تیس سالہ رضوان جلتے کوئلوں پر پکا گوشت کھانے کا شوقین تھا۔ کبھی وہ گھر میں کوئلے لا کر چکن روسٹ کرتا یا بیف کباب پکاتا۔ خود پکانے کا موڈ نہ ہوتا، تو بہن سے پکوا لیتا یا پھر بازار سے لے آتا۔
اِس چلن کی مگر رضوان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ہوا یہ کہ ایک دن رضوان آنتوں کے کینسر یا سرطان کا نشانہ بن گیا۔ جب اہلِ خانہ کو یہ بات معلوم ہوئی، تو وہ پریشان ہو کر رونے پیٹنے لگے۔ اْن کے گمان میں بھی نہ تھا کہ رضوان جیسا خوبرو نوجوان سرطان جیسے موذی مرض کا نشانہ بن جائے گاجس کا علاج نہایت کٹھن ہے۔
دورانِ علاج منکشف ہوا کہ کوئلوں پر بھونا گیا گوشت اْس کی حالتِ زار کا ذمے دار ہے۔ جدید طب یہ تلخ سچائی دریافت کر چکی کہ اگر کوئلوں یا لکڑیوں کی آگ یا بلند درجہ حرارت پر بھونا گیا گوشت مسلسل کھایا جائے، تو وہ ا انسان جلد یا بدیر کینسر کا شکار ہو جاتا ہے۔ اِسی لیے اب ڈاکٹر مشورہ دَیتے ہیں کہ خاص طور پہ کوئلوں پر سینکا اور بھونا گوشت کم سے کم کھایا جائے۔ نیز ایسے گوشت سے بھی پرہیز کیجیے جسے تیز آگ پر پکایا جائے۔
کون سی تبدیلی؟
سوال یہ ہے کہ کوئلوں یا تیز آگ پر گوشت بھوننے سے اْس میں ایسی کون سی منفی تبدیلی جنم لیتی ہے کہ وہ سرطان پیدا کرنے والے مادے میں ڈھل جاتا ہے؟ یہ جاننے کی خاطر ہمیں قدرتی طور پر پائے جانے والے کیمیائی مادوں نائٹریٹس (Nitrates) اور نائٹرائٹس (Nitrites) کو سمجھنا اور جاننا ہو گا۔
درج بالا دونوں کیمیائی مادے نائٹروجن اور آکسیجن گیسوںکے ملاپ سے بنتے ہیں۔ نائٹریٹس، نائٹروجن کے ایک اور آکسیجن کے تین ایٹموں سے وجود میں آتے ہیں۔ نائٹرائٹس، ایک نائٹروجن ایٹم اور دو آکسیجن ایٹموں سے تشکیل پاتے ہیں۔ یہ دونوں عناصر کرہ ارض پر زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ وجہ یہ کہ انسان اور تمام حیوانیات کے ڈی این اے اِسی نائٹروجن سے بنتے ہیں۔ جبکہ آکسیجن بھی ہماری زندگی بحال رکھتی ہے۔
نائٹروجن و آکسیجن پر مشتمل یہ کیمیائی مادے یعنی نائٹریٹس اور نائٹرائٹس سبھی پودوں کی افزائش کے لیے لازم ہیں۔ اگر پودوں کو یہ کیمیائی مادے نہ ملیں، تو وہ نشوونما حاصل نہیں کر پاتے اور مرجھا جاتے ہیں۔ تاہم پودوں کو یہ کیمیائی مادے حد سے زیادہ دَستیاب ہوں، تب بھی پودے تباہ ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ نہایت ضروری ہے کہ یہ کیمیائی مادے اعتدال کی مقدار سے پودوں کو میسّر آئیں۔
نائٹروجن اور آکسیجن سے بنے یہ کیمیائی مادے قدرتی مٹی، پانی حتیٰ کہ ہوا میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کارخانوں میں نائٹرک ایسڈ کے ذریعے یہ کیمیائی مادے مصنوعی طور پر بنتے ہیں۔ وجہ یہ کہ اِن مادوں کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امونیم، سوڈیم، پوٹاشیم، کیلشیم اور میگنیشیم نائٹریٹ وہ نائٹریٹس ہیں جو کھاد میں ملائے جاتے ہیں۔ اْن کے ذریعے کھاد زیادہ زرخیز ہو جاتی ہے۔ یوں فصل کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے۔
