سرد ہوائیں، شام خنک دسمبر کی… یخ بستہ رات، تیرے نام کی دسمبر کی… دن بھر تو رہتا ہے سناٹا بہت… رات مچاتی ہے کہرام دسمبر کی… موسموں کی پت جھڑ میں… بدلتی رت کے بدلتے رنگ و روپ نے… گدگداتے ہوئے احساس دلایا کہ… یادوں سے بھیگا بھیگا دسمبر آیا… یادوں نے لی انگڑائی… ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں کا استقبال کرتے… جھو م اٹھی پھر تنہائی!
موزے، سوئٹر پہنے، مفلر اوڑھے دور پہاڑوں پرگرتی برف کے گولوں نے سردی کی شدت میں اضافہ کرتے ہوئے میوہ جات کشمش، مونگ پھلی و پستے کی سوغاتیں سجائیں، تو کمبلوں و لحافوں میں دبک کر سردی کو بھگاتے و لطف اٹھاتے ہوئے جو کریم بھری گرماگرم کافی و چائے کی پیالی اٹھائی، تو اڑتی ہوئی بھاپ میں نہ جانے کتنے ہی ہیولے، کتنے ہی ڈھیر سارے پرانے قصّے کہانیاں یاد آنے لگے، کیا کچھ بتلانے لگے، جانے یہ دسمبر کی سرد راتوں کا سحر ہے کہ ساری گزری کہانیاں، سارے بیتے فسانے اسی مہینے، اسی موسم میں اپنی روئیداد سنانے کے لیے بے چین ہو ہو جاتے ہیں۔
پل پل یادوں کی راکھ کریدتے ہوئے، حال کے کاندھے پر سر رکھ کر ماضی کی سیر کراتے ہیں۔ وہ ماضی جہاں قدم قدم پر ہمارے اپنوں کی خوشبوئیں بھی مہک رہی ہیں۔ ان کی باتوں کی بازگشت، بیتے نغموں کو الاپتی ہوئی، دسمبر کی ٹھنڈی یخ بستہ رات میں اپنی یادوں کی گرمائش لیے کبھی آنسو چھلکاتی ہیں، کبھی ہنساتی، کبھی اس موسم کے وہ منظر دکھلاتی ہیں جب ہم اوورکوٹ و مفلر لپیٹے ہانپتے کانپتے مری کے پہاڑوں پر برف پر پھسلتے ہوئے ہاتھوں میں ہاتھ دیے، کیا کچھ ایک دوسرے کو سناتے نہ تھکتے تھے۔
موسموں کے اس سفر میں وہ ’’خالی موسم کا ہی حُسن نہ تھا، بلکہ اس میں اپنوں کی چاہت کے رنگ و پیار بھرے لہجوں کی کھنک تھی، جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ زمانے کی سرد مُہری کے ساتھ اس دفعہ گو دسمبر کی ہواؤں میں ابھی وہ خنکی و گرم جوشی نہیں جو ہاتھوں کو سن کرتی اور دانتوں کو بجاتی تھی، لیکن اس دسمبر کی رات کا فسوں تو دیکھیے کہ انگیٹھی میں گو کوئلے نہ دہکے، لیکن یادوں کے الاؤ جل اٹھے، جو ماضی کی ان گنت یادوں کو اکھٹا کرتے ہوئے بہت کچھ یاد دلاگئے۔ ’’ایک یاد سے دوسری یاد کا سرا یوں جڑا کہ رات کی تنہائی انہی نغموں سے گونج اٹھی۔
یہی تو اس ماہ کا حسن و د ل آویزی ہے، جو اپنی الوداعی دھنوں میں پرانے ساز بجاتا ہوا رات کی خاموشی کو جگاتا ہے۔ بیتی یادیں، بیتے چہرے سامنے لاتا ہے اور ہم جانے ان جانے میں اس یادوں کی گٹھری سے اس ڈور سے بندھے ہوئے اس گولے کو کھولتے ہی جاتے ہیں جو ہماری قیمتی یادوں کا سرمایہ ہے۔ یہ سب یادیں جانے کیوں دسمبر ہی میں دل کے دروازے پر دستک دیتی ہیں۔ شاید دسمبر کے یہ رت جگے، بیتے لمحوں و گزرے غموں کی وہ آواز ہے، جو رات کے سنسان و چپ چاپ کھڑے لمحوں میں سنائی دیتی ہے۔ نغمہ بن کر ہواؤں میں لہراتی ہے۔
آہ بن کر لبوں پر آتی ہے اور آنسو بن کر چھلک جاتی ہے۔ کتنے محبت بھرے ہاتھوں کے لمس ہمیں بے چین کردیتے ہیں۔ شاعروں کے دلوں کو دھڑکاکر وہ کچھ لکھوادیتے ہیں کہ شعروں کی کھنکتی جھانجر یہ کہتے ہوئے بج اٹھتی ہے کہ ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا… غزل اس نے چھیڑی ذرا ساز دینا!
