پاکستان کا سیاسی ،جمہوری ، انتظامی ، ادارہ جاتی اور ریاستی نظام بنیادی طور پر جبر اور طاقت سمیت غیر جمہوری طرزعمل یا فکر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اس طرز کے نظام عمومی طور پر عارضی نظام کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیںاور اس کی نہ تو کوئی مستقل حیثیت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسے نظام داخلی سیاست میں اپنا ساکھ قائم کرتے ہیں۔
سیاسی اور جمہوری نظام کا استحکام بنیادی طور پر ایک مضبوط، مربوط، شفافیت سمیت عوامی شراکت اور عوامی مینڈیٹ سے جڑا ہوتا ہے ۔اس طرز کا نظام لوگوں کو سیاسی اور فکری آزادیاں ، بنیادی حقوق ،معاشی استحکام اور سیاسی و سماجی سمیت مذہبی سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے ۔
آج کی جدید دنیا میں جو سیاسی اور جمہوری نظام موجود ہیں وہ لوگوں کی ہی شراکت کے ساتھ قائم ہیں اور ایسے نظاموں میں عوامی مسائل اور ان کے حقوق کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا، پرکھا ، جانچا جاتا ہے یا اس پر یہ نظام عملدرآمد کرکے عوام میں اپنی حکمرانی کے نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے ۔
فرسودہ، پرانی سوچ اور خیالات ، کنٹرولڈ نظام یا جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت یا آمریت پر مبنی نظام یا لوگو ں کے بنیادی حقوق کو سلب کرکے نظام چلانے سے لوگ گھٹن کا شکار ہوتے ہیں ۔ یہ عمل لوگوں میں حکومتی نظام پر جہاں مایوسی پیدا کرتا ہے وہیں ان میں لاتعلقی کو بھی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرکے انھیں کنٹرول کرنے کی سوچ غلط ہے۔ لوگوںکا سیاسی و سماجی شعور بڑھا اور ان میں سیاسی ،سماجی اور معاشی محرومی کا احساس بھی ان میں ردعمل کی سیاست کو پیدا کرتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ نئی نسل نالاں ہے اور وہ طاقت ور طبقات سے سوالات پوچھ رہی ہے تو یہ ان کی سوچ میں غصہ کا ردعمل بھی ہے ۔ معاشرے کے پڑھے لکھے افراد نئی نسل کو بغاوت یا عدم برداشت کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں مگر کوئی بھی ان کے مسائل کو سنجیدگی سے سمجھنے کے لیے تیار نہیں اور روایتی سوچ پر ہی عمل پیرا ہے ۔
آج کی دنیا میں جو بھی نظام عوام سے لاتعلق رہے گا یا ان کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ایک مخصوص طبقے کی طاقت یا حکمرانی کو ہی فوقیت دے گا تو لوگ اس طرز کے نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ اب لوگوں کے پاس رسمی میڈیا کے علاقہ ڈیجیٹل میڈیا کا آپشن یا ہتھیار بھی ہے ۔
اس غیرروایتی طاقت کو بنیاد بنا کر لوگ جہاں کاروبار کررہے ہیں، تفریحی سرگرمیاں بھی اس میڈیم پر اپ لوڈ ہوتی ہیں ، وہاں سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں جو اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ حکومتی نظام پر اپنا دباؤ بڑھا رہے ہیں اور جب کہ کچھ گروہ ریاست پاکستان کے مفادات کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سرگرم ہیں۔ حکومتی ردعمل بھی ظاہر کرتاہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں سے نالاں ہے ۔
یہ ایشوز یا چیلنجز اپنی جگہ موجود ہیں لیکن جہاں تک نظام کی بات ہے تو اس میں اصلاحات لانا ضروری ہے تاکہ منفی قوتوں کے پراپیگنڈا کا مقابلہ کیا جاسکے ۔ اس وقت لوگوں کا حکومتی نظام سے رشتہ کمزور ہے ا۔ لوگوںکو لگتا ہے کہ یہ نظام ہماری اہم یا بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا یہ ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ریاستی نظام کی کمزوری کے عمل کو دیکھ رہے ہیں اور داخلی سمیت خارجی محاذ پر ہماری اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔
جس طریقے سے ہم اپنا سیاسی ،قانونی اور معاشی نظام چلانے کی کوشش کررہے ہیں یہ معاشرے میں نہ صرف ایک بڑے پیمانے پر محرومی کی سیاست کو جنم دے رہا ہے بلکہ پوری قوم میں مختلف نوعیت کی تقسیم پیدا کررہا ہے ۔یہ عمل حکومت اور عوام کی سطح پر ایک بڑی خلیج کو پیدا کرکے ہمارے لیے ایک بڑی سیاسی تنہائی کو بھی پیدا کررہا ہے ۔ معاشی بنیادو ں پر آمدنی اور آخراجات کی سطح پر جو تقسیم پیدا ہوئی ہے اس نے عام آدمی سمیت اچھے بھلے پڑھے لکھے مڈل کلاس کی کمر بھی توڑ دی ہے ۔
ایک اچھے جمہوری نظام کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ خود ہی داخلی سطح پر اپنے خود احتسابی کے نظام کی بنیاد پر اپنی اصلاح کرتا ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھ کر ہی آگے بڑھتا ہے ۔پہلے ہی جمہوریت ،آئین وقانون کی حکمرانی سے گریزکرکے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔
یہ عمل محض داخلی سیاست تک محدود نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی سیاست سے جڑے مسائل میں بھی ہمیںایک بڑے استحکام کی ضرورت ہے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم اپنا داخلی چہرہ یا مقدمہ مضبوط بنا کر ایک مضبوط سیاسی اور ریاستی نظام کی طرف بڑھیں گے۔ کیونکہ عالمی سطح پر بھی وہی ریاستیں اپنی ساکھ پیدا کرتی ہیں جو خود داخلی سطح پر مضبوط ہوتی ہیں اور یہ مضبوطی کا عمل ہمیں باہر سے جڑے مسائل سے نمٹنے میں طاقت فراہم کرتا ہے۔
دہشت گردی ،بری جمہوریت اور طرز حکمرانی یعنی گورننس، اداروں کی کمزوری اور آئین و قانون کی حکمرانی کا عدم نظام، بگڑتی ہوئی معیشت سمیت سیکیورٹی کے حالات ہمارے بڑے قومی چیلنجز ہیں ۔ہماری توجہ ان داخلی ،علاقائی یا عالمی سطح کے چیلنجز پر ہونی چاہیے اور یہ ہی ہماری بڑی ترجیحات کا حصہ ہو تاکہ ہم ایک بہتراورمضبوط ، خودمختار پاکستان کی طرف پیش قدمی کو یقینی بناسکیں۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم موجودہ حکمرانی کے طور طریقوں سے نجات حاصل کریں اور اس بات پر خودبھی قائم رہیں اور دوسروں کو بھی قائم رکھیں کہ ہمارے سامنے ذاتی مفادات سے زیادہ ریاست اورملک کا مفاد زیادہ عزیز ہوگا۔
اس ملک کے مسائل کا حل روائتی طرزسیاست سے نہیں بلکہ ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات سے ممکن ہے ۔لیکن اس کی بنیادی شرط جمہوریت کو مضبوط بناکر ہمیں آئین و قانون کی حکمرانی،افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی اور عوامی مفادات کوفوقیت دینے سے ہی جڑی ہوئی ہے۔