سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کی10ویں برسی

ان کی زندگی، ان کے خواب، ان کی امیدیں، ان کا مستقبل ان سے چھین لیا گیا۔


ایڈیٹوریل December 17, 2024
فوٹو : فائل

پاکستان دہشت گردوں کے خلاف برسوں سے برسرپیکار چلا آ ہا ہے۔یہ لڑائی آج بھی جاری ہے۔ دنیا میں کسی اور ملک نے دہشت گردی کے خلاف اتنی طویل جنگ نہیں لڑی۔ اس دوران پاکستان میں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہوئیں۔دہشت گردوں نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ‘ایسا ہی ایک خوں چکاں سانحہ 16دسمبر2014 کو پشاور میں برپا کیا گیا تھا۔

اس روز دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول کو ٹارگٹ کیا اور یہاں بارود اور خون کی ہولی کھیلی ‘دہشت گردوں نے تاریخ کی بدترین حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکول کے معصوم طالب علموں ‘ان کے اساتذہ اور دیگر لوگوں کو قتل کیا ۔اس سانحہ میں147شہادتیں ہوئیں‘ان میں 132معصوم طالب علم شامل تھے۔ گزشتہ روز پورے ملک میں اس سانحہ عظیم کی 10ویں برسی منائی گئی۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے دس برس مکمل ہونے پر اپنے پیغا م میں کہا ہے کہ ہم اس دلخراش سانحہ کوکبھی بھولیں گے نہ معصوم بچوں پر ظلم ڈھانے والے دہشت گردوں کو معاف کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا دل سوز سانحہ تھا جس کی یاد ایک دہائی سے ہمارے دلوں کو مضطرب کر رہی ہے۔ 16 دسمبر 2014 کو بزدل، بے رحم اور حیوانیت سے بھرپور دہشت گرد آرمی پبلک اسکول پشاور کے احاطے میں گھس کر تباہی و بربادی کرتے ہوئے 144 معصوم جانوں کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کر گئے۔ اس حیوانیت کا شکار ہوکر شہید ہونے والوں میں سے اکثریت کم سن بچوں کی تھی جو بہت ہی کم عمری میں ہمیں غمگین کرکے دنیا سے چلے گئے۔

ان کی زندگی، ان کے خواب، ان کی امیدیں، ان کا مستقبل ان سے چھین لیا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس سانحے کو خواہ کتنا ہی وقت کیوں نہ گزر جائے، ان معصوم و کم سن بچوں کی جدائی کے صدمے کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ ان ننھی کونپلوں نے اس دن ناقابل برداشت ظلم و بربریت کا سامنا کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ ان خاندانوں اور والدین جنھوں نے اپنے پیاروں کو اس بھیانک سانحے میں کھو دیا، جن کے لخت جگر ان سے چھین لیے گئے، کے غم اور تکلیف کو کسی طور بھی کم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ فتنۃ الخوارج اور ان جیسے دوسرے دہشت گرد ملک دشمن گروہوں کا نا دین سے کوئی تعلق ہے اور نا ہی کسی بھی معاشرتی اقدار سے۔

بلاشبہ اس سانحے نے پاکستان کے عوام کو اس ایک نقطہ پر متفق کر دیا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پاکستان اور اس کے عوا م کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70ہزار سے زائد شہادتوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ان میں پاک فوج کے افسر اور جوان بھی شامل ہیں ‘ایف سی ‘رینجر‘پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے افسران اور اہلکار بھی شامل ہیں۔ عوام نے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا ایک نیٹ ورک مسلسل فعال چلا آ رہا ہے‘ ان سہولت کاروں میں دہشت گردوں کے ہینڈلرز ‘انفارمرز ‘فنانسرز اور کیرئیرز شامل ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے اپنے چہرے پاکستانیت کے لبادے میںچھپا رکھے ہیں لیکن ان کے گھناؤنے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان اور اس کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان آج بھی اس قسم کے نیٹ ورک سے نبردآزما ہے۔ پاکستان میں ایک مخصوص اور محدود طبقے نے نظریاتی خلفشار اور کنفیوژن پھیلا کر ملک کے باشعور اور پڑھے لکھے طبقے کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طبقے نے دہشت گردی کی ہر خونی واردات کے بعد ڈھل مل انداز میں دہشت گردی کی مذمت بھی کی ہے مگر اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی گردان کر کے اس کی شدت میں بھی کمی کرنے کی کوشش کی ہے۔

دنیا میں جو سلطنتیں اور ملک زوال پذیر ہوئے ہیں ‘ان کے زوال کی وجوہات تلاش کریں تو خارجی عوامل سے بھی زیادہ داخلی عوامل کا عمل دخل نظر آئے گا۔ رومن امپائر کا خاتمہ بظاہر جرمینک ونڈال اور ہن لشکروں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن تاریخ کا گہرا مطالعہ کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس وقت کی رومن اشرافیہ کا ایک گروہ ان حملوں آوروں کا سہولت کار بنا ہوا تھا۔ ان حملہ آوروں کو معلومات فراہم ہوتی تھیں ‘اگر وہ گرفتار ہو جاتے تو ان کی رہائی کے لیے سلطنتیں روما کے طاقتور لوگ بھی سرگرم ہو جایا کرتے تھے۔

