شاکھا ہاری اور ماسا ہاری کا اردو مفہوم ہے، سبزی خور اورگوشت خور، انگریزی میں اسے ویجی ٹیرین اورنان ویجی ٹیرین کہاجاتا ہے ، مسلمان چونکہ گوشت خور ہیں اس لیے یہاں پاکستان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن پڑوسی ملک بھارت میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے ،ہوٹلوں ریلوں ،لمبے روٹ کی بسوں جہاں کھانا پینا بھی ٹکٹ میں شامل ہوتا ہے یاہوائی جہازوں وغیرہ میں یہ مسئلہ نہایت اہم ہوتا ہے کیوں کہ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ سارے ہندو گوشت نہیں کھاتے بلکہ ہندو ویجی ٹیرین کم اورنان ویجی ٹیرین زیادہ بلکہ کچھ تو صرف منگل کے دن گوشت نہیں کھاتے باقی دنوں میں خوب اڑاتے ہیں ۔
میں دلی سے بمبئی کے لیے راجدہانی ایکسپریس میں بیٹھا تو گاڑی کے روانہ ہوتے ہی ویٹر ٹائپ کے لوگ سواریوں سے ویج ۔ نان ویج پوچھ کر نوٹ کرنے لگے ، میں نے تو نان ویج کہہ دیالیکن میرے ساتھ والے دوسرے مسافر نے بھی جب نن کہا ، ابھی تک تعارف نہیں ہوا تھا اس لیے میں سمجھا مسلمان ہوگا، میں نے پوچھا آپ مسلمان ہے بولا نہیں پھر پوچھا عیسائی ؟ بولا نہیں ، سکھ؟ پھربولا نہیں بلکہ ہندو ہوں۔
پوچھا پھر یہ نن؟ بولا ہم ساؤتھ کے لوگ نان ویج ہوتے ہیں وہ ساوتھ میں تری وندرم کا تامل تھا اوربھارت میں ساؤتھ کے لوگوں کی آبادی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وہاں سب سے زیادہ کثیرالاشاعت اخبار تامل زبان کا ہے ، تامل وہ لوگ ہیں جنھیں ’’ داوڑ ‘‘ کہا جاتا ہے لیکن آج کل یہ اپنے کو تامل کہتے ہیں اورساوتھ میں صرف تامل ہی نہیں ،کول منگول ، بومیجی ، کیرا اور بہت ساری اوربھی نسلیں ہیں۔
دلی میں میرا قیام قرول باغ کے گردوارہ روڈ کے ایک ہوٹل میں تھا ،ہوٹل کے سامنے ایک بڑا سکھوں کا گردوارہ تھا جہاں بڑا لذیذ حلوہ (کڑاہ پرشاد) بنتا تھا، ہمارے ہوٹل کا مینجر کبھی کبھی کڑاہ پرشاد لاکر ہم کو بھی کھلاتا تھا دیسی گھی کا ترتراتا کڑاہ پرشاد بڑے مزے کاہوتا تھا۔اس روڈ پر گردوارے کی وجہ سے سکھوں کی اکثر دکانیں ہیں ویسے بھی قرول باغ سکھ اکثریت کا علاقہ ہے۔
اس روڈ پر کونے کی ایک بڑی دو دروازوں والی دکان تھی، گنیش ریستوران لیکن ریستوران صرف نام کا ہے دکان میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے صرف بڑی بڑی کڑاہیوں میں مرغ وماہی تلے جاتے ہیں ،لوگ آتے ہیں، مرغ وماہی پیک کرواتے ہیں اوردونوں سڑکوں کے کنارے کنارے کھڑی گاڑیوں میں جاکر فیملی اوردوستوں کے ساتھ اڑاتے ہیں ، میرے اندازے کے مطابق شام کے وقت یہاں کم سے کم دوتین سوگاڑیاں اسی شغل میں مصروف ہوتی ہیں ۔
یہ گوشت خوری کا مسئلہ بہت بعد میں ہندو دھرم کا حصہ بنا ہے وہ بھی جزوی طورپر ، اصل میں یہ جغرافیائی مسئلہ تھااوراس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ انسانی کے کچھ اوراق پلٹنا ہوں گے ،انسان نے جب پہلی بارحیوان سے انسان کے زمرے میں قدم رکھا تو حیوانوں کی ہی طرح اس کی تمام توجہ اورسرگرمیوں کامرکز ومحور ’’پیٹ‘‘ تھا اوراس وقت آبادی کم اورخوراک زیادہ ہونے کی وجہ سے دنیا جنت کانمونہ تھی ، ایک پھلوں پھولوں اورخوراک سے بھرا ہوا باغ۔چنانچہ پیٹ کا مسئلہ نہیں ،انسان جہاں سے چاہتا ہاتھ بڑھا کر کھا لیتا تھا اوراس وقت انسان گوشت خور بالکل نہیں تھا کیوں کہ انسانی ارتقائی منازل کاجب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے اجداد میں کوئی بھی نوع گوشت خور نہیں تھا اس کے اولین اجداد وہ شجر نشین کمزور جانور تھے جو بڑے بڑے گرانڈیل جانوروں کے دور میں جان بچانے کے لیے درختوں میں پناہ لینے لگے ،اگر وہ درندے ہوتے تو درختوں میں پناہ نہ لیتے۔
یہ قصہ بڑا طویل ہے کہ اس شجر نشینی کے دور میں ان کو ذہن اورزبان جیسی قوتیں مل گئیں ، درختوں پر چڑھنے اترنے میں ان کے بال جھڑ گئے ، اگلے پیر ہاتھوں میں اورپنجے انگلیوں میں بدل گئے ایک دوسرے کو آوازیںدینے کی وجہ سے ’’نطق‘‘مل گئی، مطلب یہ کہ اس کے جتنے بھی اجداد تھے گوشت خور نہیں تھے لیکن انسان بننے کے بعد ان میں ایک شاخ گوشت خور بنی تواس کے پیچھے بھی ایک وجہ تھی ۔کچھ وادیوں میں جب گھنے جنگلوں میں آسمانی بجلی یارگڑ سے آگ لگتی تو سارے درخت اورخوراک جل جاتی تھی لیکن بھوک تو ایک مستقل حقیقت ہے چنانچہ مجبوراً وہ اس آگ میں سوختہ اورنیم سوختہ حیوانی اجسام کو کھانے پر مجبور ہوگئے اورجب زبان پر لگا نمکین گوشت کا چسکہ تو پھر یہ لت نہ چھوٹ سکی اوران میں شاکھاری اورماسا ہاری دو گروہ بن گئے۔
گوشت خور پہلے شکاری پھرجانورپال بن گئے اورسبزی خوروں نے زراعت شروع کی اس طرح انسان کاپیٹ بھرنے کے دو ذریعے یاطریقے یا وسیلے رائج ہوئے، زمین اور جانور،زمین سے اپناپیٹ بھرنے والے زراعت کاروں کو فصل کے انتظار میں رکنا اورٹکنا ضروری ہوتا ہے چنانچہ بستیاں بسانے لگے جو تمدن کی ابتداء تھی لیکن جانورپالوں کو جانورچرانے کے لیے ہمیشہ حرکت میں رہنا پڑتا ہے۔
اس لیے وہ صحرائی خانہ بدوش بننے پر مجبور تھے اسی طرح دونوں گروہوں کے الگ مسائل اورضرورتوں کے لیے الگ الگ طرز زندگی اختیار کرناپڑی ، اب عقائد ونظریات کی بات کی جائے تو زراعت کاروں کاسب کچھ زمین سے وابستہ تھا تو ان کانظریہ ’’زمین ماں‘‘ اپر تیوی ماتیرس کا ہوگیا اورجانور پالوں کاسب کچھ آسمان سے وابستہ تھا، بارش سے گھاس اگتی تھی سورج برف کو پگھلا کر ہریالی پیدا کرتاتھا ،چاند ستاروں سے سفر کے راستے اوراوقات متعین کیے جاتے تھے اس لیے ان کانظریہ آسمان باپ( دیاوس پترس) کا بن گیا۔
(جاری ہے)