دو قدم پیچھے!

سڑکوں پر بار بار احتجاج، جلسے، جلوس کے باوجود پی ٹی آئی اپنے مقصد میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی


ایم جے گوہر December 18, 2024

برطانیہ کا فلسفی شاعر اور دانشور ولیم بلیک جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں پیدا ہوا۔ (28 نومبر1757۔12 اگست 1827) نے ایک موقع پر کہا تھا کہ عظیم کام اس وقت ہوتے ہیں جب انسان اور پہاڑ ملتے ہیں۔ کوئی بھی عظیم کام محض سڑکوں پر دھکم دھکا کرنے سے نہیں ہوتا۔

"Great things are done when men and mountains meet. This is not done by losting in the street."

ولیم بلیک کی اس بات کو سو فی صد درست قرار دیا جاتا ہے،کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑے کام کے لیے بڑا عمل درکار ہوتا ہے۔ پہاڑوں کی کٹھن اور جاں گسل چڑھائی کے بعد ہی کوئی آدمی، جسے کوہ پیمائی کا شوق و جنون ہو، پہاڑکی بلند چوٹی پر پہنچتا ہے۔ یعنی بڑا مقصد حاصل کرنے کے لیے صبر، برداشت، تحمل، عزم صمیم، دانش مندی اور حکمت عملی کے ساتھ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔

محض سڑکوں پر شور و غل کرنے، جلسے جلوسوں میں کھوکھلے نعرے لگانے، بڑھکیں مارنے اور جوش و جذبات کی رو میں بہہ کر بلند و بانگ دعوے کرنے سے کوئی بڑا مقصد کبھی حاصل نہیں ہوتا۔ حقیقی معنوں میں کوئی بڑا مقصد پانے کے لیے لازم ہے کہ آدمی اپنے گرد و پیش کے حالات کا باریک بینی اور گہرائی و گیرائی کے ساتھ جائزہ لے۔ ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کرے۔ امکانی طور پیش آمدہ خطرات کا ادراک اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی حکمت عملی سے طے ہونی چاہیے۔

ایک تابندہ مثال بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جنھوں نے اپنی محنت، دیانت، لگن، جذبہ صادق، خلوص نیت اور ایک بھی گولی چلائے بغیر، اپنی ذہانت، متانت، سنجیدگی، دانش مندی، بصیرت اور حکمت عملی سے برصغیر کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ اس کے برعکس جو لوگ محض سڑکوں پر شور و غل کو بڑا کام سمجھیں،  درست سمت میں قدم اٹھانے کے بجائے جوشیلے، جذباتی اور انجام کی سوجھ بوجھ کے بغیر ایک ہجوم کی صورت آگے بڑھنے کو کامیابی اور بڑا مقصد قرار دیں تو وہ صرف اجتماعی کثافت میں اضافہ کرتے ہیں۔ انھیں تاریخ کا ادراک نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے مقصد کے حصول میں کلی طور پر کامیاب ہوتے ہیں۔

اس پس منظر میں ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال آج کی سیاسی قیادت جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں اور فیصلہ ساز قوتوں کے کردار بعینہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کے کردار کا جائزہ لیں تو سب اپنے اپنے تئیں ملک و قوم کی خاطر اپنا مثبت و تعمیری کردار ادا کرنے کے دعویدار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے امن و امان کا قیام اور معاشی و سیاسی استحکام ناگزیر ہے تو کیا اس وقت کے پی کے اور بلوچستان پرسکون اور ملک میں امن قائم ہے؟ کیا معیشت مستحکم ہے؟ کیا حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کشمکش و محاذ آرائی سے سیاسی استحکام قائم ہو سکتا ہے؟ افسوس کہ ان سوالوں کا جواب ہاں میں نہیں دیا جا سکتا۔

دور اندیش، محب وطن اور صائب الرائے حلقوں کا اس بات پر کلی اتفاق ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر ملک میں نہ معاشی استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی امن و امان کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ کیا حکومت اور اپوزیشن کو اس بات کا ادراک ہے؟ دونوں طرف سے چنگاریاں اچھالی جا رہی ہیں۔9 مئی سے 26 نومبر تک مقدمات کی ایک طویل فہرست پی ٹی آئی کی قیادت کا پیچھا کر رہی ہے۔ سڑکوں پر بار بار احتجاج، جلسے، جلوس کے باوجود پی ٹی آئی اپنے مقصد میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی ۔ اس کی مشکلات میں بجائے کمی کے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس پہ مستزاد وزیر اعلیٰ کے پی کے کی دھمکی کہ اگلی بار پرامن نہیں ہوں گے بلکہ اسلحہ لے کر نکلیں گے نے ماحول کو دوآتشہ کر دیا ہے۔ گنڈاپور کی اس گھرکی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کی حکومت کے ساتھ سیاسی مسائل بیٹھ کر غیر مشروط مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔

کیا حکومت ایسے دھمکی آمیز مذاکرات پر آمادہ ہو سکتی ہے؟مبصرین و تجزیہ نگار تواتر کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے کے بجائے افہام و تفہیم سے مذاکرات کے ذریعے سیاسی معاملات حل کرنے کی بار بار تجاویز دے رہے ہیں کہ تاریخ کا مطالعہ یہی کہتا ہے کہ جنگوں کے بعد بھی آخری معاملات مذاکرات کی میز پر ہی طے پاتے ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی ایک قدم آگے جانے کے بجائے دو قدم پیچھے ہو جائیں کہ بڑا مقصد حاصل کرنے کے لیے بڑی قربانی دینا پڑتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں