شام کی تاریخ اور موجودہ سیاسی منظرنامہ

آج شام کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کے مختلف حصے مختلف طاقتوں کے زیر قبضہ ہیں۔


زاہدہ حنا December 18, 2024

شام جو تہذیب و تمدن کا قدیم مرکز رہا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں انسانی تاریخ کی بنیاد رکھی گئی، لیکن تاریخ کی کتابوں میں سنہری باب رکھنے والا یہ خطہ آج جنگ تباہی اور خونریزی کا شکار ہے۔ تاریخی طور پر شام ایک ایسا مرکز تھا جہاں مختلف سلطنتیں آئیں، حکمرانی کی اور اپنے نقوش چھوڑ گئیں۔

رومیوں، بازنطینیوں، سے لے کر عثمانیوں تک شام ہمیشہ ایک ایسا میدان رہا جہاں طاقت کے کھیل کھیلے گئے۔ 1946 میں آزادی کے بعد، شام نے خود مختاری حاصل کی لیکن اندرونی خلفشار اور بیرونی سازشوں کے باعث یہ اپنی منزل کا تعین نہ کر سکا۔آزادی کے ابتدائی برسوں میں جمہوری حکومتیں بنیں لیکن بار بار کی فوجی مداخلتوں نے شام کو سیاسی استحکام سے محروم کردیا۔

1970 میں حافظ الاسد نے اقتدار سنبھالا اور ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کی۔ ان کے دور میں شام نے کچھ ترقی ضرورکی، لیکن یہ ترقی چند طبقات تک محدود رہی۔ حافظ الاسد نے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے ریاستی مشینری کو مکمل طور پر قابو میں رکھا اور اختلاف رائے کو سختی سے کچل دیا۔

ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا اور حکومت کا وہی آمرانہ طرز عمل جاری رہا۔بشار الاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد شام کی معیشت میں کچھ تبدیلیاں لائی گئیں لیکن یہ تبدیلیاں بھی عوام کی حالت بدلنے میں ناکام رہیں۔ ملک کے وسائل چند خاندانوں اور طبقات تک محدود رہے اور عوام غربت، بے روزگاری اور بدعنوانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ حکومت کی عوامی مسائل سے بے اعتنائی نے آہستہ آہستہ عوام میں بے چینی پیدا کی جو 2011 کی عرب بہار کے دوران کھل کر سامنے آئی۔

2011 میں شروع ہونے والی عرب بہار نے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو جمہوریت اور آزادی کی راہ پر گامزن کیا لیکن شام میں یہ تحریک ایک خوفناک خانہ جنگی میں بدل گئی۔ عوام نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کیے جنھیں حکومت نے بھرپور طاقت کے ساتھ کچلنے کی کوشش کی۔ ان مظاہروں کے خلاف حکومت کے سخت اقدامات نے شام کو ایک ایسے بحران میں دھکیل دیا جس کا خاتمہ آج تک ممکن نہیں ہو سکا۔

شام کی خانہ جنگی نے نہ صرف ملک کو تباہ کیا بلکہ اسے بین الاقوامی طاقتوں کی جنگ کا میدان بھی بنا دیا۔ امریکا، روس، ایران، ترکی اور دیگر طاقتیں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے شام میں داخل ہوگئیں۔ بشار الاسد نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے روس اور ایران کی مدد حاصل کی جب کہ اپوزیشن گروپوں کو امریکا اور خلیجی ممالک کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس دوران شدت پسند تنظیم داعش نے شام میں قدم جما لیے اور ملک دہشت گردی کا گڑھ بن گیا۔

 آج شام کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کے مختلف حصے مختلف طاقتوں کے زیر قبضہ ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ایک ایسی حقیقت ہے جو دیر یا بدیر سامنے آنا تھی کیونکہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف تھے۔

شام کی موجودہ حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ جب حکومتیں عوام کے مسائل کو نظرانداز کرتی ہیں تو وہ خود اپنی بنیادیں کھو دیتی ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت نے تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات کو نظرانداز کیا۔ عوام کو سیاسی آزادی دینا تو دورکی بات ان کی روزمرہ کی ضروریات کو بھی پورا کرنے میں ناکام رہی۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شام پر قابض قوتیں بھی جمہوریت یا انسانی حقوق کی علمبردار نہیں ہیں۔ جو گروہ اس وقت شام کے مختلف علاقوں پر قابض ہیں، ان کا ایجنڈا عوامی فلاح کے بجائے ذاتی اور علاقائی مفادات پر مبنی ہے۔ داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں نے شام کے عوام کو مزید مایوسی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔

 بشار الاسد کا ملک سے فرار اور ان کی حکومت کا اختتام یہ ظاہر کرتا ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر حکومتیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں۔ تاریخ کا یہ اصول ہر دور میں دہرایا گیا ہے کہ جب حکمران عوام کے مسائل کو نظرانداز کرتے ہیں تو عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، لیکن شام کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی بین الاقوامی سیاست اور داخلی انتشارکا شکار ہیں۔طاقت اور ظلم کے ذریعے حکومتوں کو قائم نہیں رکھا جا سکتا اور دوسری طرف یہ سوال اٹھاتا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں شام کے عوام کو ان کے حق حکمرانی سے کیوں محروم رکھے ہوئے ہیں؟

 شام جوکبھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، آج تباہی اور مایوسی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ اس کی موجودہ صورتحال ایک ایسی کہانی ہے جو دنیا کے ہر حکمران کے لیے ایک سبق ہے۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ عوام ہی حکمرانوں کی اصل طاقت ہیں اور جب یہ عوام ناراض ہو جائیں تو تخت و تاج کا کھیل ختم ہو جاتا ہے۔آج شام کے عوام اپنے ملک میں امن اور استحکام کے خواہاں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی سرزمین دوبارہ تعمیر ہو اور وہ اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل بنا سکیں، لیکن یہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک شام پر قابض تمام طاقتیں عوامی مفادات کو اولیت نہ دیں۔

شام کی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حکمرانوں کا اصل فرض عوام کی خدمت ہے، اگر یہ اصول نظرانداز کیا جائے تو تخت و تاج کا یہ کھیل صرف موت تباہی اور مایوسی چھوڑ جاتا ہے۔ شام کی سرزمین پر آج بھی تاریخ کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو اپنے حکمرانوں اور عالمی طاقتوں کو یہ یاد دلاتی ہے کہ عوام کی خدمت ہی اصل حکمرانی ہے اور جو اس اصول کو بھول جاتا ہے وہ تاریخ کے اندھیروں میں کھو جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں