تحریک انصاف آج کل مذاکرات کے راگ گا رہی ہے۔ پارلیمان کے اجلاس میں بھی مذاکرات کی بازگشت سنائی دی گئی۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ تحریک انصاف کی ارکان پارلیمان خواجہ آصف سے یہ گلہ کر رہے تھے کہ ان کی زبان آگ اگلتی ہے۔ وہ آگ لگانے والی باتیں کرتے ہیں۔
قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں آج تحریک انصاف پارلیمان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے گلہ کر رہی ہے کہ ان کی زبان سے آگ اگلتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی زبان نرم کریں تاکہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے آسکے۔ میں اس کو اچھی پیش رفت بھی کہہ سکتا ہوں۔ اگر یہ تحریک انصاف کی کوئی مستقل پالیسی ہو۔ لیکن اگر یہ کوئی وقتی پالیسی ہے تو پھر اس کو سیاسی چال ہی کہا جا سکتا ہے۔
بہر حال خواجہ آصف نے جواب میں کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ ان کی زبان آگ اگلتی ہے۔ لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ جواب میں دوسری طرف یعنی تحریک انصاف سے بھی کوئی پھول نہیں آرہے ہوتے۔ آگ کے جواب میں آگ پھینکی جاتی ہے۔ آگ کا جواب آگ سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں خواجہ آصف کہہ رہے تھے کہ اگر تحریک انصاف سیاسی گولہ باری بند کر دے تو ہم بھی سیاسی گولہ باری بند کر دیں گے۔ لیکن یک طرفہ بند نہیں کی جا سکتی۔
یہ درست ہے کہ تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے۔ لیکن اس کمیٹی کے ابھی تک حکومت سے مذاکرات شروع نہیں ہو ئے ہیں۔ تحریک انصاف نے پہلے مذاکرات کے لیے دو شرائط رکھی تھیں۔ لیکن اب ان شرائط کو بدل کر مطا لبات کر دیا گیا ہے۔ اب کہا یہ جا رہا ہے کہ ان دو مطالبات پر مذاکرات ہونگے۔
تا ہم ابھی تک حکومت کی طرف سے تحریک انصاف سے مذاکرات کے لیے نہ تو کوئی کمیٹی بنائی گئی ہے اور نہ ہی جواب میں حکومت کی جانب سے کوئی شرائط اور مطالبات رکھے گئے ہیں۔کہا یہ جا رہاہے کہ حکومت ابھی جائزہ لے رہی ہے کہ تحریک انصاف کے مذاکرات کی پیشکش کے پیچھے گیم پلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اور اصل اہداف کیا ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بانی تحریک انصاف نے سول نافرمانی کی کال دی ہوئی ہے۔ جس میں اوور سیز پاکستانیوں سے پاکستان ترسیلات زر نہ بھیجنے کا کہا گیا ہے۔ یہ کال ایک دفعہ دے دی گئی ہے۔ اس پر علیمہ خان نے اوور سیز پاکستانیوں سے خطاب بھی کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کی قیادت نے اس کے حق میں کوئی خاص بات نہیں کی ہے۔ تحریک انصاف پاکستان کی جانب سے ایک خاموشی پہلے دن سے دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن بانی تحریک انصاف نے کال دی ہے۔ اور وہ ابھی تک موجود ہے۔ اس کو ملتوی کرنے اور اس کو واپس لینے کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔ اس لیے اب کافی ابہام ہے۔ سول نافرمانی کی کال موجود بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ معاملہ کچھ درمیان میں ہے۔
لیکن حکومت کا موقف ہے کہ سول نافرمانی کی کال دیکر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ حکومت کی کن پٹی پر بندوق رکھ کر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ مذاکرات مشروط نہیں ہو سکتے۔ حکومت کا یہ بھی موقف ہے کہ مذاکرات کرنے والی تحریک انصاف کی کمیٹی ڈمی ہے۔ اس کے پاس فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے کہ تحریک انصاف نے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنائی اور جب کمیٹی کسی حتمی نتیجے پر پہنچی تو بانی تحریک انصاف نے سارے عمل کو ویٹو کر دیا۔
