اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پی ٹی آئی کے حکومت کے ساتھ مجوزہ مذاکرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج پر ایکشن لینے والی حکومت سے مذاکرات کیوں ہوں۔
ذرایع کے مطابق پی ٹی آئی میں بھی مذاکراتی کمیٹی کے سوا دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو حکومت سے مذاکرات پر اعتراضات ہیں۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ حکومت جب خود راضی ہوگی تو مذاکرات کریں گے اور اگر مذاق اڑایا گیا تو کوئی ڈائیلاگ نہیں ہوں گے۔
اپوزیشن اتحاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ مائنس بانی پی ٹی آئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ مذاکرات ہماری مجبوری ہیں ایسا نہیں ہے اور مذاکرات 26نومبر کے واقعہ پر عدالتی کمیشن بنانے اور دیگر مطالبات تسلیم کرانے کے لیے ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ مصافحے کے وقت دوسرے کے ہاتھ میں تلوار ہو۔ پی ٹی آئی سول نافرمانی کی بات کرے یا مذاکرات کی مگر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے لیے رعایتیں حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کرنا چاہ رہی ہو۔
وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات کا پیغام بھیجے تو حکومت کی طرف سے انکار نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ فیض حمید پر فرد جرم لگنے کے بعد وہ ہاتھ ملانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ مذاکرات کرنے والوں کے رویے ایسے نہیں ہوتے جس کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما رؤف حسن نے کہا کہ حکومت کے اندر سے متضاد آوازیں آ رہی ہیں جس کی وجہ سے ممکن ہے بات آگے نہ بڑھے۔
سب کو پتا ہے کہ خان نے مذاکراتی کمیٹی بنا دی ہے جس کا مقصد حکومت سے مذاکرات کرنا ہے۔ جاوید لطیف کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذاکرات شرائط پر نہیں ہوتے۔ ادھر پی ٹی آئی نے ڈی چوک واقعہ پر وزیر اعظم شہباز شریف و دیگر کے خلاف کارروائی کے لیے سینئر سول جج کی عدالت میں استغاثہ بھی دائر کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی حکومتی عہدیداروں پر استغاثہ دائر کر کے بالاتروں سے ہی مذاکرات کی خواہش مند ہے۔ محمود خان اچکزئی کے بیان سے بھی یہی لگتا ہے کہ مذاکرات حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ بالاتروں کے ساتھ ہونے چاہئیں اور اس لیے پی ٹی آئی نے استغاثہ میں صرف حکومت کے عہدیداروں کو فریق بنایا ہے اور وہ اب بالاتروں سے تعلقات مزید بگاڑنا نہیں چاہتی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نو دس مئی اور 26 نومبر کو جو کچھ پی ٹی آئی نے کیا اس کے بعد مذاکرات کیسے؟ بانی پی ٹی آئی اور اہلیہ سمیت دوسرے رہنما اب 3 رینجرز اور ایک سپاہی کی شہادت میں ملوث کیے جا چکے ہیں اور وہ دباؤ میں ہیں مگر حکومت کے ساتھ مشروط مذاکرات چاہتے ہیں ایسا ممکن نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کی ٹیبل پر ہی نکلتا ہے وہ خواہ ملکوں میں جنگ ہو یا حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی یا قبائلی جھگڑے۔
حکومت ملک کی معاشی صورت حال بہتر بنانے اور پی ٹی آئی مزید بگاڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور دونوں طرف سے ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ مذاکرات نہ ہوں۔ مذاکرات نہ ہونے سے حکومت پیچھے نہیں ہٹ رہی اور پی ٹی آئی کے بانی و دیگر پر مسلسل نئے مقدمات بنا رہی ہے جب کہ مذاکرات سے پہلے ماحول بہتر بنانا، کشیدگی ختم کرکے سچی لگن کے ساتھ ایک دوسرے کی اہمیت تسلیم کر کے کسی پیشگی شرط کے بغیر ہاتھ ملانا اور آپس میں خوش دلی سے دونوں کو ایک ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے مگر لگتا ہے کہ (ن) لیگ کے رہنماؤں کی طرح پی ٹی آئی کے رہنما اور محمود خان اچکزئی جیسے ان کے حامی بھی حکومت سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں اور اپنے بیانات سے مجوزہ مذاکرات سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما عون عباس نے بیان دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے اعلان پر حکومت غیر ملکی مہمان بلوا لیتی ہے۔ سینیٹر کے عہدے پر فائز جس شخص کو یہ بھی نہیں پتا کہ غیر ملکی مہمانوں خصوصاً سربراہوں کے دورے اچانک یا مہمان حکومت کے طلب کرنے پر نہیں آتے بلکہ کافی عرصہ پہلے سے طے ہوتے ہیں،کیونکہ معاملات طے اور دورے کے انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔
مذکورہ دورے سے ملکوں میں مختلف معاہدے کیے جاتے ہیں، پی ٹی آئی پر حکومت کے یہ الزامات درست ہیں کہ جب بھی کوئی غیر ملکی سربراہی دورے پر پاکستان آتا ہے تو پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات بڑھانے کے لیے اسلام آباد پر یلغار کے لیے احتجاج کا اعلان کر دیتی ہے تاکہ دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو اور پاکستان کے بیرون ممالک تعلقات بہتر اور معاہدے نہ ہوں۔
جب پی ٹی آئی اہم موقعوں پر اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کرتی ہے وہ ہمیشہ انتشار اور بدامنی کا باعث بنتا ہے جس کا ریکارڈ موجود ہے اور محمود خان اچکزئی کے حکومت اور پی ٹی آئی کے مجوزہ مذاکرات پر اعتراض سے تو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اسلام آباد میں جب چاہے آ کر احتجاج کرے اور حکومت تماشا دیکھتی رہے اور اسلام آباد کو جلنے کے لیے چھوڑ دے اور احتجاج نہ روکے۔