نائٹریٹس اور نائٹرائٹس بعض سبزیوں میں بھی ملتے ہیں۔ اْن میں چقندر، اجوائن (Celery)، سلاد پتہ (Lettuce)، مولی اور پالک شامل ہیں۔ کچھ مقدار پنیر، بڑے گوشت، چکن اور مچھلی میں بھی ملتی ہے۔
گولہ بارود میں بھی بطور تکسیدی ایجنٹ (agents Oxidizing ) نائٹریٹس مستعمل ہیں۔ دل کی تکالیف دور کرنے والی ادویہ میں بھی اْنھیں استعمال کیا جاتا ہے۔ غرض صورتِ حال سے واضح ہے کہ نائٹریٹس اور نائٹرائٹس انسان کی روزمرہ زندگی میں کافی اہمیت رکھتے اور اْس کے مختلف کام انجام دیتے ہیں۔
ماہرینِ طب نے سراغ لگایا ہے کہ نائٹریٹس کی موجودگی کے باعث ہی چقندر اِنسان میں خون کا دباو (بلڈ پریشر) کم کرتا ہے۔ مزید براں یہ سبزی ورزش کے مثبت اثرات دگنا کر دیتی ہے۔ انجائنا کے مریض میں بھی یہ قدرتی کیمیائی مادہ رَکھنے والی غذائیں کھانے سے افاقہ ہوتا ہے۔
کینسر پیدا کرنے کی خاصیت
آپ یقیناً سوچ رہے ہیں کہ جب یہ قدرتی کیمیائی مادے ہمیں بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں، تو ان میں کینسر پیدا کرنے والی خطرناک خاصیت کہاں سے ٹپک پڑی؟ دراصل ہمارے جسم میں داخل ہو کر نائٹریٹس میں تو کوئی تبدیلی جنم نہیں لیتی۔ یعنی ہمارے معدے میں موجود کیمیکل اْسے کچھ نہیں کہتے مگر نائٹرائٹس کی بات جدا ہے۔
نائٹرائٹس ہمارے بدن میں داخل ہو کر معدے میں پہنچیں، تو وہاں کا تیزابی ماحول اْنھیں ایک القلی کیمیائی مادے، نائٹروسامائن (Nitrosamine) میں بدل دیتا ہے۔ یہ تبدیلی مگر اْسی وقت ظہورپذیر ہوتی ہے جب ہمارے معدے میں امائنز (Amines) نامی کیمیائی مادہ موجود ہو۔ یہ مادہ پروٹین رکھنے والی غذاوں میں پایا جاتا ہے۔
جب ہم گوشت کو تیز آگ پر پکائیں یا پھر جیسا کہ اس کو کوئلوں میں بھونتے ہیں، تب اْس میں نائٹروسامائن پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ القلی کیمیائی مادہ زہریلے اثرات رکھتا ہے اور اِسی کے باعث انسانوں کی آنتوں اور معدے میں کینسر پیدا ہوتا ہے۔
کیٹ ایلن امریکا کی ممتاز ماہرِ غذائیات ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’نائٹریٹس اور نائٹرائٹس بذاتِ خود اِنسانی صحت کے لیے خطرناک کیمیکل نہیں۔ مگر جب اْن کی حامل غذاوں کو کوئلوں اور بلند آگ پر بھونا جائے، تو یہ بے ضرر قدرتی کیمیائی مادے خطرناک حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘
گوشت کوئلے پر بھوننے یا تیز آگ پر پکانے سے اْس میں دو اَور خطرناک کیمیائی مادے جنم لیتے ہیں۔ ایک کا نام ہے: ’’پولی سائیکلک ارومیٹک ہائیڈرو کاربن‘‘ (Polycyclic aromatic hydrocarbon) اور دْوسرا ’’ہیٹرو سائیکلک امائن‘‘ (Heterocyclic amine) کہلاتا ہے۔ یہ دونوں کیمیائی مادے بھی گوشت کو زہریلا بنا ڈالتے ہیں۔ اْس گوشت کو بھی کھا کر انسان میں کینسر پیدا ہو سکتا ہے۔
