قانونی عوامی عدالت تو کوئی نہیں
پاکستان کے عوام کی مکمل تعداد تو آج تک سامنے نہیں آئی اور دعوے کیے جاتے ہیں کہ ملک کی کل آبادی پچیس کروڑ ہے اور تین بڑی سیاسی جماعتوں سمیت تمام جماعتوں کے دعوے ہیں کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔
پی ٹی آئی کا تو منفرد دعویٰ ہے کہ اسے 22 کروڑ عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے جو اسے 8 فروری کے الیکشن میں ملا تھا مگر چوری کر لیا گیا لہٰذا پی ٹی آئی کو جبری چھینا گیا یہ مینڈیٹ واپس ملنا چاہیے اور مینڈیٹ کے حساب سے اسے ہی حکمرانی کا حق ہے جو ہمیں نہیں ملا۔حکومتی پارٹیوں کے بھی دعوے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ملک کے کروڑوں عوام کا مینڈیٹ ملا تھا اور اسی وجہ سے پیپلز پارٹی سندھ اور بلوچستان میں اقتدار میں ہے جن میں سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ اور سب سے چھوٹے صوبے میں پی پی کی حکومت اور وزیر اعلیٰ ہیں۔
وفاق میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جو حکومت ہے اس میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے جسے ایک وفاقی وزارت ملی ہے اور پیپلز پارٹی نے کوئی وزارت نہیں لی مگر ملک کا سب سے بڑا صدر مملکت کا عہدہ اور چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور پنجاب و کے پی کی گورنری اس کے پاس ہے۔
پنجاب میں حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے اور زیادہ اکثریت کے باعث پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ کا وزیر اعظم بنوایا تھا جب کہ کے پی میں پی ٹی آئی کو واضح اکثریت کے باعث وہاں اس کی حکومت ہے اور وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن لیڈر بھی اس کے تو ہیں مگر اس کا دعویٰ ہے کہ وفاق اور پنجاب میں اس کی حکومت نہیں بننے دی گئی جب کہ پاکستان اور پنجاب کے کروڑوں عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے اور ملک میں سب سے زیادہ تقریباً بیس بائیس کروڑ ووٹ لینے والی پارٹی وہی ہے اور اقتدار صرف پی ٹی آئی کا حق ہے۔
پنجاب، سندھ اور کے پی میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی واضح اکثریت ہے جس کی وجہ سے تینوں بڑی پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ قوم ان کے ساتھ ہے اور انھیں کروڑوں ووٹ ملے ہیں۔ جے یو آئی کے پاس اب بلوچستان میں کے پی سے زیادہ نشستیں ہیں وہ بھی ملک کے کروڑوں ووٹوں کے دعویدار ہیں جب کہ ایک جماعت اسلامی ہے جس کی موجودہ پارلیمنٹ میں ایک بھی نشست نہیں صرف کراچی سے سندھ اسمبلی میں ایک نشست ہے مگر اس کا بھی دعویٰ ہے کہ ملک کے کروڑوں لوگ اس کے ساتھ ہیں۔
اسمبلیوں میں موجود چھوٹی جماعتوں میں ایم کیو ایم کے سوا کسی کا دعویٰ نہیں کہ اسے کروڑوں ووٹ ملے ہیں اور وہ صوبائی پارٹیاں ہیں مگر لاکھوں ووٹ انھیں ملتے ہیں۔ پاکستان کی پچیس کروڑ آبادی میں بیس بائیس کروڑ ووٹوں کی دعویدار پی ٹی آئی کی بلوچستان میں ایک بھی نشست نہیں مگر پورے ملک کے کروڑوں ووٹوں کی دعویدار ہے۔
سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی کوئی نشست نہیں اور نہ ہی سندھ سے (ن) لیگ کے پاس سینیٹ کی کوئی نشست ہے اسے بلوچستان اور کے پی سے کچھ نشستیں ضرور ملی ہیں۔سندھ و بلوچستان کی حکمرانی پیپلز پارٹی کو جنرل پنجاب سے معقول نشستیں ملی تھیں اور ملک کی اسمبلیوں میں موجود مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے بعد جے یو آئی کا شمار قومی جماعتوں میں ہوتا ہے اور ملک بھر میں صرف ایک نشست رکھنے والی جماعت اسلامی بھی قومی جماعت ہے اور ملک بھر میں اس کا وجود اور ووٹ ہیں مگر جماعت اسلامی کے نئے امیر اپوزیشن کا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور صرف ایک صوبائی نشست کے باعث وہ بھی کروڑوں عوام کی نمایندگی کے دعویدار ہیں۔ملک کی قومی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ کروڑوں عوام کی نمایندگی کرتی ہیں اس حساب سے تو پاکستان کی آبادی ایک ارب کے لگ بھگ ہونی چاہیے مگر ہے تقریباً چوتھائی اور سب کے دعوے ہیں کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔
ملک کے عوام کو ہر پارٹی عوامی عدالت قرار دیتی ہے۔ ماضی میں بعض پارٹیوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے آئے تو اس جماعت نے عدالتی فیصلہ مسترد کرکے عوامی عدالت میں جانے کا اعلان کیا، اس کی عام دنوں میں کوئی قانونی حیثیت کبھی رہی اور ملک کے آئین کے مطابق عام الیکشن میں عوام جس سیاسی پارٹی کو اسمبلیوں میں واضح اکثریت دیں تو اسی پارٹی کو حق حکمرانی کا اختیار آئین دیتا ہے جس کے مطابق کوئی پارٹی وفاق یا صوبے میں سب سے زیادہ ووٹ لے یا اکثریت حاصل کرے تو وہاں اسے حکومت بنانے کا اختیار مل جاتا ہے اور اگر اسے واضح اکثریت نہ ملے تو وہ دوسری جماعتوں کی حمایت سے اسمبلی میں اکثریت ثابت کر کے حکومت بناتی ہے اور اب تک ایسا ہوتا آیا ہے مگر ملک کا کوئی بھی الیکشن تمام جماعتوں نے کبھی منصفانہ قرار دیا نہ دوسری پارٹی کی نمایندگی تسلیم کی اور 1988 سے یہی ہوتا آیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی نہ کسی پارٹی کا مینڈیٹ تسلیم کیا گیا اور ہر الیکشن متنازع قرار پائے۔
2018 کے بعد 2024 کے انتخابات پر سب سے زیادہ اعتراضات ہوئے کہ عوام نے مینڈیٹ کسی اورکو دیا اور اقتدار میں کسی اور پارٹی کو لایا گیا اس لیے انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے گئے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ انتخابات متنازع تسلیم کرنے کے باوجود ہر پارٹی نے اسمبلیوں میں جا کر حلف اٹھائے اور کسی نے بھی اسمبلیوں کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ اسمبلیوں میں شور شرابا ہوتا رہا تو کوئی سلیکٹڈ قرار پایا مگر اسمبلیوں نے مدتیں پوری کیں جو جمہوریت کے مطابق اچھا عمل تھا۔
پی ٹی آئی مینڈیٹ چوری پر احتجاج بھی کر رہی ہے اور اسمبلیوں میں بھی موجود ہے۔ 2018 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور مسلم لیگ و پی پی نے اسمبلیوں میں احتجاج بھی کیا اور پھر اسی متنازع قومی اسمبلی کے ذریعے اقتدار بھی حاصل کیا تھا۔ ہر پارٹی الیکشن کو عوامی عدالت قرار دے کر الیکشن لڑتی ہے اور اس پارٹی کے حامی اور آزاد امیدوار اپنے حمایتیوں کے ووٹوں سے کامیاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں مگر اس عوامی عدالت کا فیصلہ مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر تسلیم بھی نہیں کیا جاتا۔ الیکشن ہارنے والی ہر پارٹی عوامی عدالت سے مسترد کیے جانے کے بعد کروڑوں افراد کی حمایت کے دعوے کرتی ہے اور حکومت بنانے والوں پر الزامات لگاتی ہے۔
جو الیکشن ہوتا ہے اس میں کسی کو زیادہ کسی کو کم نشستیں ملتی ہیں مگر ہارنے والے الیکشن مسترد کر کے نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں جیسے آج پی ٹی آئی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کر رہی ہیں۔ چند نشستیں لینے والی پارٹیاں پوری قوم کی ٹھیکیدار بن کر کروڑوں عوام کی حمایت کا دعویٰ کرتی ہیں مگر عوام کی اصل نمایندگی تسلیم نہیں کرتیں تو کون سا قانون انھیں کروڑوں عوام کی خودساختہ ٹھیکیداری سے روک سکتا ہے؟