انسانی اسمگلنگ، روشن مستقبل کے جھوٹے خواب

یہ ایک سرگرم مافیا ہے جو پورے ملک اور ملک سے باہر سرگرم عمل ہے


ایڈیٹوریل December 20, 2024

وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ سے متعلق عوامی آگاہی کے لیے چلائی گئی مہم کی تفصیلات طلب کر لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے۔

دوسری جانب یونان کے قریب کشتیوں کے حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کی تعداد 40 ہوگئی جب کہ لیبیا میں ابھی بھی کم و بیش 5 ہزار پاکستانی موجود ہیں اور یورپ جانے کے خواہش مند یہ افراد مختلف پاکستانی ولیبیا کے ایجنٹوں کے پاس ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے اس قسم کے واقعات تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں، مگر ارباب اختیار اور حکومتی ادارے اس ضمن میں بالکل بے بس نظر آتے ہیں، دنیا بھر میں پاکستان ان حادثات کی وجہ سے خاصہ بدنام ہوگیا ہے۔ گزشتہ برس کے سانحے سے متعلق دو ڈائریکٹرز کی انکوائریاں اور سفارشات سرد خانے کی نذر ہوگئیں، سرکاری اہلکاروں اور انسانی اسمگلرز کا گٹھ جوڑ اب بھی جاری ہے۔سفاک انسانی اسمگلرز بلاتفریق سب کا استحصال کر رہے ہیں، وہ عورتوں، بچوں یا آدمی جو ہاتھ لگے اسے اپنے مقصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔

جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے سوئے ہوئے ادارے جاگ اٹھتے ہیں، کچھ گرفتاریاں ہوتی ہیں کچھ ایف آئی آر درج ہوتی ہیں پھر آہستہ آہستہ معاملات دبتے چلے جاتے ہیں اور ایجنٹ پھر وہی کام وہیں سے شروع کر دیتے ہیں جہاں سے چھوڑا ہوتا ہے۔ پہلے کی طرح اس بار بھی مقدمات بنے ہیں لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں مگر لگتا یہی ہے کہ کچھ عرصہ بعد یہ بھی رہا ہو جائیں گے۔ کیس سرد خانوں کی نذر ہو جائیں گے اور پھر سے یہی کچھ ہونے لگے گا۔ کیونکہ مجرموں کے پاس مظلوموں سے لوٹا ہوا بہت سارا پیسہ ہے، اور ہمارے ہاں پیسے سے سب کچھ خریدا جا سکتا ہے، پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں کے ہزاروں نوجوان اس موت کے پھندے میں پھنس چکے ہیں۔

اگر مرنے والوں کی تعداد اور ان کے حدود اربعہ پر توجہ کی جائے تو اندازہ ہو گا کہ یہ ایک سرگرم مافیا ہے جو پورے ملک اور ملک سے باہر سرگرم عمل ہے، اور لوگوں کے مال لوٹ کر ان کی جان بھی لے رہا ہے کیوں کہ جس طریقے سے وہ یورپ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اس میں بہت کم امکانات زندہ بچنے کے ہوتے ہیں۔ زمین کے راستے جانے والوں کو عموماً بارڈر فورس گولی مار دیتی ہے اور سمندر کے راستے جانے والے پانی میں غرق ہو کر مارے جاتے ہیں۔

 اس علاقے کا سمندر انتہائی گہرا ہے اور کسی غیر تربیت یافتہ کا بچ نکلنا ممکن نہیں ہے۔اس کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان تارک وطن لوگوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو پہلے ہی مفلوک الحال ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کی آخری پونجی جیسے گھر، زمین، زیور وغیرہ بیچ کر موت کے منہ میں جا رہے ہوتے ہیں، مگر ان کی حالت پرکسی کو بھی ترس نہیں آتا، بس ایک خبر ہوتی ہے جوکچھ دن میں اپنا اثر کھو دیتی ہے۔

 پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پرہمارے تجزیہ کار اور دانشور اکثر یہ منطق پیش کرتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کا معاشی مستقبل مخدوش ہے، اس لیے لاکھوں افراد وطن چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں، ان تجزیوں کے منفی اثرات ہمارے سامنے ہیں، چند نام نہاد دانشور اور تجزیہ کار اپنے مفادات کی خاطر قوم میں مایوسی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، اس منفی طرز عمل کا خاتمہ ضروری ہے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہی نوجوان پاکستان میں کوئی بھی اچھا ہنر باقاعدہ طور پر سیکھ کر اچھا و بہترین روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔

درحقیقت تارکین وطن کی اسمگلنگ تیزی سے ایک بڑا مجرمانہ کاروبار بنتا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کی کوششوں کو اس جرم کی بین الاقوامی نوعیت اور بہت سے ممالک میں موزوں قوانین کے فقدان کے سبب مسائل کا سامنا ہے۔ اس انسانی المیے کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان مظلوم انسانوں کو اسمگل کرنے کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ حالات اور غیر انسانی سلوک سے گزارا جاتا ہے، زمینی سفرکے پہلے مرحلے کے دوران سفاکی کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ کھلی گاڑیوں میں جانوروں کی طرح لاد کر لے جایا جاتا ہے، تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی گر جاتا ہے تو اسے وہیں بے یار و مددگار اسی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

 اب اگر کوئی زخمی ہے تو بھی کوئی مدد نہیں کی جاتی، دوسرے مرحلے میں جب یورپ میں داخل ہونے والے ہوتے ہیں تو سمندر کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور وہاں بھی یہی طریقہ جاری رہتا ہے۔ سمندر میں ان بے بس انسانوں کو اسمگل کرنے کے لیے پرانی ماہی گیری کی کشتیاں استعمال کی جاتی ہیں جو عموماً بہت ہی خراب حالت میں ہوتی ہیں، یہاں بھی انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کشتی پر لاد دیا جاتا ہے، اور ایسے حالات میں سفر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو شاید لوگ اپنے جانوروں کے لیے بھی استعمال کرنا پسند نہ کریں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اب اگر کشتی خراب ہو جائے تو جان بچنے کے امکانات صفر کے برابر رہ جاتے ہیں، اگر کوسٹ گارڈ پکڑ لیں یا حملہ کر دیں تو بھی جان خطرے میں ہوتی ہے، لاکھوں روپے لے کر بھی ان تارک وطن لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ عموماً بے بسی کی موت ہی ہوتا ہے۔

جس کی خبریں گاہے گاہے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا سے ملتی رہتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انسانی اسمگلر خود قانونی طور پر سفر کرتے ہیں جب کہ پاک ایران سرحد پر آباد مقامیوں کی مدد سے ان تارکینِ وطن کو سرحد پار کرواتے ہیں جن میں کچھ لوگ حادثات، سخت موسمی حالات اور کچھ سرحدی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری رہتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی شہریوں کی کتنی بڑی تعداد روزگار کے مواقع ڈھونڈنے کے لیے غیر قانونی ہجرت کی جانب راغب ہو رہی ہے۔

اس سفر کو عام طور پر ’’ ڈنکی مارنا‘‘ کہتے ہیں جس میں سفر کی مشکلات کے ساتھ ساتھ کچھ تارکینِ وطن کو جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے اغوا برائے تاوان کے عذاب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ گو ایف آئی اے نے متعدد انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرکے سزا دلوائی ہے لیکن چونکہ یہ کالا دھندا بین الاقوامی سطح پر کیا جاتا ہے اس لیے ان جرائم پر قابو پانا آسان نہیں۔ایک جانب پاکستان دہشت گردی اور غیر قانونی نقل و حمل کو روکنے کی غرض سے ایران اور افغانستان سے متصل اپنی سرحدوں پر تیزی سے باڑ لگا رہا ہے، وہیں دوسری جانب ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ بہت سے شہری بہتر مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے غیرقانونی طور پر سرحد پار جا رہے ہیں۔

930 کلومیٹر طویل ایرانی سرحد کو غیرقانونی ہجرت کا گیٹ وے تصور کیا جاتا ہے۔ اس سرحد سے بلوچستان کے 5 اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر متصل ہیں جہاں شہروں سے باہر ریاست کی موجودگی کی محدود نشانیوں کے طور پر چند چیک پوسٹس اور ایک ہی سیدھ میں بچھی ٹوٹی پھوٹی پکی سڑکیں نظر آتی ہیں۔ ان علاقوں میں اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش اسمگلنگ کے مختلف ذرائع سے وابستگی ہے۔ انھیں قانونی اور باعزت روزگار دینے کے لیے آج تک سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ انسانی اسمگلنگ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا میں کئی ممالک کے لیے ایک حل طلب مسئلہ ہے۔

دفترِ اقوامِ متحدہ برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے مطابق افراد کی اسمگلنگ ایک سنگین جرم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ دنیا کا ہر ملک ہی انسانی اسمگلنگ سے جڑے مختلف مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ گزشتہ 15 سال میں انسانی اسمگلرز کے ہتھے چڑھنے والے ان متاثرین میں بچوں کی تعداد میں 3 گنا جب کہ لڑکوں کی تعداد میں 5 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔پاکستان نے اس مسئلے کی سنگینی کے پیشِ نظر 2018 ہی میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے 2 نئے قوانین متعارف کروائے، جن میں سے ایک انسدادِ مہاجرین ایکٹ 2018اور دوسرا انسدادِ انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 ہے۔

ان 2 قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، امیگریشن آرڈیننس 1979، فارینرز ایکٹ 1946، انسدادِ انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔ ان قوانین کی روشنی میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید تک کی سزائیں سنائی جاسکتی ہیں، جب کہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لیے ’’اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل‘‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے جو ادارے کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے لیکن ہنوز اس مکروہ دھندے کا جاری رہنا حکام سے مزید توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔حکومت کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات کا نہ ہونا، ان جرائم کے پروان چڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے، دوسرا ان مجرموں کو قرار واقعی سزاؤں کا نہ دیا جانا بھی اس قسم کے بدترین جرائم کے پنپنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری سطح پر اور غیر سرکاری طور پر عام لوگوں میں اس معاملے کی سنگینی کے متعلق آگہی پیدا کی جائے، انھیں سمجھایا جائے کہ یہ خالص نقصان کا سودا ہے، ساتھ ساتھ ایسی قانون سازی کی جائے جو اس مافیا کی بیخ کنی میں معاون ثابت ہو۔ ایسی سزائیں دی جائیں کہ لوگ عبرت پکڑیں، ورنہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور سادہ لوح اور کم تعلیم یافتہ لوگ اپنی جان و مال گنواتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں