بے بنیاد پروپیگنڈہ

سرکاری نقصانات برداشت کر کے اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگا چکی ہے


محمد سعید آرائیں December 17, 2024
[email protected]

وزیر دفاع خواجہ آصف نے پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی کے اقدام کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کی خبر بالکل غلط ہے۔ ایسی تجویز کسی فورم پر ڈسکس نہیں ہوئی اور ویسے بھی کسی سیاسی پارٹی پر پابندی کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وہ پارٹی کسی اور نام سے لانچ ہو جاتی ہے۔

یاد رہے کہ سب سے پہلے پی ٹی آئی پر پابندی لگائے جانے کی خبر وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے دو ماہ قبل دی تھی جس کی بعد میں نائب وزیر اعظم، متعدد وزیروں اور (ن) لیگی رہنماؤں نے تردید کی تھی اور حال ہی میں 24 نومبرکے بعد یہ تجویز پھر سامنے آئی مگر مسئلہ یہ ہے کہ پابندی یا گورنر راج کی خبریں حکومتی حلقوں کی طرف سے سامنے آتی ہیں اور بعد میں وفاقی حکومت ہی کے حلقے اس کی تردید بھی کرتے ہیں جس سے وفاقی حکومت کی ساکھ ہی متاثر ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی خبروں میں رہتی ہے اور حکومت کا مذاق اڑتا ہے اور نو ماہ میں حکومت کی ساکھ خود اس کی اپنی وجہ سے ہی متاثر ہو چکی ہے مگر یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔

سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر شبلی فراز نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی ایک پرامن پارٹی ہے مگر اسے احتجاج بھی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کے پی کے متنازعہ وزیر اعلیٰ نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست کی ہے کہ ہم آئینی طور پر پرامن احتجاج کرنے اسلام آباد گئے تھے جہاں وفاقی حکومت نے ہم پر دہشت گردی کے مقدمات درج کرا دیے ہیں۔

پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں تشدد، جانی نقصانات اورگرفتاریوں کے خلاف قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن بھی قومی اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ حالیہ دھرنے و احتجاج میں اہلکاروں کو شہید و زخمی کرنے، قانون پامال اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ ملک میں انتشار پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا ہفتہ وار جائزہ لیا جائے گا اور جلد انسداد فسادات فورس بھی بنائیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کا لب و لہجہ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی ایوان میں بھی احتجاج کریں اور دنیا بھر کے اداروں میں جا کر موجودہ وفاقی حکومت کے مظالم کا بتائیں، میرے پاس آخری پتا ہے اور عوام کو قربانیاں دینا پڑیں گی سانحہ ڈی چوک بڑا دھچکا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج پر حکومت اور اسلام آباد انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے آرڈر کا میں خود شکار ہوا ہوں، میں اور ججز رکاوٹوں کے باعث عدالت نہیں آ سکے کیونکہ پورا اسلام آباد کنٹینروں سے بند کر دیا گیا تھا اور لوگوں کا کاروبار بند ہوا۔

واضح رہے کہ 2014میں عدلیہ نے پی ٹی آئی کو اپنے پاس آنے کی دعوت دے کر جانبداری دکھائی تھی مگر پی ٹی آئی (ن) لیگی حکومت کے دور میں چار بار اسلام آباد پر دھاوا بول چکی ہے اور حیرت ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک صوبائی حکومت سرکاری مشینری اور کے پی کے سرکاری وسائل اور کے پی پولیس، افغانوں، سرکاری ملازموں، ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بار بار دشمنوں کی طرح اسلام آباد پر حملہ آور ہوتی ہے اور اس سرکاری دھاوے کی قیادت بھی خود وزیر اعلیٰ کے پی کرتے ہیں مگر ایک صوبے کو وفاق پر حملے سے روکنے کے لیے عدلیہ سے کوئی حکم نہیں آتا ہے ۔

وفاقی حکومت کروڑوں روپے احتجاج روکنے پر لگا دیتی ہے، احتجاج کے باعث تین رینجرز اور پولیس اہلکار شہید اور سیکڑوں پولیس اہلکار زخمی ہو جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے عوام، تاجر، سرکاری ملازمین متاثر، میٹرو سروس و دیگر ٹرانسپورٹ بند رہتی ہے مگر آئے دن اسلام آباد پر حملہ کرنے والوں کو کوئی عدالت نہیں روکتی۔

وفاقی حکومت اسلام آباد پر حملہ کرنے والوں کو انتشاری قرار دیتی ہے تو پی ٹی آئی کے ہمدردوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کو انتشار پسند کیوں کہتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کا کہنا ہے کہ ابھی ہم نے چار احتجاج کیے ہیں ہم محمود غزنوی کی طرح اسلام آباد پر سترہ حملے کرکے اپنے مقاصد حاصل کریں گے۔ ڈپٹی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ 2014 سے اب تک پی ٹی آئی کا کوئی ایک بھی احتجاج پرامن نہیں رہا بلکہ پی ٹی آئی کا ٹریک ریکارڈ پرتشدد احتجاج ہی رہا ہے۔

وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب و دیگر (ن) لیگی ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی واضح طور پر کہتے آ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی تشدد کی سیاست اور احتجاج کرتی آئی ہے جس سے نہ صرف ملک کا جانی و مالی نقصان ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہوا ہے مگر اپنے واضح پرتشدد احتجاج کے باوجود پی ٹی آئی اپنے احتجاج کو پرامن قرار دیتی ہے اور پولیس پر حملے اس کا وتیرہ رہا ہے۔ حالیہ احتجاج میں بھی پنجاب پولیس کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے اور اٹک پولیس کے دو سو سے زائد اہلکاروں کو نشانہ بنا کر زخمی کیا گیا ہے۔

آئی جی پنجاب، آر پی او راولپنڈی اور ایس ایس پی اٹک اور وزیر داخلہ حالیہ احتجاج میں سرکاری جانی نقصان کی تفصیلات بتا چکے ہیں مگر وفاقی حکومت سیاسی بنیاد پرکچھ نہیں کر رہی۔ سرکاری نقصانات برداشت کر کے اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگا چکی ہے۔

حکومتی حلقوں کے مطابق نہ کے پی میں گورنر راج لگے گا نہ پی ٹی آئی پر پابندی اور یوں حکومتی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے کیونکہ حکومت انتہائی اقدام سے پی ٹی آئی کو مزید مقبول ہو جانے سے خوفزدہ ہے اور وہ پی ٹی آئی رہنماؤں پر سنگین الزامات کے اندراج اور کارکنوں کی گرفتاری پر ہی اکتفا کر رہی ہے اور وفاق کی ساکھ مسلسل متاثر اور حکومت بدنام ہو رہی ہے مگر سیاست کی وجہ سے حکومت اپنی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے اور حکومت کے پاس کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے۔ حکومت پی ٹی آئی کے بے بنیاد پروپیگنڈے کا توڑ کرنے یا سیاسی جواب دینے میں بھی مسلسل ناکام ہے اور عوام کا اعتماد بھی متاثر ہو رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

سول نافرمانی ؟

Dec 17, 2024 01:47 AM |

بھارت کی شامت

Dec 17, 2024 01:27 AM |