اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق شرح سود 2 فیصد کمی کے بعد 13 فیصد ہوگئی ہے۔ بزنس کمیونٹی اور معاشی ماہرین مرکزی بینک کے اس فیصلے کو ملک کے لیے خوش آیند قرار دے رہے ہیں۔
شرح سود میں یہ مسلسل پانچویں بار کمی معیشت میں استحکام کا اشارا ہے۔ ایک سال میں حکومت کی معاشی ٹیم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، یہی وجہ ہے کہ شرح سود میں مسلسل کمی ہوتی چلی آرہی ہے ۔ادھر ملک میں افراط زرکی شرح 4.9 فیصد پر آگئی ہے جو کہ 78 ماہ کی کم ترین سطح ہے، جون 2024 کے بعد مسلسل 5 اجلاسوں میں شرح سود میں 9 فیصد کمی آئی ہے، زرمبادلہ ذخائر میں اضافے اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی اشاریے مثبت ہیں۔
اس اقدام سے قرضوں کی لاگت میں کمی ہوگی اور سرمایہ کاری کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ نجی شعبے کو نئی سرمایہ کاری کے لیے سستا قرضہ ملے گا۔ کاروباری سرگرمیاں بحال ہوں گی اور صنعت کا پہیہ چلے گا۔
زرمبادلہ ذخائر بھی بارہ ارب ڈالرز پر مستحکم رہے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کنٹرول میں ہے، اس وقت تک مانیٹری اور اکانومی کے اشارے ہدف کے مطابق ہیں، البتہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل نہیں ہو رہا، اب اگر حکومت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کر لے اور زراعت کو فروغ دے تو ملکی معاشی ترقی کا سفر تیز ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو بڑے سرمایہ کار بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھتے تھے، اب شرح سود میں کمی کے بعد وہ سرمایہ بھی مارکیٹ میں لائیں گے اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔
پاکستان میں اب معاشی ٹھہراؤ کی کیفیت ہے، افراتفری اور غیریقینی کا ماحول ختم ہورہا ہے۔ پاکستان میں شیڈول کے مطابق آئی ایم ایف نے قرض کی قسط ادا کردی ہے جب کہ پاکستان کے ریزرو بھی بڑھ گئے ہیں اور مہنگائی کی شرح بھی سنگل ڈجٹ پر آگئی ہے، قومی معیشت میں اصلاحات کا سفر درست سمت میں جاری ہے، معاشی صحت کو جانچنے کے کئی اشاریے اِس حوالے سے مثبت پیغام دے رہے ہیں۔ ایک اہم اشاریہ اسٹاک مارکیٹ انڈکس ہے جو ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک لاکھ سولہ ہزار کی نفسیاتی حد عبور کرچکا ہے۔ یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔
انڈکس کا مثبت رجحان آنے والے دِنوں میں مثبت معاشی سرگرمیوں کا عکاس ہے۔ ہماری اسٹاک مارکیٹ خطے کی بہترین کارکردگی دکھانے والی مارکیٹوں کی فہرست میں اولین پوزیشن پر ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کی بہترین کارکردگی میں لوکل سرمایہ دار ہی نہیں، بلکہ کارپوریٹ سیکٹر اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی شامل ہے۔ گو اسٹاک مارکیٹ معاشی ترقی کا حقیقی انڈیکیٹر نہیں سمجھا جاتا البتہ اس کا نفسیات اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کاروباری حلقے اس کا مثبت تاثر لیتے ہیں۔
ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریباً 40 ایک تہائی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس آبادی کو فائدہ اسی وقت پہنچے گا جب معاشی ثمرات گراس روٹ لیول تک پہنچیں گے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے کے والی ہنرمند اور غیرہنر مند لیبر کی طلب میں اضافہ ہوگا، اس کے لیے معیشت کے دو بڑے سیکٹرز میں سرگرمیاں تیز ہونا بہت ضروری ہے۔ ان میں زراعت اور کنسٹرکشن انڈسٹری شامل ہے۔ یہ دو سیکٹر ہنر مند اور غیر ہنر مند دونوں قسم کی لیبر فورس کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔ اگر یہ دونوں سیکٹر ترقی کرتے ہیں تو لازم ہے کہ گراس روٹ لیول تک پیسہ پہنچے گا۔
جس کے نتیجے میں دیہات میں کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی بلکہ شہروں میں پرچون فروش، ٹی شاپ، ڈھانہ ہوٹلز، دودھ دہی کی دکانوں پر بھی رش دیکھنے میں آئے گا۔ ہمارے ہاں جب بھی ایگریکلچرل کی بہتری کے بارے میں کچھ کیا جاتا ہے تو اس کے فائدہ بڑے بڑے زمیندار، اناج کے بیوپاری، زرعی مداخل کے بیوپاری اور امپورٹرز لے جاتے ہیں۔ چھوٹے زمینداروں، کسانوں اور زرعی مزدورں کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے فوائد یہی طاقتور طبقہ لے جاتا ہے، ہماری کام کرنے والی آبادی کا غالب حصہ، شعبہ زراعت سے منسلک ہے، لیکن اس شعبے کے عاملین کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔
بجلی، گیس اور توانائی کے ذرایع تاحال مہنگے ہیں۔ پاکستان کو اگلے چند سال کے دوران 25 ارب ڈالر کی خطیر رقم واپس کرنی ہے اور اس کے ساتھ اپنے اخراجات بھی چلانے ہیں۔ ایسے میں ماہانہ اعداد و شمار کو بنیاد بناکر قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ بہتری آ چکی ہے اور بہتری کے اثرات جب تک عوام کو منتقل نہ ہوں اس وقت تک یہ محض الفاظ ہیں ۔
پاکستان کو معیشت کے بیرونی سیکٹر کو استحکام دینے کے لیے جہاں برآمدات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، وہیں اندرونی استحکام کے لیے ٹیکس نظام میں اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ گزشتہ مالی سال پاکستان میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس جمع کرنے کی شرح محض 9.24 فی صد ریکارڈ کی گئی جو اس سال بھی اتنی ہی رہنے کا امکان ہے۔ اسے کم از کم 15 فی صد تک بڑھانا ہوگا جب کہ دوسری جانب اخراجات کی رفتار کافی تیز ہے اور یہ گزشتہ سال جی ڈی پی کا 19 فی صد سے بھی زیادہ رہے ہیں، انھیں کم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
حکومت کو افراطِ زر پر گہری نظر رکھنا ہو گی اور یقینی بنانا ہو گا کہ کمی کا جو رجحان جاری ہے اس تسلسل کو برقرار رکھا جاسکے۔ افراطِ زر اور شرح سود میں کمی خوش آیند مگر عام آدمی کی قوتِ خرید بڑھانے کا چیلنج اب بھی اسی طرح ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2024 میں 10.3 فیصد تک پہنچ گئی جو تین سال پہلے 6.3فیصد تھی۔
بے روزگاری میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی افراطِ زر سے پاکستان کے زیریں اور درمیانی آمدنی والے طبقے کی معیشت پر جو شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں یہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اگرچہ حکومتی تخمینوں میں افراطِ ز ر میں اضافے کی شرح تھم گئی ہے مگر بجلی، گیس، ادویات اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں پچھلے ایک، ڈیڑھ برس میں جو اضافہ ہو چکا ہے اس کے اثرات عام شہریوں، جن کی آمدنی میں اس دوران کوئی اضافہ نہیں ہوا، کے لیے مستقل درد سر ہے، چنانچہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی تنخواہ دار طبقے کا معاشی توازن بگاڑ دیتا ہے جب کہ وہ شہری جن کے پاس روزگار کے مقررہ وسائل بھی نہیں، ان کی زندگی بدستور معاشی بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔
حکومت کی معاشی حکمت عملی میکرو سطح پر یقینا نتائج دے رہی ہے اور اس کا عکس معاشی اشاریوں میں دکھائی دیتا ہے مگر مائیکرو سطح کے چیلنجز اُسی طرح ہیں اور روزگار کے وسائل میں کمی کے مسائل بھی ابھی حل طلب ہے۔ اس لیے حکومت کو نچلی سطح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ عام آدمی بھی ان معاشی ثمرات سے بہرہ ور ہو سکے۔ حکومت کو معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
افراطِ زر اور شرح سود میں کمی اشیا ئے ضروریہ کی قیمت میں کمی کی صورت میں سامنے آنی چاہیے۔ شرح سود کم ہونے سے کاروباری لاگت میں کمی آئے گی جس سے قیمتیں بھی کم ہونی چاہئیں اور اس کا فائدہ ملکی صارفین کو بھی ہو گا جب کہ برآمدات میں بھی اضافہ ممکن ہے۔ اس سے علاقائی ممالک کے ساتھ مسابقتی اہلیت بھی بہتر ہوگی۔حکومت کو پالیسیوں کے تسلسل پر توجہ دینی چاہیے اور اسے ایسے بڑے فیصلے لینے ہوں گے جنھوں نے گزشتہ 25 برسوں میں ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔
ٹیکس نظام میں اصلاحات متعارف کرانا، اسمگلنگ کو روکنا، صنعتی ترقی کے لیے بہتر سہولیات کی فراہمی، غیر ضروری اخراجات کی کٹوتی اور انسانی سرمائے کو مزید قابل عمل بنانے جیسے اقدامات ہی سے بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ حکومت اور غیر ملکی ادارے پاکستان کی معیشت کی بہتری میں جو دعوے کررہے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ عام آدمی کا معاشی بوجھ کم ہو اور اس کی حالت میں مثبت تبدیلی آئے۔
اگر واقعی معاشی معاملات میں بہتری آئی ہے تو پر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں قابلِ ذکر حد تک کمی آنی چاہیے تاکہ عام آدمی کو بھی اس بات کا یقین ہوسکے کہ معیشت واقعی استحکام اور ترقی کی جانب گامزن ہے۔