جس زمانے میں پاکستان میں ایک ہی ٹی وی چینل یعنی پی ٹی وی ہوتا تھا، ہم اس پرایک پروگرام ’مائنڈ یور لینگویج‘ بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ اس وقت سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ ٹی وی چینلز پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ایک دوسرے سے بحث کرتے ہوئے دشنام طرازی پر اتر آئیں گے۔ اور کچھ تو خواتین کے لیے بھی شرم ناک زبان استعمال کریں گے۔ اور بات صرف ٹی وی چینلز تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پارلیمان اور سیاسی جلسوں میں بھی غیرمہذب زبان استعمال کی جائے گی۔
ابلاغ کی بنیاد زبان ہے، سیاست زبان سے متاثر ہوتی ہے۔ سیاسی لسانیات ایک پرفارمنس ہے۔ آپ کیسے تقریر کرتے ہیں، عوام کے دلوں میں اپنی پارٹی کی جگہ بنانے کے لیے آپ کیسا منشور لکھتے ہیں۔ یہ آپ کے الفاظ ہی ہیں جو عوام کو آپ کے قریب لاتے ہیں۔ زبان کا ریاست کی تشکیل، اس کے طرزحکم رانی میں ایک کردار ہوتا ہے۔
اس لیے زبان کے استعمال کے بارے میں محتاط رہنا ضروری ہے۔ زبان مختلف طرح سے سیاست پر اثرانداز ہوتی ہے۔ جارج اورویل نے 1946میں، سیاست اور انگریزی زبان، کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، جس میں انہوں نے اس دور میں لکھی جانے والی بری اور غلط انگریزی پر تنقید کی تھی اور سیاسی کٹرپن اور تقلیدپسندی کا زبان کی بے قدری سے تعلق جوڑا تھا۔
سیاسیات اورانگریزی زبان کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کیسے عوام پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے لیے لسانی تیکنیکوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک اہم بات ہے کیوںکہ ا س سے بہت سے تاریخی واقعات کی وضاحت ہوتی ہے مثال کے طور پر ہٹلر کی تقریریں جن کی وجہ سے دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ سیاسی بیانیے کو کیوں اور کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان اور طاقت میں کیا رشتہ ہے۔ زبان کو آئیڈیاز کے ابلاغ کے لیے اور لوگوں پر اپنا اختیار جمانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم سیاست دانوں کے گندی زبان کے استعمال اور گالم گلوچ پر بات کریں گے۔
یہ سمجھنا غلط ہے کہ مغلظ زبان تشدد کا سبب بنتی ہے۔ مغلظ زبان تو خود ہی تشدد ہے۔ کسی کو گالیاں دے کر یا توہین آمیز الفاظ استعمال کرکے آپ اس پر زبانی اور ذہنی تشدد ہی تو کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان کے سیاست دانوں میں غلیظ زبان استعمال کرنے کا رحجان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہماری رائے میںسیاسی ماحول کو آلود ہ کرنے کا چلن ایوب خان کے زمانے سے شروع ہوا۔
مارشل لا لگاتے ہی انہوں نے سارے سیاست دانوں پر پابندی لگا دی تھی اور جب 1965 کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی مشترکہ امیدوار کے طور پر کھڑی ہوئیں تو نہ صرف انہیں ہرانے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کی گئی بلکہ ان کے خلاف انتہائی توہین آمیز زبان بھی استعمال کی گئی۔ انہیں غدار تک کہا گیا مگر رسول بخش رئیس کے بقول سیاست میں گالم گلوچ یا ناشائستہ زبان استعمال کرنے کا آغاز ستر کے عشرے کے اوائل میںذولفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف ایک مقبول عوامی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے کیا۔ اپنی تقریروں کے دوران وہ عوامی مجمعوں میں مخالف سیاست دانوں کے خلاف توہین آمیز باتیں کرتے تھے، ان کا مضحکہ اڑاتے تھے اور انہیں برے برے القابات سے نوازتے تھے۔
ہمارے مذہب اسلام کے مطابق مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے دوسرے مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچے۔ سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی ناشائستہ گفتگو سے عوام میں ان کے امیج پربہت برا اثر پڑتا ہے۔ اس سے سرکاری ادارے اور حکومتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
22 جون 2024 کو پاکستان تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کے رکن قومی اسمبلی ثنا اللّہ مستی خیل کی رکنیت معطل کی گئی کیوںکہ انہوں نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران خواجہ آصف کو گالی دے دی تھی، جس پر ان کی پارٹی کے لوگ ہنسنے لگے اور ڈیسک بجائے، جب کہ سرکاری بنچوں کی جانب سے احتجاج ہوا اور انہیں معطل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جب کہ 2016 میں خواجہ آصف نے اسمبلی میں پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نازیبا الفاظ کہے تھے، ایک اور رکن نے آواز لگائی تھی، آنٹی! چپ کر جاؤ۔ اسپیکر نے خواجہ آصف کے ریمارکس کارروائی سے حذف کرا دیے تھے۔ جب شیریں مزاری نے احتجاج کیا تو خواجہ آصف نے کہا، یہ لوگ جو چاہے کرلیں، میں معافی نہیں مانگوں گا۔ اگلے سال انہوں نے فردوس عاشق اعوان کے خلاف اسی طرح کی زبان استعمال کی۔
عمران خان کے مشیر شہباز گل بھی مغلظ زبان استعمال کرتے تھے۔ مارچ 2022 میں کامران شاہد کے شو میں انہوں نے رمیش کمار کے خلاف بارہا نازیبا الفاظ استعمال کیے، جس پر پروگرام میں موجود خواتین نے شدید احتجاج کیا۔ بعد میں شہبازگل نے رمیش کمار کے گھر جا کر ان سے معافی مانگ لی تھی۔
اکتوبر 2022 میں سینیٹ کے اجلاس میں ہمارے سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ جولائی 2023 میں خواجہ آصف نے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نازیبا زبان استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اخلاق باختہ عورتوں کو پارسائی پر لیکچر نہیں دینا چاہیے۔
انہوں نے ایوان میں موجود پی ٹی آئی کی خواتین کو عمران خان کی باقیات، کوڑا کرکٹ اور کھنڈرات قرار دیا۔ خواتین کے احتجاج کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ماحولیات اور کلائمٹ چینج کی اس وقت کی وفاقی وزیرشیری رحمٰن بھی وہاں موجود تھیں، اگلے دن انہوں نے ’ٹویٹ‘ کیا کہ وہ اس وقت اپنے کولیگ سے کلائمٹ چینج کے ایکشن پلان کے بارے میں بات کر رہی تھیں، اس لیے وہ خواجہ آصف کی بات نہیں سن پائیں، انہوں نے اس پر معذرت کی۔
پاکستان کے سنیئر سیاست داں شیخ رشید اکثر مواقع پر نا زیبا الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ جب انہوں نے بلاول بھٹو کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی تو پاکستان پیپلزپارٹی نے ان پر مقدمہ دائر کردیا تھا۔
اس کے بعد جب وہ لندن گئے تو پیپلزپارٹی کے دو نوجوان کارکنوں نے ان پر انڈے پھینک کر مارے۔ فروری 2023 میں جب اسلام آباد پولیس انہیں گرفتار کرنے پہنچی تھی تو انہوں نے پولیس کو بھی گالیاں دیں۔ اپریل 2017 میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت کے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی تقریر کے دوران اسپیکر ایاز صادق نے خواتین ارکان اسمبلی سے کہا کہ وہ یا تو خاموش ہوجائیں یا باہر جا کے باتیں کریں۔ خورشیدشاہ نے کہا کہ عورتوں کو باتیں کرنے سے مت روکیں، اگر یہ مسلسل باتیں نہیں کریں گی تو بیمار پڑجائیں گی۔ اس پر نفیسہ شاہ نے کھڑے ہو کر احتجاج کیاکہ مرد بھی تو باتیں کر رہے ہیں، صرف عورتوں کو کیوں منع کیا جارہا ہے۔ اس پر اسپیکر نے کہا کہ وہ انہیں چیلینج نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح ایک اور سیشن میں مسلم لیگ (ن) کے جاویدلطیف نے مراد سعید کی بہنوں کے بارے میں نازیبا باتیں کیں، جن پر معاشرے میں ہر کسی نے احتجاج کیا۔
سنیئر صحافی نصرت جاوید کے بقول انہوں نے سب سے پہلے ساتھی خاتون سیاست دانوں کے بارے میں جس مرد سیاست داں کو نا زیبا باتیں کرتے ہوئے سنا، وہ شیخ رشید تھے۔
ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو ہرے رنگ کی قمیص اور سفیدشلوار پہن کر ایوان میں آئیں تو شیخ رشید نے غلط جملے ادا کیے، بے نظیر کو یہ بات پسند نہیں آئی اور ایوان میںاچھا خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ شیخ رشید نے ایک مرتبہ اور بے نظیر کے حلیے کو اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ پیلے رنگ کا سوٹ پہن کر آئیں، اس وقت شیخ رشید تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، جب وہ باہر جانے لگیں، تو انہوں نے بے نظیر کے لیے وہ القاب استعمال کیے، جسے ہمارے ہاں بہت ہی توہین آمیز سمجھا جاتا ہے۔ اسی شام کو بے نظیر کی گورنر پنجاب سے میٹنگ تھی۔ شنید ہے کہ جب وہ وہاں پہنچیں تو ان کی آنکھیں رونے کے باعث سرخ ہو رہی تھیں۔ اسی رات کو شیخ رشید پر غیر قانونی ہتھیار رکھنے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا۔
2018میں جب شیخ رشید نے انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری کے افراد کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام میں توہین آمیز الفاظ ادا کیے تو اداکارہ آرمینا خان نے لکھا: کون ہے یہ شخص، یہ فلم انڈسٹری کے بارے میں اتنی غلیظ زبان کیوں استعمال کر رہا ہے۔مین اسٹریم ٹی وی پر فحش زبان استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ انہوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ایسے لوگ لیڈر بنے ہوئے ہیں۔
غیر پارلیمانی زبان کا استعمال دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ نیوزی لینڈ میں تو 1930ء کے عشرے میں غیر پارلیمانی الفاظ کی باقاعدہ ایک فہرست مرتب کی گئی۔ آسٹریلیا کے سینیٹ میں 1997ء میں ’’جھوٹا‘‘ اور ’’احمق‘‘ کو غیر پارلیمانی الفاظ قرار دیا گیا۔ ایسے الفاظ جن سے دین کی تحقیر کا پہلو نکلتا ہو، ہمیشہ سے غیرپارلیمانی رہے ہیں۔ جنسی عمل اور اس حوالے سے عورتوں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ سے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے۔ ’’شٹ‘‘ اور ‘‘بل شٹ‘‘جیسے الفاظ کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے، لیکن انھیں غیر پارلیمانی سمجھا جاتا ہے۔
کوئنز لینڈ کی پارلیمان میںبھی کسی رکن کے بارے میں غیر اخلاقی اور توہین آمیز الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیا گیا ہے۔ بیلجیم میں غیر پارلیمانی الفاظ جیسی کوئی چیز نہیں ملتی۔ کوئی بھی رکن پارلیمان، جو دل چاہے بول سکتا ہے۔ ان کی رائے میں اگر بیلجیم ایک جمہوری ریاست ہے، تو کچھ بھی بولنا ارکان کا آئینی حق ہے۔
کینیڈا کے قانون ساز اداروں میں ایسے بہت سے الفاظ جن کا مقصد ایک دوسرے پر بھپتی کسنا یا ایک دوسرے کا مضحکہ اڑانا یا اس کی توہین کرنا ہو، غیر پارلیمانی قرار دیے جا چکے ہیں۔ فیجی کی پارلیمان میں 2021ء میں غیر پارلیمانی زبان کے بارے میں بحث ہو چکی ہے۔ ہانگ کانگ کی لیجسلیٹیو کونسل کے صدر 1996ء اور 2009ء میں ’’جہنم میں جاؤ‘‘ اور ’’جاؤ مرو‘‘ جیسے چند الفاظ غیر پارلیمانی قرار دیے جا چکے ہیں۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ نے2012ء میں ایسے الفاظ اور جملوں پر مشتمل کتاب شائع کی جو غیر پارلیمانی ہیں۔ ان میں ’’علی بابا چالیس چور‘‘، ’’بلیک میل‘‘، ’’انگوٹھا چھاپ‘‘ کسی خاتون رکن کو ’ڈارلنگ‘ کہنا جیسے الفاظ شامل ہیں۔ 2022ء میں لوک سبھا سیکریٹریٹ نے اس کتاب میں مزید الفاظ شامل کیے۔
آئر لینڈ میں بھی ایوان میں بد نظمی کے حوالے سے بہت سے الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دیا گیا ہے۔ چئیر پرسن کے توجہ دلانے پر ارکان اپنے الفاظ واپس لے لیتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اٹلی کی تاریخ میں کسی رکن پارلیمان کی آزادی اظہار پر واحد پابندی غیر پارلیمانی الفاظ ہیں، بقول ایک رکن کے ’’مجھے دانش مندی یا غیر دانش مندی سے نہیں، بلکہ پارلیمانی طریقے سے بولنے کے لیے کہا جاتا ہے۔‘‘ نیوزی لینڈ میں بھی ایسے الفاظ اور جملوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے، جنھیںمختلف ادوار میں اسپیکر حضرات نے غیر پارلیمانی قرار دیا۔
ناروے میں 2009ء میں اسپیکر نے پروگریس پارٹی کے رکن کو ایک وزیر کو ’’ہائی وے ڈاکو‘‘ کہنے پر ٹوکا۔ سنگا پور میں سترہ اپریل 2023ء کو ہونے والے اسمبلی سیشن کی کلپ سوشل میڈیا پرآئی، جس میں غیر پارلیمانی زبان استعمال کی گئی تھی۔ اس پر گیارہ جولائی 2023ء کو اس رکن کو عوام کے سامنے معافی مانگنا پڑی۔ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں ’باسٹرڈ‘، ’شرابی‘، ’منافق‘ اور ’احمق‘جیسے الفاظ غیر پارلیمانی قرار دیے جا چکے ہیں۔ 2019ء میں جب ایک لیڈر نے بورس جانسن کو ’نسل پرست‘ کہا، تو اسپیکر نے اسے اپنے الفاظ واپس لینے کو کہا، لیکن اس رکن نے بتایا کہ وہ پہلے ہی جانسن کو بتا چکا تھا کہ وہ یہ الفاظ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس پر اس کے بیان میں یہ الفاظ رہنے دیے گئے۔
’جیو‘معاصر ویب ڈیسک کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اب پاکستان میں بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست مرتب کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے 2007ء کے رولز کے مطابق اسپیکر کج بحثی اورحجت کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ اور غیرپارلیمانی ، غیر متعلقہ، مضحکہ خیز الفاظ اور جملوں کے استعمال کو ممنوع قرار دے سکتا ہے۔ 2019ء میں جب اس وقت کی نئی حکومت نے اقتدار سنبھالاتو پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کے قومی اسمبلی میں اپنی تقریرمیں بارہا ’ سلیکٹڈ‘ کا لفظ استعمال کرنے پر وفاقی وزیر عمر ایوب خان نے اس لفظ کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح اپنی ایک تقریر میں پیپلز پارٹی کے چئیر پرسن نے اس وقت کے فنانس منسٹر اسد عمر کو ’’پڑھا لکھا جاہل‘‘ کہا، لیکن اسپیکر نے ایوان کی کارروائی سے یہ الفاظ حذف کروا دیے۔ اس وقت کے ایک وفاقی وزیر فواد چوہدری نے حزب اختلاف کے راہ نماؤں کو ’’چور اور ڈاکو‘‘ کہا، تو ایوان میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ حزب اختلاف نے اس وقت تک سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیے رکھا، جب تک فواد چوہدری نے معافی نہیں مانگی۔
مئی 2024ء میں موجودہ حکومت کے اتحادی رکن طارق بشیر چیمہ نے پی ٹی آئی کی زرتاج گل کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی اور ان کے شور مچانے اور حزب اختلاف کے مرد ارکان کے تیور دیکھ کر انھیں ایوان سے فرار ہونا پڑا اور اسپیکر نے حزب اختلاف کو یقین دلایا کہ وہ چیمہ صاحب کو معافی مانگنے کے لیے کہیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے رانا ثنا اللہ بھی مخالفین کے خلاف مغلظ زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔
امریکا کے سابق صدر اور موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی ناشائستہ زبان استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان سے پہلے کسی امریکی صدر نے ایسی کھردری، ظالمانہ اور خطرناک زبان استعمال نہیں کی تھی۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے ممتا ز امریکی سیاست دانوں نے بھی اپنی گفتگو کے دوران غیر مہذب الفاظ کا استعمال شرو ع کر دیا۔ دنیا بھر کی پارلیمان میں بات صرف شعلہ زبانی اور گالم گلوچ تک محدود نہیں رہتی، بلکہ کبھی کبھی تو ارکان باہم دست و گریباں بھی ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر ایوان کی کارروائی براہ راست ٹی وی پر نشر ہو رہی ہوتی ہے، اس لیے عوام ا لناس بھی یہ مناظر دیکھ لیتے ہیں۔
اس بارے میں باقاعدہ تحقیق بھی ہوئی ہے کہ کچھ ممالک کی اسمبلیوں میں بات ہاتھا پائی تک کیوں پہنچتی ہے۔ امریکا کی خانہ جنگی کے آغاز سے پانچ سال پہلے 1856ء میں غلامی کو جاری رکھنے کے حامی پریسٹن بروکس نے اپنی چھڑی سے غلامی کے خاتمے کی حمایت کرنے والے چارلس سمنرکو اتنا زد وکوب کیا کہ وہ مرتے مرتے بچے۔ 1920ء میں آئر لینڈ کی جنگ آزادی کے دوران آئر لینڈ میں برطانوی فوجیوں کے مظالم پر بحث کے دوران ’ہاؤس آف کامنز‘ کے آئرش ممبر جوزف ڈیولن پر کنزرویٹیو رکن جوہن مولسن نے حملہ کر دیا۔ حال ہی میں یو کرین کے حوالے سے بھی برطانیہ کے قانون ساز اداروں میں جھگڑے ہوئے۔ 2010 کے عشرے میں ترکی کی پارلیمان میں بارہا جھگڑے اور مکے بازی ہوئی۔
ظاہر ہے عوامی نمائندوں کی جانب سے جسمانی طاقت کا استعمال جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ حال ہی میں 17 اگست 2024ء میں ترکی کے پارلیمان میں اس وقت ارکان کے درمیان مکے بازی ہوئی، جب حزب اختلاف کے ایک رکن نے مطالبہ کیا کہ ان کے اسیر رکن اسمبلی کو اجلاس میں شرکت کے لیے لایا جائے۔ اس مطالبے پر بر سر اقتدار پارٹی کے ارکان ان کی طرف لپکے اور ان پر مکے برسا دیے۔ کچھ لوگوں نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی، مگر جب تک کچھ ارکان لہو لہان ہو چکے تھے۔
تنازعات کے حل کا جمہوری اصول پر امن مذاکرات ہیں۔ جمہوری ممالک کی پارلیمانوں میں اکثریت کے فیصلوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ پارلیمان میں ہاتھا پائی اور گالم گلوچ کے نتیجے میں عوام سیاست دانوں سے مایوس اور جمہوریت سے دل برداشتہ ہونے لگتے ہیں۔ اخبارات اور چینلوں کو پارلیمان میں مار پیٹ اور گالم گلوچ کی بدولت چٹ پٹی سرخیاں تو مل جاتی ہیں، لیکن ان واقعات کے اثرات دور رَس ہوتے ہیں۔ معاشرے میں تفریق بڑھتی ہے، جمہوری روایات پیچھے رہ جاتی ہیں اور انتہا پسندی فروغ پاتی ہے، مگر اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
بعض دفعہ سیاست دانوں کے شور شرابے سے عوام میں ان کی مقبولیت بھی بڑھتی ہے، خاص طور پر اگر انتخابات نزدیک ہوں۔ تائیوان میں جہاں سب سے زیادہ پارلیمانی جھگڑے ہوتے ہیں، وہاں نظریاتی طور پر انتہا پسند سیاست دان اپنے حامیوں کے ووٹوں کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمان میں جھگڑے اور شور شرابا کرتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی حکمت عملی یا قانونی مقصد کے لئے بھی دانستہ جھگڑا کیا جاتا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ میں عام طور پر بہت تہذیب سے بات ہوتی ہے، لیکن کبھی کبھار وہاں بھی ایک دوسرے کے لیے توہین آمیز کلمات ادا کیے جاتے ہیں۔ 2010ء میں برطانوی رکن یورو ڈپٹی نائجل نے پارلیمنٹ کے صدر ہرمن وان کے خلاف نازیبا کلمات ادا کیے تھے۔ جس کا ہر کسی نے نوٹس لیا، کیوں کہ وہاں عام طور پر اس طرح کا انداز گفتگو اختیار نہیں کیا جا تا، لیکن یورپی پارلیمان سمیت دنیا بھر کی پارلیمان میں کسی وقت بھی زبانی اور جسمانی تشدد کا مظاہرہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین کی ایک ٹیم نے 1990- 2018ء کے درمیان دنیا کی مختلف پارلیمان میں ہونے والے جھگڑوں کے 375 واقعات کا جائزہ لیا تو انھیں پتا چلا کہ پارلیمانوں میں ان کے اندازے سے کہیں زیادہ تشدد ہوتا ہے۔ دنیا کے 78 ممالک میں اس طرح کے واقعات سامنے آئے، ان میں لاطینی امریکا اور کریبین، یورپ، مشرق وسطیٰ، ذیلی صحارا افریقا ،شمالی افریقا اور ایشیا کے مختلف ممالک شامل ہیں۔ زیادہ تر جھگڑے پالیسیوں کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر جھگڑے اس وقت ہوتے ہیں، جب اداروں یا اختیارات کی تفویض میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان مسائل پر جھگڑے ہوتے ہیں، جو بہت زیادہ علامتی اہمیت رکھتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کے منتخب نمائندے پارلیمان میں پر امن طور پر قوانین بنانے کے لیے بحث و مباحثہ کریں، لیکن کبھی کبھی بات توتکار، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے اور تہذیب و شائستگی کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے، جو ایک افسوس ناک بات ہے۔ میڈیا سنسنی خیز انداز میں ان جھگڑوں کی کوریج کرتا ہے، قارئین اور ناظرین بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے جھگڑے ایک سنجیدہ سیاسی رحجان کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان جھگڑوں سے پارلیمان کی کارروائی میں خلل پڑتا ہے ، اس لیے انھیں غیر متعلقہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارلیمان میں ہونے والے جھگڑوں کا تعلق جمہوریت کے معیار سے ہے؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ اگر انتخابات منصفانہ اور غیر جانب دارانہ طور پر منعقد کرائے جائیں، تو قانون ساز نمائندوں کو پارلیمان کی کارروائی جائز لگتی ہے اور حزب اختلاف کو بھی امید رہتی ہے کہ اگلے انتخابات میں جیت کر آنے کے بعد وہ ان پالیسیوں کو تبدیل کر پائیں گے، جن سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔ زیادہ تر جمہوری ممالک وہ ہیںم جہاں جمہوریت کی تاریخ بہت پرانی ہے اور جمہوری روایات کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جن پارلیمانوں میں بہت سی چھوٹی پارٹیوں کے نمائندے ہوتے ہیں، وہاں جھگڑے اور تشدد زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے جھگڑوں اور تشدد کا نشانہ اگر خواتین کو بنایا جائے، تو یہ جمہوریت کے لیے اور بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس سے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
بلکہ عورتوں کے قائدانہ کردار ادا کرنے کے امکانات بھی مسدود ہو جاتے ہیں۔ سیاست میں مساوی مقام کے حصول میں آج بھی عورتوں کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد عورتوں کو کئی طرح کی ہراسمنٹ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا بھی پارلیمان میں عورتوں کے لیے مسائل پیدا کرنے میں آگے آگے رہتا ہے اور انھیں یاد دلاتا رہتا ہے کہ انہیں کیسا لباس پہننا چاہیے اور کیسے بات کرنی چاہیے۔
پارلیمنٹری ریپڈ رسپانس ٹیم کی بانی رکن جرمنی کی ڈاکٹر حنا نیومین کے مطابق کووڈ کی وبا کے دوران جمہوری اداروں میں انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں اور عورتوں اور کمزور طبقات کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب دنیا بھر میں عورتوں کے خلاف ہونے والے سیاسی تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے ارکان پارلیمان اکٹھے ہو رہے ہیں۔ صنفی عدم توازن اور عدم مساوات اور عورتوں پر حملوں کی وجہ سے ہم نہ توجمہوریت کو مضبوط بنا پاتے ہیں اور نہ ہی معاشرے میں رواداری پیدا کر پاتے ہیں۔
دولت مشترکہ کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے ایک ’اینٹی ہراسمنٹ پالیسی‘ بھی بنائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ارکان کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنا پارلیمان کی ذمہ داری ہے۔ سیاست دانوں اور ان کے عملے کو ہراساں کرنا ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لیے اسے عالمی سیاق وسباق میں ہی دیکھنا ہو گا، مثال کے طور پر جمہوری بیک سلائیڈنگ، مطلق ا لعنانیت کا عروج اور ایک بار پھر پدر سری اقدار کا زور پکڑنا۔ پھر سوشل میڈیا بہت کچھ دکھا رہا ہوتا ہے اور آپ نظر آئے بغیر بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔
آخر میںہم یہی کہیں گے کہ سیاست دانوں خاص طور پر پارلیمنٹیرین کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ عوام کے لیے رول ماڈل ہیں اور عوام چاہتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں اور ان کے مصائب و تکالیف کو کم کریں۔ اگر وہ یہ سب کرنے کے بہ جائے پارلیمان میں بد زبانی، بد کلامی کا مظاہرہ ہی کرتے رہیںگے تو عوام ان سے مایوس ہو جائیں گے۔