اسرائیل کے قیام کے دو برس بعد انیس سو پچاس کی پہلی مردم شماری کے مطابق نقبہ کے بعد جو فلسطینی عرب اسرائیلی حدود میں رہ گئے ان میں اکیس فیصد تعداد فلسطینی مسیحوں کی تھی۔مگر حکومت کی امتیازی پالیسیوں سے تنگ آ کے مسلسل نقلِ مکانی کے سبب آج اسرائیل میں فلسطینی مسیحوں کا تناسب کل عرب آبادی کا صرف نو فیصد ہے۔
نقلِ مکانی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پچھتر فیصد اسرائیلی مسیحی گریجویٹ ہیں اور طب و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی نمایاں ہیں لہٰذا انھیں بیرونِ ملک روزگار آسانی سے مل جاتا ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر جو پچاس ہزار مسیحی فلسطینی باقی ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد بیت اللحم اور مشرقی یروشلم میں آباد ہیں۔مگر وہاں بھی روزمرہ زندگی روز افزوں اسرائیلی پابندیوں کے سبب مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔دو ہزار پانچ میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے عرب قصبات و بستیوں کے اردگرد آٹھ میٹر اونچی کنکریٹ دیوار اٹھانا شروع کی اور آرپار جانے کے لیے چیک پوسٹیں بنا دیں۔چنانچہ فلسطینی قصبوں اور شہروں کا براہ راست زمینی رابطہ بھی کٹ گیا اور اب یہ قصبے یہودی آبادکار بستیوں اور اسرائیلی فوج کے مراکز کے درمیان انسانی جزیرے بن گئے ہیں۔چیک پوسٹوں پر بیماروں ، بوڑھوں ، حاملہ خواتین ، بچوں اور جوانوں سے یکساں توہین آمیز سلوک ہوتا ہے ۔
بیت اللحم کو یروشلم سے جوڑنے والا دو ہزار برس قدیم راستہ بھی دیوار بنا کے بند کر دیا گیا۔ چنانچہ اب دونوں شہروں کے مکینوں کو چیک پوسٹوں سے گذر کے جانا پڑتا ہے۔دیوار کے دوسری جانب فلسطینیوں کی ہزاروں ایکڑ زرعی زمین تک رسائی بھی بہت مشکل کر دی گئی۔ ان میں اٹھارہ سو پینتیس مسیحی کسان بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ مغربی کنارہ فلسطینی مسیحوں سے خالی ہو جائے اور مذہبی مقامات بے جان سیاحتی مراکز بن جائیں۔تاکہ یہ پروپیگنڈہ ہو سکے کہ جھگڑا زمین کا نہیں بلکہ مسلم یہودی مذہبی جھگڑا ہے۔فلسطینی مسیحوں کی موجودگی میں باقی دنیا کو یہ منجن اچھے سے نہیں بیچا جا سکتا۔
بقول سرکردہ فلسطینی رہنما ڈاکٹر حنان اشراوی جب امریکا سے جیہووا وٹنیس اور ایوانجلیکل چرچ کے مبلغ بیت اللحم آتے ہیں تو ہمیں عیسائیت کے بارے میں بتاتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ جس پیغمبر کی تعلیمات کے بارے میں وہ ہمیں سمجھا رہے ہیں وہ تو دو ہزار برس سے یہیں رہتا ہے۔
مگر صدیوں سے آباد یہ فرزندانِ زمین مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔فلسطینیوں کی نئی نسل نے انیس سو سڑسٹھ کے بعد دوسرے نقبہ سے یہ سبق حاصل کیا کہ دربدر ہونے سے بہتر ہے کہ دھرتی میں رہتے ہوئے ہی سختیاں برداشت کی جائیں۔اس سوچ کے نتیجے میں انیس سو ستاسی اٹھاسی میں مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کے تعلیمی اداروں سے سول نافرمانی کی قومی تحریک انتفادہ نے جنم لیا۔
تحریک کو درست سمت میں رکھنے کے لیے گاؤں گاؤں عوامی انتفادہ کمیٹیاں بنائی گئیں۔ اسرائیل نے قانون بنایا کہ جو بھی ان کمیٹیوں کا رکن بنے گا اسے دس برس تک قید اور املاک کی ضبطی کی سزا مل سکتی ہے۔
پہلے انتفادہ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے۔ان میں تیس مسیحی نوجوان بھی شامل تھے۔ مغربی کنارے کے جن قصبوں نے اس دوران مزاحمتی شہرت پائی ان میں بیت اللحم کے نواحی گاؤں بیت سہور کی بازگشت امریکی کانگریس اور برطانوی دارالعوام میں بھی سنی گئی۔اس گاؤں کی تقریباً پوری آبادی مسیحی ہے۔یہ پہلا گاؤں تھا جہاں سے سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی۔مکینوں نے اپنے شناختی کارڈ بلدیہ کے دفتر کے سامنے نذرِ آتش کر دیے اور ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔اسرائیلی فوج نے بیت سہور کی مکمل ناکہ بندی کر دی۔تیس کے لگ بھگ مکینوں کو شناختی کارڈ نہ ہونے کے جرم میں دھرتی بدر کر کے دریا پار اردن میں دھکیل دیا گیا۔دوکانوں اور گھروں کا سامان مع بستر و برتن ضبط کر لیا گیا۔
وزیرِ دفاع ایتزاک رابین نے بیت سہور کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس گاؤں کو مثالی سبق سکھاؤں گا۔مگر جب عالمی میڈیا میں اس محاصرے کی خبریں مسلسل شایع ہونے لگیں تو اسرائیل نے مزید خجالت سے بچنے کے لیے پینتالیس روز بعد محاصرہ اٹھا لیا۔ اس دوران گاؤں کے تین نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔یہ نوجوان یا تو دیگر زخمیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے یا حملہ آور فوجی گاڑیوں پر پتھراؤ کر رہے تھے۔
دو ہزار دو تا پانچ جاری رہنے والے دوسرے انتفادہ میں بھی تمام فلسطینیوں نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔اپریل دو ہزار دو میں اسرائیلی ٹینکوں نے بیت اللحم کے چرچ آف نیٹوٹی کا محاصرہ کر لیا۔یہاں تقریباً دو سو لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی۔شہر میں مسلسل بلاوقفہ چالیس دن کرفیو رہا۔
دسمبر دو ہزار نو میں قاہرہ میں مقبوضہ علاقوں کے کرسچن مذہبی رہنماؤں اور سیاسی و انسانی حقوق کارکنوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کے اعلان نامے میں کہا گیا کہ فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ نہ صرف سیاسی و انسانی مسئلہ بلکہ گناہِ عظیم بھی ہے۔ چنانچہ دنیا بھر کے مسیحوں اور مذہبی رہنماؤں کا فرض ہے کہ اسرائیل کا تب تک اقتصادی بائیکاٹ کریں جب تک یہ علاقے آزاد نہیں ہو جاتے۔
اگرچہ مقبوضہ علاقوں میں مسیحی آبادی آٹے میں نمک کے برابر ہے مگر اس کا سیاسی کردار بہت اہم اور نمایاں ہے۔
انیس سو چورانوے میں جب اوسلو امن سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کو نیم بااختیار بنایا گیا تو پی ایل او کی انتظامیہ میں فلسطینی کرسچنز نے اہم کردار نبھایا۔رملہ ، بیرزیت ، بیت اللحم ، جفنا ، عین ارک ، عبود ، طیبہ ، بیت جالہ میں اگرچہ مسلمان فلسطینیوں کی اکثریت ہے مگر اس آبادی نے ان قصبات کے لیے کرسچن مئیرز کا انتخاب کیا۔
اقوامِ متحدہ میں سابق فلسطینی سفیر عفیف صفیا ،اقوامِ متحدہ میں انیس سو چوہتر تا اکیانوے پی ایل او کے مستقل مندوب زہدی طرزی ، فرانس میں سفیر ہند خوری ، روس میں سفیر عفیف صالح ، یونیسکو میں سفیر الیاس سنبار ، سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر حنان اشراوی ، فلسطین ڈیموکریٹک فرنٹ کے سربراہ نائف حواتمی ، معیشت دان یوسف سیگا ، برطانوی رکنِ پارلیمان لیلا موران ، وائٹ ہاؤس کے سابق چیف آف اسٹاف جان سنونو ، یاسر عرفات کی ساس اور شاعرہ ریمونڈا تعلی ، ایل سلواڈور کے سابق صدر انتونیو ساکا ، دو ہزار بائیس میں اسرائیلی فوجی کی ٹارگٹ کلنگ سے شہید ہونے والی الجزیرہ کی چیف رپورٹر شیریں ابو اخلے ، الجزیرہ کے کالم نگار رامی خوری ، معروف ادبی و سیاسی عالم و مورخ ایڈورڈ سعید کا پس منظر مسیحی ہے۔ابھی ہم نے اس فہرست میں شاعر ، ادیب ، مصور ، موسیقار ، فلم ساز ، اداکار ، سائنسداں اور کھلاڑی شامل نہیں کیے۔
الاقصی بریگیڈ کے ایک کمانڈر ڈینیل صبا جارج ( ابو حمامہ ) دو ہزار چھ میں اسرائیل فوج سے ایک جھڑپ میں شہید ہو گئے۔ جب کہ ایک اور حریت پسند رہنما کرس بندک کئی برس اسرائیلی جیلوں میں گذار کے دو ہزار گیارہ میں قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں رہا ہوئے۔ ہائی جیکر تھریسا ہلاسے کو بھی انیس سو تراسی میں قیدیوں کے تبادلے میں رہائی ملی۔
جن فلسطینی مسیحوں نے انتہا پسندی اور تشدد کی راہ اختیار کی ان میں جارج حباش کے علاوہ انیس سو بہتر میں میونخ اولمپکس میں اسرائیلی فٹ بال ٹیم کی ہلاکت کے ذمے دار گروہ کی قیادت لطفِ عفیف عرف جیسز نے کی۔بعد میں اس گروہ کے ارکان کو موساد نے چن چن کے مارا۔یہ سب نام فلسطین کی مسلح و غیر مسلح جدوجہد کا سنگِ میل ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)