اسی غزل کے سُرجب بھیگا بھیگا دسمبر، ٹھنڈی ٹھنڈی برفیلی ہواؤں کا موسم، سرمئی شاموں کا حُسن لیے، کہر و دھند میں لپٹی ہوئی صبحیں لیے، گہری خاموشی و سناٹے میں ڈوبی ہوئی طویل راتوں کا فسوں لیے‘‘ پرانے راگ چھیڑتا ہے، تو یادوں کی شمعیں گزرے موسموں کا استعارہ بن کر دل کا درد جگا دیتی ہیں۔ کتنے ہی بچھڑے ہوئے، بھولے بسرے خواب ہوئے چہرے یادوں کے افق پر جگمگا اٹھتے ہیں۔ وہ چہرے جو زندگی کی چاہ تھے، زندگی تھے، ارمان تھے، ہر پل ، ہر گھڑی کا ساتھ تھے۔ من کے مِیت تھے، جیون بھرکا ساتھ تھے۔ پل میں ہاتھ چھڑا کر میز پر اپنی تصویر سجاکر اپنی نشانی، اپنی کہانی چھوڑ کر اس دیس جا بسے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
دسمبر اپنی سرد راتوں میں اس لمحے کو ہوا دیتا ہوا جانے والوں کی یاد میں بے قرار کرتا ہے۔ ہم پت جھڑ کے موسم کی طرح پتوں کی طرح جھڑتے ہوئے، جہاں کہاں چھپ جاتے ہیں کہ زندگی ہمیں ڈھونڈتی رہ جاتی ہے، لیکن یادوں کے اس موسم دسمبر میں ہم پھر جی اٹھتے ہیں۔ یادوں کی یہی تو نشانی ہے۔ جو ہمیں مٹنے نہیں دیتی، فنا نہیں ہونے دیتی۔ دھند کے اس پارگئے بھی، چھپنے نہیں دیتی۔ جس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے، نظروں سے چھپ نہیں سکتے، یہی یادیں تو وہ سرمایہ ہیں جو ہمیں اپنے جزانے سے مالا مال کرتے ہوئے ’اکیلا ہونے نہیں دیتی‘
زیست کا سامان بن کر، لمحوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں، آج بھی دسمبر یادوں کے اس موسم میں وہ فرصت و فراغت کے لمحے یاد آتے ہیں۔ جب ان سرد راتوں میں اپنوں کی سنگیت میں، چائے و کافی کا ایک کپ بہت بڑی عیاشی و خوشی ہوتا تھا کچھ بکھری تصویریں، وہ گم گشتہ محفلیں اور دوستوں کی بزم آرائیاں یاد آتی ہیں۔
وہ خشک میوؤں سے انصاف کرتے ہوئے، چلغوزوں کی گریاں نکالتے ہوئے، انگیٹھی کے آخری کوئلے کے راکھ بننے تک، وہ قصّے کہانیاں جو صبح کا تارہ چمکنے تک ختم ہی نہیں ہوتے تھے۔ وہ بے مقصد ، وہ سروپا بے معنی باتوں کے ایسے سلسلے جن کا اختتام ہی نہ ہوتا تھا۔ قہقہے ایسے جن کی بازگشت آج بھی ہنستے ہوئے رلادیتی ہے، یادوں کا یہ سجا میلہ آج بھی احساس دلاتا ہے کہ ہم انھی یادوں میں جیتے و مرتے ہیں۔ اپنوں کی سنگیت میں گزرے لمحے زندگی ہی نہیں بلکہ زندگی کا حاصل تھے۔
دسمبر کی دل جوئیاں، دل داریاں ، ناز برداریاں و غم خواریاں تو آج بھی وہی ہیں، لیکن افسوس زندگی کی تیز روی و دوڑنے نے کچھ اس قدر گھیرا ہوا ہے کہ اتنی بھی فرصت نہیں کہ دو گھڑی سکون سے بیٹھ کر ان زمانوں کو یاد کرسکیں۔‘‘ جو پیار کی زبان و محبت کا بیان تھے، سوچ سکیں، کس کس کا نقش دل پر باقی ہے وہ لوگ کیا ہوئے؟ کہاں گئے، جن کا ساتھ زندگی ہوا کرتا تھا۔
موسم سرما دسمبر کا فسوں تو آج بھی وہی ہے، لیکن اسے محسوس کرنے کے لیے ہم حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کی خواہش میں خود کو کھو بیٹھے ہیں۔ ان رشتوں کو بھلا بیٹے ہیں۔ ان سنگی ساتھیوں کا ہاتھ چھوڑ بیٹھے ہیں، جو ہماری زندگی تھے۔ دسمبر ملن و جدائی کا استعارہ بنا کہہ رہا ہے کہآپ کو سدا اس دنیا میں نہیں رہنا، ’’کل آپ بھی ایک یاد بن کر یادوں کے افق پر جگ مگا اٹھیں گے۔‘
اس لیے ایک یاد بننے سے پہلے دوستوں کے ساتھ مل بیٹھے، ان گلی کوچوں و محلوں کو آواز دے کر گلے لگائیے یقیناً وہ جی اٹھیں گے، جو دوست یار احباب باقی ہیں۔ ان کی قدر کیجیے، سنبھال رکھیے، یہی آپ کا اثاثہ ہیں، سرمایہ حیات ہیں، نہ کہ وہ جن کے لیے آپ نے اپنے آج کو ہلکان کرکے اپنے کل کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