آج کالم لکھنے کا ارادہ تو نہیں تھا کہ دانتوں میں تکلیف بہت ہے، گھر میں دانتوں کی ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والی بیٹی نے روائتی انگریزی علاج تجویز کیا لیکن میرے جیسے دیہاتی ابھی دیسی ٹوٹکوں کو ترجیح دیتے ہیں،کبھی دانتوں کو نمک لگا لیا تو کبھی دانتوں میں لونگ دبا لیا ، اس سے کچھ نہ کچھ افاقہ ہو ہی جاتا ہے، ساتھ ہی ڈاکٹر صاحبہ کے پرزور اصرار پر ایک آدھ انگریزی دوائی بھی استعمال کر لی۔ ابھی شاید عمر کے اس حصہ میںنہیں پہنچا کہ علاج دنداں ، اخراج دنداںوالا معاملہ بن جائے، ابھی دوائیوں اور ٹوٹکوں سے ہی کام چل جاتا ہے۔
دسمبر پاکستانی قوم پر سانحوں کی صورت میں وارد ہوتا آیا ہے۔ آج سے دس برس قبل پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے بچوں پر جو سانحہ بیت گیا، اس کی چوٹ ہم آج تک بھول نہیں پائے ۔ ایسے کتنے ہی سانحوں کا ہم شکار رہے ہیں لیکن کسی بھی سانحہ سے ہم نے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اگر کچھ سیکھا ہے تو وہ صرف مذمت کرنا اور مذمت کر کے ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کر دیا۔ نصف دہائی سے کچھ زیادہ مدت بیت گئی جب اس قوم پر ایک ایسا سانحہ بیت گیا جس نے ہمارے ملک کو دوٹکروں میں بانٹ دیا ۔
یہ میری پیدائش سے پہلے کا سانحہ ہے لیکن جب بھی بزر گوں سے اس سانحہ کے واقعات سنے تو دل واقعی خون کے آنسو روتا ہے۔ والد صاحب بتاتے تھے کہ وہ بزرگ سیاستدان میاں ممتاز دولتانہ کے گھر پر موجود تھے، جب برآمدے میں پڑے فون کی گھنٹی بجی تو میاںصاحب نے کہا کہ قادر حسن فون سنو ، دوسری طرف جنرل عمر تھے جو ڈھاکا سے بات کر رہے تھے جنھوں نے میاں ممتاز دولتانہ کو اس دلخراش سانحہ کی اطلاع دی اور پھر اس کے بعد میاں صاحب کی وسیع و عریض کوٹھی میں ماتم کا ساماں تھا۔
مغربی پاکستان کے عوام کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان میں ان کے بھائی ان سے اس قدر ناراض ہیں کہ وہ ان سے علیحدگی کو ترجیح دے دیں گے۔ گو کہ دونو ں اکائیوں کے درمیان زمینی رابطہ نہیں تھا لیکن دل و جاں ضرور جڑے ہوئے تھے، پھر کیا وجہ ہوئی کہ جڑے ہوئے دل جدا ہو گئے اور ان کی جگہ نفرتوں نے ڈیرے ڈال ڈیئے ۔ اس طرح کے سوالات میری عمر کے لوگ تو کرتے رہیں گے اور ان کے جوابات کے منتظر رہیں گے لیکن شاید ہماری نوجوان نسل جو نئے پاکستان میں پل بڑھ رہی ہے، اس کو اس سے کوئی سروکار نہ ہو۔
والد صاحب بتاتے تھے کہ انھوں نے سقوط ڈھاکا کے موقع پر اس جان گسل سانحہ پرنوائے وقت میں کالم لکھے جن میں سے ایک کالم جنرل امیر عبداللہ نیازی کے خلاف تھا ، اس پر جنرل نیازی نے ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا جس میں ایک کثیررقم کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ پھر یہ معاملہ ادھر ادھر ہوگیا۔ایک مرتبہ لاہور کے جمخانہ کلب کے کارڈ روم جہاں میجرشبیر شریف شہید کے والد میجر شریف بیٹھا کرتے تھے، ایک دفعہ جنرل نیازی بھی اس کمرے میں پہنچ گئے، ان کو دیکھتے ہوئے میجر شریف غصے میں آگئے اور جنرل نیازی وہاں سے چلے جانے پر مجبور ہو گئے ۔
پاکستان پر مظالم کی جب بھی کوئی یاد آتی ہے تو بے طرح بزرگ یاد آجاتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا پاکستان تھا، یہ ملک ان کا رومانس تھا ۔ ایک دفعہ کشمیر کی بات ہوئی تو کہنے لگے کہ ہماری حکومتوں نے کشمیر پر مسلسل مجرمانہ طرز عمل اپنائے رکھا اور جنرل مشرف کے دور میں کشمیر جیسے اہم مسئلہ سے دانستہ پہلوتی اختیار کی گئی، قائد اعظم نے اگر کشمیر کو پاکستان کو شہ رگ کہا تھا تو ان کا مطلب تھا اگر شہ رگ کٹ جائے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے، کشمیر ہمارے پانیوں کا منبع ہے اور ہماری زرعی و معاشی زندگی کی شہ رگ ہے، اگر خدانخواستہ کٹ گئی تو ہم زندہ کیسے رہیں گے، سندھ تاس کا منصوبہ اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہے اور اب تو بھارت ہمارے حصے کے دریاؤں پر بھی بند باندھ چکا ہے۔
معلوم یوں ہوتا ہے کہ ہم نے کشمیر بھارت کو بخش دیا ہے ۔ اس بخشش پر انھوں نے حافظ شیرازی کا شعر سنایا جسے امیر تیمور نے تاریخی بنا دیا۔ شاعر تو معشوق کے چہرے پر سیاہ تل دیکھ کر اس قدر دیوانہ ہوا کہ ہوش و حواس گنوا بیٹھا اور اس وقت دنیا کے دو مشہور و خوبصورت شہر اس محبوب کو تل کے عوض بخش دیے۔
جب تیمور ایک فاتح بن کر شاعر کے شہر شیراز میں آیا تو اس نے شاعر کو طلب کیا جو بوڑھا ہو چکا تھا اور لوگ اسے سہارا دے کر فاتح کی خدمت میں لائے تھے امیر تیمور نے دیکھتے ہی شاعر سے کہا کہ میں نے جن شہروں کو آراستہ کرنے اور ان کی چمک دمک پر دنیا جہاں کی میسر نعمتیں لگا دیں، تم نے صرف ایک معشوق کے چہرے کے تل کے عوض ان کو بخش دیا، اس پر شاعر نے دست بدستہ عرض کیا کہ جہاں پناہ انھیں سخاوتوں اور غلط بخشیوں کی وجہ سے اس حال میں پہنچا ہوں۔
تیمور جو شاعروں اور عالموں کا قدردان تھا، اس جواب سے بہت خوش ہوا اور شاعر کو بہت کچھ دیا اور اس کی دیکھ بھال کا بندوبست کر دیا۔ اب تو معلوم یوں ہوتا ہے کہ ہم نے ہندوؤں کو بھی اس کے حسن کے کسی جلوے کو دیکھ کر کشمیر جنت نظیر بخش دیا ہے مگر آج نہ تو کوئی امیر تیمور ہے اور نہ کوئی حافظ شیرازی ۔ اب شعرو شاعری اور چند یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ خواجہ حافظ شیرازی کا شعر بھی پڑھ لیجیے ،
اگر آںترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را