امریکی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ شام کو چھوڑ دیں۔ شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے گیرپیڈرسن نے کہا ہے کہ عبوری سیاسی نظام اس امر کو یقینی بنائے گا کہ شام اپنی معاشی ضروریات کے لیے مدد اور حمایت حاصل کرسکے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ( یو این ایچ سی آر) کی سربراہ برائے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ نے کہا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ اگلے سال جنوری اور جون کے درمیان 10 لاکھ شامیوں کی واپسی ہوسکے گی۔
شام اس وقت امن اور جنگ، استحکام اور لاقانونیت، تعمیر نو یا مزید بربادی کے درمیان ایک دوراہے پرکھڑا ہے۔ شامی حکومت کا زوال عالمی سطح کی سیاست کے لیے بھی اسباق فراہم کرتا ہے۔
بڑی طاقتیں خاص طور پر امریکا براہِ راست یا بالواسطہ کسی حکومت کو ہٹا سکتی ہیں لیکن وہ کسی ملک میں حکومت کو ہٹانے کے بعد امن اور استحکام کو یقینی نہیں بنا سکتیں۔ امریکا نے افغانستان، عراق اور لیبیا میں حکومتوں کو ہٹانے کے لیے اپنے یورپی اتحادیوں کے تعاون سے فوجی طاقت کا استعمال کیا، تاہم امریکا ان ممالک میں اپنی پسند کی حکومتیں قائم نہیں کر سکا۔ یہ تمام ریاستیں غیر یقینی مستقبل سے دوچار ہیں لیکن امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ان کی ناکامی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔
ملک شام کے صدر بشارالاسد کا تختہ پلٹنے کے بعد لوگ ’صبح‘ کی باتیں کر رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ ’شام‘ میں آمریت کا دور ختم ہونے کے بعد اب ’صبح‘ کا دور شروع ہوگیا ہے یا ہونے والا ہے لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ابھی تو ’شام‘ ختم ہوئی ہے، اس کے بعد ایک طویل رات بھی آتی ہے اور پھر صبح ہوتی ہے۔
گو حالیہ پیش رفت سے امید پیدا ہوئی ہے کہ شامی عوام کے مصائب بالآخر ختم ہوسکتے ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا جبری نقل مکانی کا بحران منصفانہ حل کی طرف بڑھ سکتا ہے، لیکن دیگر ملکوں میں پناہ گزین شامی لوگوں کی واپسی اور اس کی رفتار اس بات سے طے ہوگی کہ شام کے اگلے رہنما کتنا سیاسی استحکام فراہم کرسکتے ہیں۔اس وقت شام میں شدید جنگ زدہ آبادی 17 ملین کے قریب بنتی ہے، جنھیں سب سے زیادہ ضرورت انسانی امداد کی ہے، جو کہ 2011 کے بعد سے سب سے زیادہ تعداد ہے۔ خوردنی اشیا کی مہنگائی عروج پر ہے۔ شام کے بنیادی ڈھانچے بشمول اسکولوں، سڑکوں اور اسپتالوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ شام کے ہمسایہ ممالک بھی شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔
شامی اپوزیشن متحد نہیں ہے اور ملک کئی محاذ پر منقسم ہے۔ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے نے ایس ڈی ایف کے زیر کنٹرول علاقہ بھی چھین لیا ہے۔ شام کے ساحلی علاقوں میں روسی فوجی اڈے ابھی باقی ہیں۔ جنوبی شام میں اسرائیلی افواج کی موجودگی برقرار ہے اور امریکی افواج شام کے شمال مشرق میں موجود ہیں۔ فی الحال اقتدار پر قابض باغیوں کی تنظیم ایچ ٹی ایس کی جڑیں القاعدہ میں پیوست بتائی جاتی ہیں، حالانکہ اس کا کہنا ہے کہ اس نے 2016 میں اس گروپ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اس کے رہنما ابو محمد الجولانی (جن کا اصل نام احمد الشارع ہے) نے 2000کی دہائی میں عراق میں امریکا اور برطانیہ کی اتحادی افواج کے خلاف شورش میں حصہ لیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، برطانیہ، امریکا، یورپی یونین اور دیگر اسے دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایچ ٹی ایس کے حوالے سے فیصلہ الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے اعمال سے کریں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ شہریوں، تمام اقلیتی گروپوں کی حفاظت کریں اور اقتدار کی منتقلی پرامن طریقے سے کریں۔
ابھی کچھ ہی دنوں قبل برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ میں دہشت گرد تنظیم کے طور پر اس پر عائد پابندی پر فی الحال نظر ثانی ’’ بہت جلد بازی‘‘ ہوگی۔ حالانکہ اسد حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے، لیکن کچھ تنازعات اور فوجی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے خلاف امریکی فضائی حملوں کے علاوہ اسرائیل اور ترکیہ 2 بیرونی طاقتیں ہیں جو شام میں عسکری طور پر سرگرم عمل ہیں۔ ترکیہ کا استدلال ہے کہ ایس ڈی ایف کے کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) سے روابط ہیں، جو ترکیہ میں شورش برپا کر رہی ہے اور اسے دیگر کئی ملکوں کے علاوہ یورپی یونین اور برطانیہ ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں۔
ترکیہ کو بشار الاسد کے زوال کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ترکیہ تقریباً 2.9 ملین شامی مہاجرین کی میزبانی کرتا ہے۔ جہاں تک ایران اور لبنانی حزب اللہ کا سوال ہے، بشارالاسد کا زوال ایران کے ’’ محور مزاحمت‘‘ کے لیے ایک تزویراتی شکست ہے۔ اسد کی شکست نے ایران سے لبنان تک ایک اہم زمینی راستہ کاٹ دیا ہے۔ روس بھی صدر اسد کا ایک اہم حمایتی رہا ہے اور شام میں اس کے فوجی اڈوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے یہ بحیرہ روم، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بنائے ہیں، ان اڈوں کا مستقبل اب غیر یقینی ہے۔ امریکا، برطانیہ سمیت کئی یورپی ملکوں نے 2012 کی خانہ جنگی کے دوران شام پر مختلف نوعیت کی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
یہ کوئی اور نہیں جان سکتا اسرائیل نے غزہ کو تباہ کر کے ایک کھنڈر بنا دیا ہے، لبنان کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے لبنان میں حسن نصر اللہ کی شہادت اور پیجر دھماکوں کی ہلاکت انگیزیوں تک کیا کیا دہشت نہیں پھیلائی گئی اور دنیا کے ٹھیکیدار پھر بھی خاموش رہے بلکہ یہ ٹھیکیدار اسرائیل کے معاون و مددگار ہوئے۔ اب شام کی پہاڑیوں اور کئی علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے یوں سمجھیے اسرائیل نے مسلمانوں کی گردن دبوچ لی ہے شام کہ جہاں سے ایران، اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تنظیموں کو اسلحہ یا دوسری امداد ملتی تھی اسرائیل کے آجانے سے اب یہ ممکن نہیں رہا دوسری جانب جہاں مسلمانوں کو اسرائیل سے خطرہ ہے وہاں اس سے بھی زیادہ مسلمانوں کی آپس کی تقسیم خطرناک ثابت ہو رہی ہیمسلم حکمران اسرائیل کی زبانی کلامی مذمت تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ لڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، مسلمانوں کی یہی کمزوری غیر مسلموں کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
شام کی تقسیم نوشتہ دیوار ہے، سعودی عرب اور عرب لیگ کی طرف سے شامی وحدت و سلامتی کا تحفظ کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے لیکن کمزور کی بچھی بساط پر کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے جیسے مطالبات عرب لیگ سمیت او آئی سی کی طرف سے ایک سے زائد بار کیے جا چکے مگر کسی عالمی طاقت نے ایسے مطالبات کو پذیرائی نہیں دی، غزہ اور بیروت پر اسرائیلی بمباری روکنے کے مطالبات بھی ہوئے لیکن اسرائیل نے اپنی مرضی کی جب کہ امریکا جو بظاہر انسانی حقوق کا علمبردار ہے، نے اسرائیل کے خلاف یو این او میں پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کرنا ہی اپنا اولین فرض سمجھا ہے۔ بشار الاسد کو ملک سے فرار ہونے کا محفوظ راستہ دے کر شام میں اسرائیل کو جارحیت کے لیے جس طرح میدان ہموار کیا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر تباہی کی رقم ہوتی داستانیں دیکھنے کے باوجود عالمی اور مسلم ذرایع ابلاغ پر 1970سے جاری ظلم و ستم بیان کرنے کا مقابلہ ہے۔
آج بھی اسرائیلی وحشت و ظلم کے حوالے سے ذرایع ابلاغ میں سکوت سا طاری ہے۔ شام میں اگر آمریت سے گریز کیا جاتا آزادی اظہار پر قدغن نہ لگائی جاتی نیز فسطائیت کا راج قائم کرنے کے بجائے ملک کو فلاحی ریاست بنایا جاتا مگر ایسا نہ کیا گیا جس کی پاداش میں آج حکمران خاندان ملک بدر ہیں عوامی نفرت اُس کے والد کی ہر یادگار کو ملیامیٹ کررہی ہے، دکھ کی بات یہ ہے کہ شامی وحدت و سلامتی کو لاحق خطرات بڑھتے جارہے ہیں آج شام عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہے جب کہ بڑے علاقے پر اسرائیل نے نہ صرف بزور قبضہ کر لیا ہے بلکہ مزید پیش قدمی جاری ہے لیکن جارحیت روکنے اور ملکی سرحدوں کا تحفظ کرنے پر کسی کی توجہ نہیں، صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنائے گئے ہیں۔
اپوزیشن نے اقتدار کے لالچ میں بیرونی آقاؤں کی اطاعت کی اور ملک کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے میں معاون بنی جب کہ صدارت کے منصب پر براجمان نے عوامی رائے جاننے سے اجتناب کیا اُس کی حرکتوں سے آبادی اِس حد تک بدظن ہوتی چلی گئی کہ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہر قیمت چکانے پر آمادہ ہوئی۔ عوامی جذبات کا ادراک کرتے ہوئے بیرونی طاقتیں حرکت میں آئیں اور آزادی دلانے کی آڑ میں اپوزیشن سے ہاتھ ملایا مگر یہ ایسی آزادی ہے جس سے ملک خاک و خون میں لت پت کھنڈرات بنتا جارہا ہے۔
ایک رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ’’مشرقی وسطیٰ میں جاری جنگ کے فلسطینی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کیوجہ سے فلسطینی معیشت بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے سبب فلسطین کی مجموعی پیداوار میں کافی حد تک کمی آئی ہے اور مغربی کنارے اور غزہ میں بنیادی اشیاء کی رسائی کافی کم ہوگئی ہے۔‘‘ اسرائیلی جارحیت نے پوری دنیا کو خوفناک عالمی جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس وقت اسرائیل، فلسطین، لبنان، یمن اور ایران براہ راست نبرد آزما ہیں جب کہ شام عراق پہلے ہی اسرائیلی متاثرہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں، اس جنگ کا بڑا سبب اسرائیلی جارحیت یا اس کی جارحانہ پالیسیاں ہیں۔