حکومت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ جمہوری نظام کے ارتقاء پذیر ہونے سے پہلے مزاحمتی گروہ طاقت کے ذریعے ریاست پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے تھے، یوں جنگ و جدل کے ذریعے اقتدار منتقل ہوتا تھا، مگر یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد متوسط اور مزدور طبقہ وجود میں آیا، سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں، اخبارات عام ہوئے۔
مزدور اور کسان تنظیمیں قائم ہونے لگیں۔ اب دنیا میں پرامن جدوجہد کا تصور آیا۔ یہ تصور بھی تقویت پاگیا کہ معاشرے کا کوئی مظلوم گروہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اور کبھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے بھی پرامن جدوجہد کا ہتھیار استعمال کرتا ہے مگر پرامن جدوجہد کے ساتھ مسلح جدوجہد بھی ایک ہتھیار بن گئی۔
عظیم سیاست دان مہاتما گاندھی نے انگریزی راج کے خلاف پرامن سیاسی جدوجہد کی ، جس میں سول نافرمانی کا ہتھیار بھی استعمال کیا گیا۔ موہن داس کرم چند گاندھی 2 اکتوبر 1869کو گجرات کے گاؤں پور بندر میں پیدا ہوئے۔ برطانیہ کی قانون کی سب سے بڑی درس گاہ ٹیمپل ان سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی، پھر وکالت کا پیشہ اختیارکیا۔ گاندھی کچھ عرصے کے لیے جنوبی افریقہ چلے گئے جہاں گاندھی نے نسل پرستی کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغازکیا، وہ پھر ہندوستان آگئے اور کانگریس کے سرپرست بنے۔گاندھی نے ہندوستان کی آزادی کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد شروع کی اور اس دوران سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز بھی کیا۔
انھوں نے ہمیشہ اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا سیاسی ہتھیار اپنایا۔ گاندھی جی نے 1930کے برطانوی راج کے قوانین کی خلاف ورزی کی تحریک شروع کی جو ہندوستان میں پہلی سول نافرمانی کی تحریک تھی۔ گاندھی جی نے نمک مارچ شروع کیا۔ وہ 6 اپریل 1930 کو ڈانڈی گئے اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میٹھے پانی سے نمک بنانے کی تحریک شروع کی۔ نمک مارچ 12 مارچ کو شروع ہوا اور 6 اپریل 1930 کو اختتام پذیر ہوگیا۔ بتایا جاتا ہے کہ نمک مارچ کے آغاز پر صرف 80 افراد اس مارچ میں شال تھے، پھر یہ تعداد 50 ہزار تک پہنچ گئی۔
مہاتما گاندھی نے 8 اگست 1942کو ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی۔ اگرچہ آل انڈیا مسلم لیگ نے اس تحریک کی حمایت نہیں کی، تاہم یہ تحریک پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور کانگریس کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا، یہ تحریک 1945 تک جاری رہی۔ اس تحریک کے دوران ہزاروں لاکھوں افراد جیل گئے۔
بعض تاریخ دان کا یہ مؤقف ہے کہ یہ تحریک اپنے اہداف حاصل نہ کرسکی، مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے ہندوستان کو آزاد کرنے کے مختلف منصوبوں پر غور کرنا شروع کیا۔ گاندھی جی اپنی سول نافرمانی کی تحریک کی بناء پر پرامن مزاحمتی تحریک کا استعارہ بن گئے۔
1958 میں پاکستان کے صدر اسکندر مرزا نے مارشل لاء لگا دیا اور آئین کو منسوخ کردیا اور جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کیا، پھر ایوب خان کی آمریت کا دور شروع ہوا۔ 60 کی دہائی سے ایوب خان کی آمریت کے خلاف سیاسی جماعتوں، طلبہ تنظیموں اور مزدور تنظیموں نے مزاحمتی تحریک شروع کی۔
کراچی میں این ایس ایف کے رہنماؤں نے مزاحمتی تحریک کی ایک نئی تاریخ رقم کی، جب جنرل ایوب خان نے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی تو ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوا۔ مگر 1968میں پھر ایک عوامی تحریک شروع ہوگئی اور ایوب خان کو اس عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
پاکستان بننے کے بعد 1970 میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے قطعی اکثریت حاصل کی۔ سندھ اور پنجاب سے پیپلز پارٹی، سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے قطعی اکثریت حاصل کی تھی۔ اس وقت صدر جنرل یحییٰ خان انتخابی نتائج کو قبول نہ کیا اور مارچ 1971 کو ڈھاکا میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو منسوخ کیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کی بھرپور حمایت کی جس پر عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے نتیجے میں ڈھاکا سے چٹاگانگ تک زندگی معطل ہوگئی۔ جنرل یحییٰ خان اور ان کے رفقاء نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کیا۔شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے میانوالی جیل میں منتقل کیا گیا اور آپریشن کی بناء پر عوامی لیگ کے افراد بھارت چلے گئے۔
بھارت نے سابقہ مشرقی پاکستان کی سرحد کے ساتھ ان افراد کے کیمپ قائم کیے۔ عوامی لیگ کے ایک رہنما کرنل عثمانی کی قیادت میں گوریلا تنظیم مکتی باہنی قائم کر لی گئی۔ بھارت کی فوج مکتی باہنی کی مدد کے لیے سرحد پار کر کے سابقہ مشرقی پاکستان میں داخل ہوئی اور 16 دسمبر 1971 کو مشرقی کمانڈ کے کور کمانڈر جنرل اے کے نیازی نے ڈھاکا کے ریس کورس گراؤنڈ میں بھارتی فوجی افسر جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، یوں مشرقی پاکستان دنیا کے نقشہ سے گم ہوگیا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں عام انتخابات کرائے۔ حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد (P.N.A) نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکارکیا اور بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے دوران حکومت نے پی این اے کے تمام رہنماؤں سوائے پیر پگارا کے گرفتار کر لیا مگر جب 5 جولائی 1977کی رات کو پیپلز پارٹی کی حکومت اور پی این اے کی قیادت ایک معاہدے پر متفق ہوئی تو فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 3 ماہ میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا مگر انتخابات نہ ہوئے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) کے رہنماؤں نے 1983 میں 1973 کے آئین کی بحالی کے مطالبے کو منوانے کے لیے ضیاء حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ یہ تحریک 6ماہ سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی۔ اس تحریک کے دوران ہزاروں سیاسی کارکن گرفتار ہوئے۔ اس دوران بیسیوں افراد ہلاک ہوئے۔
ایم آر ڈی کی تحریک کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی۔ برطانیہ، امریکا اور یورپی ممالک میں پاکستان میں سیاسی قیدیوں کی رہائی اور اخبارات پر سنسر شپ کے خاتمے کے علاوہ 1973 کے آئین کی بحالی کے مطالبات کی حمایت ہونے لگی۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین اور امریکا کے سینیٹروں نے بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے جنرل ضیاء الحق کو خطوط لکھے۔
جنرل ضیاء الحق نے 1984 میں ایک متنازع ریفرنڈم کے ذریعے خود کو صدر منتخب کروا لیا۔ 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کو اپنا وزیر اعظم نامزد کیا مگر جنرل ضیاء الحق نے 1988 میں اپنے منتخب کردہ وزیر اعظم کو خود ہی برطرف کر کے قومی اسمبلی توڑ دی۔ جنرل ضیاء الحق تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہوگئے۔
1988میں عام انتخابات ہوئے اور 1973 کا آئین بحال ہوا اور آخرکار ایم آر ڈی کی تحریک کے نتائج سامنے آئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سول نافرمانی کی تحریکوں کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 1900سے لے کر 2006 تک ایک صدی سے زیادہ عرصے تک اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے عدم تشدد تحریک کا پرتشدد تحریک کے مقابلے میں دگنا اثر ہوا۔ اس تحقیق میں عدم تشدد کے کئی طریقوں کی شناخت کی گئی ہے جن میں علامتی احتجاج، اقتصادی بائیکاٹ، مزدوروں کی ہڑتالیں، سیاسی اور معاشرتی عدم تعاون اور عدم تشدد کی پرامن تحریک شامل ہے۔
تحریک انصاف نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے، اگرچہ تحریک انصاف حکومت سے بات چیت کے لیے اب آمادہ ہوگئی ہے مگر شاید حکومت انھیں مزید سزا دینا چاہتی ہے، مگر تحریک انصاف کے پاس سول نافرمانی کا ایک راستہ موجود ہے، اگر واقعی تحریک انصاف اس بارے میں سنجیدہ ہے تو یہ سوچ کر تحریک شروع کی جائے کہ اس کے فوری نتائج برآمد نہیں ہوںگے۔