کراچی کی سڑکوں پر خون

اس شہر میں ٹریفک کے حادثات کی ایک بڑی وجہ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور تجاوزات کی بھرمار ہے۔



کراچی میں ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ اعلیٰ حکام سمیت ہر باشعور شخص کو سوچنے کی دعوت دے رہا ہے۔ محکمہ ٹریفک پولیس کی تیارکردہ رپورٹ کے مطابق امسال 480 افراد ٹریفک حادثات میں زندگی کی بازی ہارے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹریفک کے مختلف حادثات میں ہلاک ہونے والوں میں 57 فیصد موٹرسائیکل سوار ہیں۔

کراچی پولیس کے سربراہ جاوید عالم اوڈھو نے ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز چیمہ کے ہمراہ صحافیوں کے ساتھ کراچی میں ٹریفک کی صورتحال، حادثات میں ہونے والی اموات اور حادثات کی وجوہات اور شہر بھر میں ٹریفک کے نظام کو بحال رکھنے میں اپنے محکمے کی کارکردگی بیان کی۔ وہ کہتے ہیں کہ آدھے حادثات کراچی کی بندرگاہ کے علاقے کیماڑی میں ہوئے۔

پولیس ڈیپارٹمنٹ کی مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 50فیصد حادثات کی وجہ ہیوی ڈمپرز، ٹینکرز، منی بسیں، ہیوی ٹرالر اور دیگر ہیوی ویکلز شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ دو ڈھائی مہینوں کے دوران ٹریفک حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، اس عرصے میں 250 کے قریب حادثات ہوئے۔

کراچی پولیس کے سربراہ نے اچانک ٹریفک حادثات بڑھنے کی وجوہات کے بارے میں خیال آرائی کی اور یہ بیانیہ اختیار کیا ہے کہ گزشتہ دو مہینوں سے شہر میں تعمیراتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور انھوں نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ اب ہیوی ٹریفک قانون کو نظرانداز کرتے ہوئے دن کے وقت میں گنجان شاہراہوں اور ٹریفک جام ہونے والی شاہراہوں پر دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔

انھوں نے پولیس کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں 7ہزار ڈرائیوروں کو گرفتار کیا اور سنگین حادثات کی ذمے دار 350 گاڑیوں کو ضبط کر لیا گیا۔

پولیس کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب پولیس نے یہ حکمت عملی اختیار کی ہے کہ حادثات کے ذمے دار ڈرائیورکی تھانے میں ضمانت قبول نہیں ہوتی بلکہ متعلقہ ڈرائیورکو عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس رپورٹ میں شہر کے مختلف اضلاع کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈمپرز کو دن کے اوقات میں شہر میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

کراچی میں ایک زمانے میں ملک کا سب سے منظم ٹریفک کا نظام موجود تھا۔ اس وقت ٹریفک پولیس ڈرائیورکو لائسنس جاری کرتے ہوئے اپنے قواعد و ضوابط پر مکمل عملدرآمد کرتی تھی۔ بغیر لائسنس کوئی ڈرائیورگاڑی نہیں چلا سکتا تھا۔ سگنل کے اصول کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔

90ء کی دہائی تک موٹر سائیکل، رکشہ،کار اور بس ڈرائیورکے لیے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا، اگرکوئی تیز رفتار ڈرائیور سگنل توڑے تو ٹریفک پولیس کے تیز رفتار موٹر سائیکل سوار اس کو فورا دبوچ لیتے۔ اس طرح گاڑی حتیٰ کہ سائیکل سوار بھی ون وے کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے۔

 نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی۔ ایم کیو ایم کے ناظم مصطفیٰ کمال نے سگنل فری کوریڈورکا تصور نافذ کیا، یوں بہت سی شاہراہوں پر سگنل ختم ہوئے۔ اس کا موٹر سائیکل اورکار والوں کو بہت فائدہ ہوا مگر عام آدمی کی مشکلات بڑھ گئیں۔ بلدیہ کراچی نے پیدل چلنے والوں کے لیے اوور ہیڈ برج تعمیرکیے مگر ان کی تعداد کم رہی۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے لیے برج بے کار ثابت ہوئے، یوں سڑک پار کرنے والے سڑک پار کرتے ہوئے تیز رفتار گاڑیوں کا نشانہ بننے لگے۔

اس کے ساتھ ون وے کی خلاف ورزی کی روایت شروع ہوئی۔ بلدیہ نے کیونکہ بڑی سڑکوں پر u ٹرن ختم کردیے تھے اور بہت دور سے u ٹرن کرنا پڑتا ہے، لہٰذا موٹرسائیکل، کار، ٹرک اور بسوں والے ون وے کے قانون کو توڑنے لگے۔ یہ صورتحال اتنی زیادہ بگڑی کہ ٹریفک پولیس کے سپاہی بھی اس قانون کو بھول گئے۔