یوں ایک عالم گیر سلطنت کے زوال کی رفتار تیز تر ہوگئی اور بالآخر وہ ختم ہو گئی۔ آج کے دورمیں بھی یمن سے لے کر شام تک کی تاریخ دیکھیں تو ان ملکوں کی تباہی کی وجوہات میں داخلی تضادات کا عنصر نمایاں نظر آئے گا۔ جب کسی ملک کی بااثر اشرافیہ کاایک حصہ اپنے مفادات کو ریاست کے مفادات سے بالاتر بنا لے تو اس کے لیے ریاست کی وحدت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس طبقے کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے نظام کو شکست و ریخت سے دوچار کرے تاکہ ان کا احتساب نہ ہو سکے ‘نان اسٹیک ایکٹرز کا وجود انھی طبقات کی درپردہ حمایت اور مددسے ہی قائم رہتا ہے ۔

پاکستان میں 16دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں جو قیامت برپا ہوئی ‘اس کے مجرموں کو کسی بھی صورت میں معاف نہیں کیا جا سکتا ۔جب دشمن ہمارے معصوم بچوں اور خواتین تک کو قتل کرنے پر اتر آئے تو پھراس کے لیے معمولی سی ہمدردی کا بھی کوئی جواز باقی نہیں بچتا۔ اس سانحہ کی مناسبت سے صدرمملکت آصف زرداری نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ16دسمبر 2014کے افسوسناک دن دہشت گردوں نے اساتذہ اور بچوں کو نشانہ بنا کر عوام دشمنی کا ثبوت دیا،ہمارے بچوں اور قوم کے مستقبل پر حملہ کیا،معصوم بچوں پر حملہ گھناؤنا اور انسانیت سوز جرم ہے، سانحہ اے پی ایس سے واضح ہے کہ دہشت گردوں کا ایجنڈا ملک میں فساد اور انتشار پھیلانا ہے۔

16دسمبر کے دن نے ہماری قوم کی اجتماعی یادداشت پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ہماری ہمدردیاں معصوم جانوں کے لواحقین کے ساتھ ہیں، یہ دن ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قوم کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات دہشت گردوں اور خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں،سانحہ اے پی ایس نے ہمیں دہشتگردی کے خلاف بحیثیت قوم متحد کیا۔پاکستانی قوم دہشت گردوں کو کبھی اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی قوم مصیبتوں کے سامنے ہمت نہیں ہارتی،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی قربانیاں دیں، آج ہم اپنے بہادر سپاہیوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام شہریوں کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

صدر نے کہا کہ اپنے بچوں، قائدین اور شہریوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، پاکستان سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی باقیات جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی۔ صدر مملکت نے زور دیا کہ آئیے دہشت گردی کے خاتمے اور پرامن پاکستان کے لیے کام کرنے کا عہد کریں۔

پاکستان کے پالیسی سازوں ‘سیاسی قیادت ‘کاروباری طبقات ‘بڑے زمینداروں‘ جاگیرداروں ‘علماء و مشائخ کو دنیا کے بدلتے ہوئے حالات پر گہری نظر رکھنی ہے۔پاکستان کے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنا طاقتور اور خوشحال طبقات کا بھی فرض ہے۔ پاکستان کی مڈل کلاس اس ملک کی سالمیت اور وحدت کے لیے اپنے خون پسینے کی کمائی سے حکومت کو ٹیکسز ادا کر رہی ہے ۔پاکستان کا عام مزدور بھی ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں اپنی کمائی کا ایک حصہ قومی خزانے میں جمع کرا رہا ہے۔

پاکستان کے بیوروکریٹس ‘فوجی جرنیل ‘اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان‘ ارکان پارلیمنٹ ‘وزراء اور پارلیمنٹیرینزجو تنخواہیں اور مراعات سرکار کے نام پر وصول کررہے ہیں ‘ یہ سب پیسے پاکستان کے عوام کی کمائی سے ادا ہونے والے ٹیکس سے حاصل ہوتے ہیں۔حکومت غیر ملکی مالیاتی اداروں اور دیگر اداروں کو ریاست کے نام پر جو ساورن گرنٹیز دیتی ہے ‘اس کا ماخذ اورمنبع بھی پاکستان کے عوام ہی ہیں۔

پاکستان کے عوام کے بیہاف پر غیرملکی اور ملکی قرضے لیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی جان و مال اور ان کے کاروبار کا تحفظ کرنا ریاست اور اس کے عمال کی پہلی اور آخری ذمے داری ہے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور محض 144خاندانوں کا دکھ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے سینے پر لگایا گیا وہ زخم ہے‘ جس میں سے آج بھی خون رس رہا ہے‘ اس سانحہ کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا اور نہ ہی اس سانحے کے ظاہری مجرموں کو بخشا جا سکتا ہے اور نہ ہی پس پردہ مجرموں کو بخشا جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

سول نافرمانی ؟

Dec 17, 2024 01:47 AM |

بھارت کی شامت

Dec 17, 2024 01:27 AM |