میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ سول نافرمانی کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ میری رائے میں غیرممالک سے ترسیلات زر کو روکنا بہت مشکل ہے۔
لوگ اپنے گھر والوں کو پیسے بھیجتے ہیں، حکومت پاکستان کو نہیں بھیجتے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے جہاں ملک میں اسمگلنگ کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا ہے وہاں حوالہ ہنڈی کے خلاف بھی ملک میِں بہت بڑا کریک ڈاؤن ہوا ہے۔ اس لیے آج زیادہ پیسے بینکنگ اور قانونی طریقے سے آرہے ہیں۔ پاکستانی روپے کو مستحکم رکھنے سے بھی حوالہ ہنڈی کا کام بند ہوا ہے۔ اب بینک اور باہر ڈالر کا ایک ہی ریٹ ہے۔ اس لیے لوگ ڈالر‘ پاؤنڈ‘ یورو ریال اور درہم وغیرہ بینک سے بھیجتے ہیں۔
لیکن پھر بھی بانی تحریک انصاف نے 22دسمبر اتوار سے سول نافرمانی کی کال دے دی ہے۔ ایک طرف ملک میں مذاکرات کی بات چل رہی ہے دوسری طرف سول نافرمانی بھی شروع ہوتی نظر آرہی ہے۔ کامیابی ناکامی الگ بات ہے۔ بانی تحریک انصاف کی جانب سے کال تو سامنے آگئی ہے۔ انھوں نے اس کو ملتوی کرنے کی مختلف اپوزیشن رہنماؤں کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ انھوں نے مذاکرات کے بنتے ماحول کا بھی خیال نہیں کیا اور سول نافرمانی کی کال دے دی ہے۔ اب کیا مذاکرات اور سول نافرمانی ساتھ ساتھ چلیں گے۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔
ویسے تو جیسے مجھے سول نافرمانی کی کامیابی کے امکانات کم نظرآتے ہیں۔ ایسے ہی مجھے تحریک انصاف اورحکومت کے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بھی کم نظر آتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ پھر بانی تحریک انصاف کی امید کس سے ہے؟ وہ کس امید پر یہ سب کام کر رہے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے۔ میری رائے میں اس وقت نہ تو بانی تحریک انصاف کو سول نافرمانی سے کوئی امید ہے اور نہ ہی مذاکرات کی کامیابی سے کوئی امید ہے۔
ان کی واحد امید ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ہے۔ ان کو امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 20جنوری کو امریکی صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے پاکستان کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈالیں گے۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کی رہائی کے راستے کھل جائیں گے بلکہ ان کے اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ اس لیے سول نافرمانی ایک ماحول بنانے کی کوشش ہے جس میں امریکی دباؤ کو استعمال کیا جاسکے۔ امریکی دباؤ کو جواز فراہم کرنے کے لیے سول نافرمانی شروع کی جا رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے رچرڈ گرنیل کے بیانات یقیناً بانی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کے لیے امید کی کرن ہیں۔ اسی لیے ہم ان پر جشن بھی دیکھتے ہیں۔ خوشی اور شادیانی بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کافی نہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ رچرڈ گرنیل نے 24اور 25نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے ضرور ٹوئٹ کیے۔ لیکن 26نومبر کے حکومتی ایکشن پر وہ خاموش رہے۔ اس پر انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ جو یقیناً معنی خیز ہے۔ لیکن بانی پی ٹی آئی اور تحریک انصاف کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سے یقیناً بڑی مدد درکار ہے۔
چھوٹے موٹے بیانات اور سفارتکاری سے یہ کام نہیں ہوگا۔ ویسے تو ابھی تک نہ تو ٹرمپ اور نہ ہی ان کی جانب سے اہم عہدوں پر جن کو نامزد کیا گیا ہے انھوں نے بانی پی ٹی آئی اور پاکستان کے بارے میں کوئی بات کی ہے۔ اس لیے ابھی تک اس حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان اور بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں، خاموشی ہے۔ خاموشی دونوں اطراف کے لیے امید ہے۔
اب ہم اگر فرض کر لیں کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتی ہے تو اس کے پاس کیا ہتھیار ہیں۔ ایک وقت تھا امریکا پاکستان کو بہت بڑی ایڈ فراہم کرتا تھا۔ امریکی ایڈ سے ملک چلتا تھا۔ اسٹبلشمنٹ چلتی تھی۔ امریکی ایڈ ہمارے لیے بہت اہم تھی۔ لیکن آج امریکا پاکستان کو کوئی ایڈ فراہم نہیں کرتا۔ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دور میں پاکستان ملٹری کی ایڈ میں بہت بڑ اکٹ لگا دیا تھا۔
جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد مزید کٹ لگا کر تقریباً ختم کر دی۔ اب پاکستان امریکا سے کوئی ایڈ نہیں لیتا۔ پاک فوج امریکا سے کوئی ایڈ نہیں لیتی۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ اور بائیڈن نے جب پاکستان کی فوجی ایڈ پر کٹ لگایا تو پاکستان میں بانی پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ دونوں صدور نے ان کی وزارت عظمی کی حکومت میں کٹ لگایا۔ اس لیے امریکا کے پاس یہ ہتھیار نہیں ہے کہ اگر ان کی بات نہیں مانی گئی تو وہ پاکستان کی ایڈ یا گرانٹ بند کر دیں گے۔ جب کچھ دے ہی نہیں رہے تو بند کیا کر سکتے ہیں۔ جب پاکستا ن میں امریکی دباؤ چلتا تھا تب معاشی تعاون بہت زیادہ تھا۔ اب نہیں ہے۔
امریکا اور پاکستان کے درمیان تجارت موجود ہے۔ پاکستان کاٹن مصنوعات امریکا کو برآمد کرتا ہے۔ پاکستانی مصنوعات پر ٹیرف لگا کر پاکستان کو مجبور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ایک انتہائی اقدام ہوگا۔ ایسے اقدمات تب ہی کیے جاتے ہیں جب ملکی مفاد اہم ہو۔کیا بانی پی ٹی آئی کی رہائی اہم امریکی ملکی مفاد ہے۔ میں نہیں سمجھتا۔ اس طرح کے اقدامات کا مطلب معاشی جنگ ہوتا ہے۔ مجھے پاک امریکا تعلقات میں ابھی معاشی جنگ کا ماحول نظر نہیں آتا۔ میری رائے میں ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بانی پی ٹی آئی اتنے اہم نہیں ہیں کہ ان کے لیے پاکستان سے معاشی جنگ چھیڑ دی جائے۔
مجھے تو سفارتی دباؤ بھی نظر نہیں آتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ صدر بننے کے بعد بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوئی بیان دیں گے۔ جو بیان انھوں نے صدر بننے سے پہلے نہیں دیا وہ بعد میں کیوں دیں گے۔ صدر بننے سے پہلے یہ کوئی خاص ذمے داری نہیں تھی۔ صدر بننے کے بعد ذمے داری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے میری رائے میں صدر بننے کے بعد ایسے بیان دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ انتخابی مہم میں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن نہیں کہا گیا۔
امریکا نے حال میں تین پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں لگائی ہیں۔ یہ کمپنیاں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کام کر رہی تھیں۔ بہرحال یہ پابندیاں سیاسی نہیں ہیں۔ ان کا سفارتی تعلقات سے بھی تعلق نہیں۔ ان کا بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ ایسا نہیں کہ اگر پاکستان بانی پی ٹی آئی کو رہا کر دے گا تو امریکا پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو کھلی چھٹی دے دے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے ان پابندیوں کو بانی پی ٹی آئی کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