اب ٹریفک سگنل سب سے زیادہ خطرناک جگہ بن گئی ہے۔ موٹر سائیکل سواروں نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ موٹر سائیکل والے نہ تو u ٹرن کو خاطر میں لاتے ہیں، نہ ہی سگنلز پر رکنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ بقول ایک صحافی اب کراچی میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ ٹریفک سگنل کا مقام بن گیا۔ ایک سروے کے مطابق 70فیصد موٹر سائیکل کے پیچھے لائٹ موجود نہیں ہوتی اور موٹر سائیکل سوار بیک مرر لگانے کو پسند نہیں کرتے۔ پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہ ہونے کی بناء پر موٹر سائیکل بہترین سواری بن گئی ہے۔

اب دو افراد کے لیے تیار ہونے والی موٹرسائیکل پر تین، چار یا بعض اوقات پانچ افراد کا سفرکرنا معمول بن گیا ہے۔ غریب آدمی کے لیے پورے کنبے کو اس موٹر سائیکل کے ذریعے اپنے رشتے داروں کے پاس لے جانے کے علاوہ کوئی اور سستا ذریعہ نہیں ہے۔ موٹر سائیکل سوار اپنی بیوی، دو سے تین بچوں کو بٹھا کر تیز رفتاری سے سگنلز توڑتے ہوئے گزر تے ہیں تو دیکھنے والوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ کراچی میں گزشتہ روز ایک موٹر سائیکل کی ٹکر سے ماں کے ہاتھ سے معصوم بچہ سڑک پرگرا اور اسے ٹرالر نے کچل دیا۔

اس شہر میں ٹریفک کے حادثات کی ایک بڑی وجہ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور تجاوزات کی بھرمار ہے۔کیماڑی میں اپنی پیدائش کے بعد سے آباد ہونے والے 78 سالہ پروفیسر سعید عثمانی کیماڑی زون میں زیادہ حادثات کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہ جب کراچی کی بندرگاہ تعمیر ہوئی تھی تو اس وقت تانگے، اونٹ گاڑیاں اورگدھا گاڑیاں چلا کرتی تھیں، پھر چھوٹے ٹرک چلنے لگے۔

انگریز سرکار نے بندرگاہ جانے والی سڑکوں کی منصوبہ بندی اسی ٹریفک کو مدنظر رکھتے ہوئے کی تھی، مگر جب چین کی مدد سے کراچی پورٹ میں ایک نئی بندرگاہ تعمیر ہوئی تو اب کنٹینرز کا زمانہ شروع ہوا۔ جہازوں سے سامان اتارنے کے لیے ٹرالر استعمال ہونے لگے، مگر نئی سڑکیں تعمیر نہیں ہوئیں۔ اب کراچی کی بندرگاہ سے ٹرک اڈہ تک سیکڑوں ٹرک، بسوں،کاروں اور موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہوتی ہے اور یہاں روزکئی حادثات ہوتے ہیں۔

 گزشتہ تین برسوں سے ملیرکینٹ سے نمائش ریڈ لائن کی تعمیر ہو رہی ہے۔ اس ریڈ لائن کی تعمیرکے لیے متبادل راستے نہیں بنائے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی روڈ پر روزکوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا ہے اور دن کے اوقات کے علاوہ رات گئے بھی ٹریفک جام رہتا ہے۔ ٹریفک پولیس کی نااہلی کی بناء پر ہزاروں ایسے افراد گاڑیاں چلاتے ہیں جن کے پاس باقاعدہ لائسنس نہیں ہے۔ چند سال قبل جب ایک ڈی آئی جی ٹریفک نے لائسنس نہ رکھنے والے ڈرائیوروں کے خلاف مہم شروع کی تھی تو شہر میں ایک نیا بحران پیدا ہوگیا تھا اور حکومت پر اتنا دباؤ بڑھا تھا کہ محکمہ پولیس کو یہ حکم واپس لینا پڑا۔

 اب اخبارات میں ہیوی ٹرالرکار پرگرنے کی ہولناک خبریں شایع ہوتی ہیں۔ ان حادثات میں کئی مظلوم جاں بحق ہوتے ہیں۔ ٹریفک ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرالر پر لدے ہوئے کنٹینرکو اسکرو سے ٹائٹ نہیں کیا جاتا اس بناء پر وہ گرتا ہے۔ شہرکی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں حادثات میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں ٹریفک پولیس کلوزڈورکیمروں سے ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیوروں کا چالان کرتی ہے۔ یہ ڈرائیورکسی صورت کچھ دے کر بچ نہیں پاتے، یہی وجہ ہے کہ ان شہروں میں ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزیاں کم ہوتی ہیں۔

 کراچی ایک جدید شہر ہے، اگراس شہر کو جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے منظم کیا جائے تو پھرسڑکوں پر خون بہنے کا سلسلہ رک سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