حال ہی میں انتخابات سے قبل پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان ملک میں عام انتخابات کی تاریخ پر مذاکرات ہوئے اور جب بات چیت طے ہو گئی تو بانی تحریک انصاف نے سارے عمل کو ویٹو کر دیا اور تحریک انصاف کی قیادت آج خود بھی اقرار کرتی ہے کہ وہ غلط ہو گیا تھا۔ اس طرح ایک دفعہ نہیں متعدد بار ہوا ہے کہ بات چیت ہوئی ہے اور پھر بانی تحریک انصاف نے سارے عمل کو مسترد کر دیا۔ اس لیے حکومت کے پاس ایسی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ تحریک انصاف کی کمیٹی جو مذاکرات کرے گی وہ بعد میں بانی تحریک انصاف قبول کر لیں گے۔ میری رائے میں مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ فائنل کال کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف اس وقت مزید احتجاجی سیاست کی طاقت نہیں رکھتی۔ اسے اندازہ ہے کہ 26نومبر کے بعد لوگوں کو سڑکوں پر لانا آسان نہیں۔ اس لیے اب جب احتجاج نہیں کرنا تو تھوڑے دن مذاکرات کھیل لیتے ہیں۔ جب احتجاجی سیاست کی طاقت دوبارہ حاصل ہو جائے گی۔ ماحول احتجاجی سیاست کے لیے سازگار ہو جائے گا تو پھر احتجاجی سیاست شروع کر دی جائے گی ۔ ابھی ماحول کو ٹھنڈا کرنا ہے، کارکن دوبارہ جمع کرنے ہیں۔ اس لیے مذاکرات ایک اچھا بہانہ ہے۔
ویسے بھی مذاکرات کے لیے جو مطالبات رکھے گئے ہیں ان پر تو حکومت بات نہیں کرے گی۔ نو مئی پر جیوڈیشل کمیشن کا مطالبہ تو پاک فوج بھی کافی دفعہ مسترد کر چکی ہے۔ اب تو فوج کو نو مئی کے ملزمان کو ملٹری کورٹ سے سزائیں سنانے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ ایسے میں اب جیوڈیشل کمیشن کا کوئی جواز نہیں۔ پھر 26نومبر پر بھی جیوڈیشل کمیشن کا کوئی امکان نہیں۔ حکو مت اگر یہ مطالبات مان لے تو اس کے اسٹبلشمنٹ سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
اس لیے کیوں حکومت تحریک انصاف کی اسٹبلشمنٹ مخالف مہم کا حصہ بنے گی۔اس لیے ان دونوں مطالبات پر تو بات ہی نہیں ہو سکتی۔ حکومت کا موقف ہے کہ 26نومبر کو گولی تحریک انصاف نے چلائی۔ ڈی چوک آنا غیر قانونی تھا۔ جب سنگجانی کی جگہ دی جا رہی تھی تو ڈی چوک جانے کا اصرار غلط تھا۔ خیر اب تو تحریک انصاف بھی مان رہی ہے کہ ان سے غلطی ہو گئی کہ وہ ڈی چوک گئے۔پھر جب آپ مان گئے کہ آپ سے غلطی ہوئی تو جیوڈیشل کمیشن کا کیا مطالبہ ہے۔
اس لیے مجھے مذاکرات ممکن نظر نہیں آرہے۔ مذاکرات ان مطالبات پر نہیں ہو سکتے۔ مذاکرات چارٹر آف اکانومی پر ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات نئے چارٹر آف سیاست پر ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات ملک میں ایک نئے سیاسی نظام پر ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات جیو اور جینے دو پر ہوسکتے ہیں۔ مذاکرات سیاسی عمل کی مضبوطی پر ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات گالم گلوچ کی سیاست ختم کرنے پر ہو سکتے ہیں۔ لیکن ابھی اسٹبلشمنٹ کے خلاف کوئی محاذ بنانے پر نہیں ہو سکتے۔ عدالتی ریفارمز پر ہو سکتے ہیں۔ لیکن عدالتوں کے سر پر سیاست کرنے پر نہیں ہو سکتے۔ لیکن شاید تحریک انصاف کو ان میں سے ایک ایجنڈا بھی قبول نہیں۔ اور تحریک انصاف کا ایجنڈا دوسروں کو قبول نہیں۔ یہی حقیقت ہے۔