گویا گوشت کو کوئلے یا تیز آگ پر پکانے کا طریقہ بالکل غلط ہے۔ ایسا گوشت کبھی نہ کھائیے جسے کوئلے یا تیز آگ پر پکایا جائے۔ ایسے گوشت میں جنم لینے والے زہریلے کیمیائی مادے انسان میں کینسر سمیت مختلف عوارض پیدا کر سکتے ہیں۔اس قسم کا گوشت کئی ہوٹلوں میں تیار کیا جاتا ہے۔اس سے اجتناب لازم ہے۔ خاص طور پہ سفر کرتے ہوئے راہ میں آتے کسی ہوٹل سے کسی قسم کا گوشت کا نہ کھائیے کیونکہ عموماً انھیں کافی تیز آگ پر پکایا جاتا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، قدرتی حالت میں نائٹریٹس اور نائٹراٹس انسان کے لیے مفید کیمیکل ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے قلبی وعائی نظام (System Cardiovascular ) میں نائٹرک آکسائیڈ گیس پائی جاتی ہے۔ تین امریکی سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ یہ گیس ہمارے خون کی نالیاں کشادہ اَور خون کا دباوکم کرتی ہے۔ یہ ہمیں چھوت سے بھی بچاتی ہے۔ اِس دریافت پر 1998ء میں تینوں ماہرینِ طب کو نوبل انعام ملا تھا۔
انسانی جسم میں اگر نائٹرک آکسائیڈ کم ہو جائے، تو انسان دل کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اْسے ذیابیطس بھی چمٹ سکتا ہے اور وْہ تولیدی صلاحیت بھی کھو بیٹھتا ہے۔ ہمارا جسم ایک امائنو مادے، ارجنین کی مدد سے یہ قیمتی گیس بناتا ہے۔ لیکن حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ غذاوں میں شامل نائٹریٹس بھی نائٹرک آکسائیڈ گیس بنانے میں اہم حصّہ لیتے ہیں۔ یہ خصوصاً بوڑھے مردوزن کے لیے خوش خبری ہے کیونکہ بڑھاپے میں ارجنین کم ہی یہ گیس بنا پاتا ہے۔
امریکا اور یورپ میں خنزیر کے گوشت سے بنی مصنوعات میں نائٹریٹس شامل کیے جاتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ کیمیائی مادے جراثیم ختم کر کے اْن مصنوعات کو تادیر خراب نہ ہونے دیں۔ مگر اب وہاں ڈاکٹروں نے یہ مہم چلائی ہوئی ہے کہ کسی بھی گوشت کی مصنوعات میں نائٹریٹس شامل نہ کیے جائیں۔ وجہ یہی کہ تیز آگ میں پک کر یہ کیمیکل پھر زہریلے اجزا کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔
سبزیاں کھائیے
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر نائٹریٹس یا نائٹرائٹس کیمیکل سبزیوں میں موجود ہوں اور اْنھیں تیز آگ پر پکایا جائے، تو وہ زہریلی صورت اختیار نہیں کرتے۔ اِسی لیے ڈاکٹر مشورہ دَیتے ہیں کہ یہ دونوں قدرتی کیمیائی مادے سبزیاں کھا کر حاصل کیجیے۔ مقصد یہ ہے کہ دونوں کیمیکل ہمیں دل کے امراض سے محفوظ رکھیں۔ بعض ماہرینِ طب کا خیال ہے کہ یہ مادے انسانوں کو فالج (اسٹروک) کے حملے سے بھی بچاتے ہیں۔ جبکہ سبزیوں میں شامل یہ کیمیکل تیز آگ میں بھی پک کر کینسر پیدا نہیں کرتے۔
امریکی و یورپی محکمہ صحت کے مطابق ایک انسان کو سبزیوں سے روزانہ کم از کم 235 ملی گرام نائٹریٹس اور نائٹرائٹس حاصل کرنا چاہئیں۔ تاہم انسان زیادہ مقدار بھی کھا سکتا ہے۔ دورانِ تحقیق پتا چلا ہے کہ اگر انسان سبزیوں سے400ملی گرام یہ کیمیکل حاصل کر لے، تو اْس میں خون کا دباؤ یعنی بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔
یہ مگر یاد رَہے کہ انسان دن میں آٹھ نو ہزار ملی گرام یہ کیمیائی مادے غذاوں سے حاصل نہ کرے، تب یہ قدرتی مادے زہریلے بن کر اْسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا اِنھیں سبزیوں کے ذریعے اعتدال سے حاصل کیجیے اور کوشش کیجیے کہ کوئلے اور تیز آگ میں پکا گوشت بہت کم کھائیے۔ بہتر یہ ہے کہ اْسے استعمال ہی نہ کیا جائے۔n
٭٭٭