بتدریج ایک مکمل طرزِاظہار بنا تو پوری زبان ہی کا یہ نام ہوگیا جس کی معیاری شکل عربی، فارسی اور تُرکی سے مغلوب تھی یعنی عربی، فارسی و تُرکی آمیز تھی۔ نثر تو یوں بھی بہت کم کم تھی، ہر جگہ پیرایہ اظہار شعر ہوا کرتا تھا۔
سو اِس باب میں بھی اردو کی اوّلین نمایاں صورت ریختہ کی تھی، پھر اِس کے ساتھ ساتھ ایہام گوئی کا دَور چلا اور بہت جلد صاحبانِ علم اس سے بیزار ہوئے تو ایک صوفی عالم باعمل سخنور میرزا مظہرجانِ جاناں کی تحریک رنگ لائی اور ہماری زبان کو نہ صرف غیرضروری عربی، فارسی وتُرکی اَثرات سے آزاد کیا گیا، بلکہ شُدھ ہندی (سنسکِرِت الاصل) کا غلبہ بھی کم کردیا گیا۔ اس باب میں ’حریفِ میرؔ‘ انعام اللہ خاں یقینؔ اور شاہ حاتم ؔ نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، شُدہ شُدہ اس تحریک میں عبدالحئی تاباںؔ، میرزا رفیع سوداؔ، خواجہ میر دردؔ اور میرتقی میرؔ بھی شامل ہوگئے۔ میرؔ صاحب نے بھی اپنے تئیں زبان میں بعض لسانی اجتہاد کرتے ہوئے سیر، جرّاحت، جان اور خلعت جیسے الفاظ کو مذکر باندھا تو دوسری طرف خواب، حشر، گلزار اور مَزار جیسے الفاظ کو مؤنث ٹھہرایا، ہرچند کہ اس پر عمومی اتفاق نہیں ہوا۔ لکھنؤ میں مُصحَفی اور ناسخ کے دور میں زبان کی صفائی کے ساتھ ساتھ، آرائش وتزئین کا کام خوب کیا گیا۔ ناسخؔ نے گزشتہ اساتذہ سخن کی لفظیات کو اَپنی اُفتادِ طبع سے گویا منسوخ کرتے ہوئے قدیم پراکِرِت الفاظ نکال دیے۔ انھوں نے فارسی قواعد کو رِواج دیتے ہوئے اردو کو رَواں کردیا۔ اُن کے نزدیک سجن کی جگہ صنم، جگ کی جگہ دُنیا، ٹُک کی جگہ ذرا اور دارُو کی جگہ دَوا کا استعمال موزوں تھا۔ آج ہم فہرستِ متروکات ناسخ کے یہاں دیکھتے ہیں یا اُن کے بہت بعد ، حسرتؔ موہانی کی ’نِکاتِ سخن‘ میں۔ ناسخ نے شعری معائب کا دروازہ بڑی حد تک بند کردیا۔
اُنھوں نے دِلّی کی بامحاورہ زبان کے متوازی لکھنوی لب ولہجہ رائج کیا اور اِسے سندِ اعتبار بخشی۔ اُن کے بالمقابل فارسی کا مستند ہندی سخنور غالب ؔ اُبھرا اور پھر ناسخ کی تحریک کے رَدّعمل کے طور پر ہمیں اِنشاء اللہ خاں انشاءؔ میدان عمل میں دکھائی دیے، جنھوں نے ’رانی کیتکی کی کہانی‘ جیسے مختلف کارنامے سے اردو کو مقامی رُوپ عطا کرتے ہوئے اُس کی ماؤں عربی وفارسی سے دُور کردیا۔ بہرحال یہ تعمیروتشکیل کا ایک طویل سلسلہ تخریب و تعمیرِنو سے بارہا دوچار ہوا اور آج ہماری ادبی زبان میں کسی بھی دوسری زبان کا غیرضروری غلبہ نظر نہیں آتا۔ اگر کوئی شعوری کوشش سے ایسا کرتا ہے تو فوراً نظروں میں آجاتا ہے۔ یوں بھی ہمارے یہاں اردو ہی پر گرفت بہت سوں کی مضبوط نہیں ہوتی، چہ جائیکہ وہ لسانی تجربات کرتے ہوئے دیگر زبانوں سے ٹھیک ٹھیک استفادہ کرسکیں۔