دمشق خطرے میں

اسرائیل دمشق کو خطرے میں ڈال کر شامی انتظامیہ سے من مانی شرائط قبول کروانا چاہتا ہے۔


عبد الحمید December 20, 2024
[email protected]

ترکی کے صدر جناب طیب رجب اردگان کے اوپر ساڑھے تین ملین شامی پناہ گزینوں کی وجہ سے بہت دباؤ ہے۔ شامی پناہ گزینوں کی موجودگی سے ترکی کے عوام حکومت سے ناراض ہیں۔صدر اردگان کی پارٹی پہلے ہی اس ناراضگی کی وجہ سے استنبول اور کچھ دیگر علاقوں میں انتخابات ہار چکی ہے۔

جناب اردگان چاہتے ہیں کہ شام میں حالات جلد بہتر ہوں اور شامی پناہ گزین اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ ترکی نے اپنی سرحد کے ساتھ شام کے اندر کچھ علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے تاکہ کرد جنگجو ترکی میں داخل ہو کر کارروائیاں نہ کر سکیں۔ترکی نے اس صورتحال میں ادلیب میں تحریر الشام کو اپنی انتظامیہ قائم کرنے میں بہت مدد کی۔جب اسرائیل نے لبنان کے اندر حملے شروع کیے تو حزب اﷲ پر بہت کڑا وقت آیا۔اکتوبر میں تحریر الشام کے ابو محمد الجولانی نے کمزور بشار الاسد کی حکومت کے خلاف حملے کی تیاریاں شروع کیں۔

ایران اور روس دونوں نے تحریر الشام کی تیاریوں کی اطلاع پاتے ہی بشار کو خبردار کیا اور مشورہ دیا کہ وہ ترکی کے صدر جناب اردگان سے مل کر ترکی کو راضی کرے تاکہ آنے والے Offensive کو ٹالاجا سکے۔جناب پیوٹن نے خاص طور پر بشار الاسد پر زور دیا کہ وہ فوراً ترکی کا دورہ کرے اور طیب اردگان سے روابط بڑھائے۔بشار الاسد نے وقت کی نزاکت اور معاملے کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوئے اردگان سے ملنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں کیوں اردگان کے ساتھ تصویر بنواؤں۔ بشار نے کہا کہ میں صرف اس صورت میں اردگان سے ملوں گا جب وہ پہلے شام کے علاقے سے اپنی افواج نکال کر علاقہ خالی کر دے۔ایران نے بھی یہی صلاح دی تھی لیکن ایران کو بھی یہی جواب ملا۔دراصل بشار الاسد اس خوش فہمی میں مبتلا ہو چکا تھا کہ اس نے تیرہ سال پرانی خانہ جنگی پر بہت کامیابی سے قابو پا لیا ہے۔

بشار الاسد ترکی کے صدر اردگان سے ملنے تو نہیں گیا لیکن اس نے سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے سربراہ محمد بن زیدسے ملاقات کے لیے ریاض اور ابو ظہبی کا ضرور دورہ کیا۔ بشار الاسد اس دورے سے متعدد فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ایک تو وہ لمبے عرصے تک عرب دنیا سے کٹا رہا جسے اب وہ دوبارہ جوائن کررہاتھا۔اسے عرب لیگ کے اجلاس میں شمولیت کی دعوت بھی مل چکی تھی۔

وہ ان دونوں امیر عرب ملکوں کے ساتھ روابط قائم کر کے ان سے مالی معاونت کا بھی خواہاں تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ ان عرب ملکوں کے ذریعے امریکا اور دوسرے مغربی ممالک سے بھی تعلقات بحالی کی خواہش رکھتا تھا۔ مغربی ممالک نے بشار کی مخالفت میں شام کے اوپر مالی اور فوجی پابندیاں لگا رکھی تھیں۔بشار سعودی عرب اور امارات کے ذریعے یہ پابندیاں اُٹھوانا چاہتا تھا۔ بشار کے ان دوروں سے سعودی عرب اور امارات کے ساتھ تعلقات تو کچھ بہتر ہوئے لیکن اصل مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہو سکے۔

شام کے وہ علاقے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں،وہ امریکا کے قبضے میں ہیں۔ ایسے کچھ علاقے کردوں کے پاس بھی ہیں۔اسی علاقے میں زرعی اجناس بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ملکِ شام کو اپنے عوام کا پیٹ بھرنے کے لیے ایک اندازے کے مطابق3.5ملین ٹن زرعی اجناس درکار ہیں لیکن وہ علاقہ جو بشارالاسد کی افواج کے کنٹرول میں تھا،اس میں صرف دو لاکھ ٹن اناج پیدا ہوتا ہے جو انتہائی ناکافی ہے۔

مخالف جنگجو گروپوں کے ساتھ لڑائی کے لیے بشارالاسد سب سے زیادہ ایران کی سپورٹ پر انحصار کرتاتھا لیکن اسرائیل و امریکا کی ایران کے خلاف مخاصمت کی وجہ سے ایران بہت محتاط تھا۔ایران نے بشار الاسد پر واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنے گراؤنڈ ٹروپس شام نہیں بھیج سکتا کیونکہ ایرانی ٹروپس کی موومنٹ کو امریکا ضرور دیکھ لے گا اور اسرائیل آگاہ ہو کر ان پر فضائی اور میزائلی حملہ کر دے گا۔ایران نے یہ واضح کر دینے کے ساتھ یہ کہا کہ وہ بشار کی یہ مدد کر سکتا ہے کہ حزب اﷲ کے مجاہدین کو شام بھیج دے۔

ایران کے کہنے پر حزب اﷲ نے اپنے جنگجو شام بھیج بھی دئے لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ حزب اﷲ کے وہ جنگجو جو اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کے لیے تیار بیٹھے تھے وہ شام چلے گئے اور اسرائیل کے خلاف جو جنگ ہونی تھی وہ پوری قوت سے نہ ہو سکی۔ادھر حزب اﷲ کے جنگجو جب شام پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ بشار الاسد کی شامی افواج تحریر الشام کے مجاہدین کے خلاف لڑنے کو تیار ہی نہیں۔ صورتحال یہ پیدا ہو گئی تھی کہ شامی فوج ہتھیار پھینک کر اور وردی اتار کر عوام میں گھل مل رہی تھی۔ایسے میں حزب اﷲ کے چند ہزار جنگجو اتنے بڑے محاذ پر کیا کر سکتے تھے۔

جب انھوں نے شامی افواج کو ہتھیار پھینکتے دیکھا تو وہ بھی کچھ نہ کرسکے ۔ اسرائیل کے خلاف جنگ شروع ہونے سے قبل حزب اﷲ نے اپنے میزائلوں کی ایک کثیر تعداد شام کی سرحد کے اندر پہنچا دی تھی۔حزب اﷲ کا خیال تھا کہ جب لبنانی آبادی کے اندر سے اسرائیل پر میزائل حملہ نہیں ہوگا تو اسرائیل بھی لبنانی آبادیوں پر حملہ نہیں کرے گا لیکن اسرائیل کے منہ کو تو خون لگ چکا ہے۔

اسرائیل نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی اور لبنانی آبادیوں کو نشانہ بنا کر حزب اﷲ کے رہنماؤں کو مار ڈالا۔حزب اﷲ کا یہ بھی خیال تھا کہ شام کی سرحد کے اندر سے وہ اپنے میزائلوں کو فائر کر کے اسرائیل کے اندر تباہی مچائے گا لیکن بشار الاسد نے حزب اﷲ پر سختی سے واضح کر دیا کہ وہ حزب اﷲ کو شامی سرحد کے اندر سے اسرائیل کے اوپر ایک بھی میزائل فائر نہیں کرنے دے گا۔اس طرح حز ب اﷲ کے میزائل اس کے کسی کام نہیں آئے کیونکہ وہ فائر ہی نہ ہو سکے۔

اسرائیل کو البتہ ان میزائلوں کی شامی سرحد کے اندر موجودگی کا علم تھا اسی لیے بشار الاسد کے بھاگ جانے کے فوراً بعد اسرائیل نے ان میں سے ایک ایک میزائل یونٹ کو نشانہ بنایا اور ان کو فائر ہونے سے پہلے ہی زمین پر تباہ کر دیا۔8دسمبر سے 11دسمبر کے دوران اسرائیل نے زیادہ تر حملے حزب اﷲ کے انھی میزائلوں کے خلاف کیے۔ ابو محمد الجولانی کو جولانی اس لیے کہتے ہیں کیونکہ ان کا خاندان گولان یا جولان کے پہاڑی علاقے سے ہے۔ابو محمد الجولانی کے لے یہ امر بہت تکلیف دہ ہو گا کہ اس کے آبائی علاقے کو اسرائیل نے ہڑپ کر رکھا ہے اور وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔

اسرائیل نے شام کے اندر حزب اﷲ کے میزائل یونٹوں کو تباہ کرنے کے بعد شامی افواج کے ہر قابلِ ذکر اڈے و ہتھیار کو تباہ کرنا شروع کر دیا ہے۔شام کی کوئی بری، بحری یا فضائی بیس سلامت نہیں رہی۔ دراصل اسرائیل کو ابو محمد الجولانی کے اندرونی کرب اور قلبی کیفیت کا علم ہے،اس لیے وہ شام کو آنے والی کئی دہائیوں کے لیے نہتا کر دینا چاہتا ہے۔

اسرائیل یہ بھی چاہتا ہے کہ کہ شام بہت کمزور اور مجبور ہو کرجنگ بندی کی بھیک مانگے اور گولان و قریبی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو قانونی تسلیم کر لے۔اسرائیل کی افواج اس وقت دمشق سے صرف 20یا25کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اسرائیل دمشق کو خطرے میں ڈال کر شامی انتظامیہ سے من مانی شرائط قبول کروانا چاہتا ہے۔ چونکہ شامی افواج جو پہلے ہی کمزور تھیں،لڑائی کے قابل نہیں رہیں، ان کے پاس ایک قابلِ ذکر وار مشین نہیں رہی اس لیے اگر شام کی انتظامیہ نے اسرائیل کی شرائط کو نہ مانا تو اسرائیل آگے بڑھ کر دمشق پر قابض ہو سکتا ہے۔خدا کرے ایسا نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں