مارخور قراقرم، ہمالیہ، ہندوکش اور کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جانور اس وقت پوری دنیا میں اپنی نسل مٹنے کے خطرے کا سامنا کررہا ہے۔ مارخور کی پانچ اقسام ہیں، جو دنیا کے مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں گلگت بلتستان، کشمیر، چترال اور کوہ سلیمان میں مارخور کی نسل موجود ہے۔
گلگت بلتستان میں قدیم زمانے سے لے کر 90 کی دہائی تک مقامی لوگ مارخور کا شکارکرکے گوشت بطور غذا استعمال کرتے تھے اور بعض جگہوں پر اب بھی ایسا کیا جارہا ہے۔ جبکہ پوری دنیا سے لوگ اسے شکار کرنے کےلیے بھاری قیمت ادا کرکے اس کے منفرد سینگ کو بطور ٹرافی کی حیثیت سے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
مارخور کے سینگوں کی لمبائی تقریباً چار فٹ یا اس سے زیادہ بھی ہوتی ہے اور یہ جانور اپنے لمبے سینگوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ مارخور ان 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات (WWF) کے 1976 میں جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں موجود ہیں۔
گلگت بلتستان میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مارخور کو بطور غذا استعمال کرنے کےلیے اس کے شکار میں اضافہ ہوا، جس سے اس کی نسل مٹنے کے خطرات بڑھنے لگے۔
حکومت پاکستان نے 70 کی دہائی میں مارخور کے تحفظ کےلیے کچھ اقدامات شروع کیے، جس میں غیر قانونی شکار کے خلاف قانون سازی، مارخور کےلیے محفوظ علاقوں کی نشاندہی اور مقامی لوگوں کو مارخور کی حفاظت میں شامل کرنا شامل تھا۔ لیکن جب اس جانور کی نسل معدومیت کے قریب پہنچی تو حکومت پاکستان نے 1997 میں مارخور کے تحفظ کےلیے ایک بہترین اور منفرد پروگرام گلگت بلتستان میں شروع کیا جسے مارخور ٹرافی ہنٹنگ کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد گلگت بلتستان کے مقامی لوگ مارخور کا شکار نہیں بلکہ تحفظ کرتے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت مارخور کے شکار کےلیے صوبائی حکومت اور شعبہ جنگلی حیات شکار سے دلچسپی رکھنے والے ملکی و غیر ملکی شکاریوں کو اجازت نامہ/ پرمٹ بھاری رقم کے بدلے جاری کرتی ہے جو کہ ایک منظم طریقہ کار کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ ایک بار حاصل کیا گیا لائسنس صرف چھ ماہ کی مدت کےلیے قابل استعمال ہوتا ہے۔ اس شکار کےلیے صرف بوڑھے مارخور کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
مارخور کا شکار آسان کام نہیں ایک چیلنجنگ کھیل ہے۔ اس کھیل کےلیے تربیت یافتہ و تجربہ کار مقامی شکاریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اجازت نامے سے حاصل کی گئی رقم کا 20 فیصد حکومت اور 80 فیصد مقامی کمیونٹی کو ملتا ہے۔ اور مقامی کمیونٹی اس رقم کو کنزرویشن کے مقامی اداروں کے ذریعے لوگوں کی تعلیم، صحت اور دوسرے فلاحی کاموں پر خرچ کرتی ہے۔
اگر ہم مارخور ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کی کامیابی کا ذکر کریں تو اس پروگرام کے تحت معدومیت کے خطرے سے دوچار مارخور کی تعداد میں پہلے کی نسبت اضافہ ہورہا ہے۔ اور یہ جانور ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے تحت نہ صرف اپنے تحفظ کےلیے خود وسائل فراہم کررہا ہے بلکہ مقامی افراد کی زندگیاں بہتر بنانے کےلیے وسائل کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔ یہ رقم علاقے میں تعلیم، صحت، کاروباری قرضہ اسکیم اور دوسرے فلاحی کاموں پر خرچ ہورہی ہے، جس سے ان لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہورہا ہے۔
حکومت گلگت بلتستان محکمہ جنگلات و جنگلی حیات اس پروگرام میں مزید بہتری لانے کےلیے پُرعزم ہے، تاکہ مارخور و دیگر جنگلی حیات محفوظ ہو اور مقامی لوگوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوں۔
گلگت بلتستان میں 1990 کی دہائی میں جنگلی حیات اور خاص کر مارخور کے تحفظ پر عاشق احمد نے کام شروع کیا، جس کا تعلق اُس وقت پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ پشاور سے تھا۔ عاشق احمد نے حکومت گلگت بلتستان کے ساتھ مل کر پہلی بار کمیونٹی کی بنیاد پر ٹرافی ہنٹنگ پروگرام گاؤں بر ضلع نگر اور اپر ہنزہ گوجال میں خنجراب ویلیجرز آرگنائزیشن (KVO) کے ایریا میں شروع کروایا ہے، جو کمیونٹی کنٹرولڈ ہنٹنگ ایریاز (سی سی ایچ اے) کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ اپر ہنزہ گوجال مارخور کے شکار کےلیے پورے گلگت بلتستان میں آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔ گوجال میں پروگرام کی کامیابی کے بعد اب یہ پورے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بھی کامیابی سے جاری ہے۔
مارخور شکار کے اس پروگرام کے تحت اب غیرملکی شکاریوں کو پاکستان آنے کا موقع مل رہا ہے، جو یہاں کے مقامی لوگوں کےلیے وسائل کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔ مگر جب مارخور کے شکار کا موسم شروع ہوتا ہے تو جانوروں کے حقوق پر بات کرنے والی تنظیمیں اس پروگرام کی قانونی حیثیت پر بات کرنا شروع کرتی ہیں اور اسے جانوروں پر ظلم تصور کرتے ہیں۔
2023 سے ابھی تک موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہر سال کی طرح اس سال شکار شروع نہیں ہوا ہے، اس کی وجہ اس علاقے میں برف باری کا نہ ہونا ہے۔ مارخور کے شکار کےلیے برفباری کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ پہاڑوں پر زیادہ برف باری کی وجہ سے مارخور گھاس کی تلاش میں نیچھے آبادی کے قریب آتے ہیں اور سفید برف میں وہ نمایاں ہوتے ہیں جس سے شکار آسانی سے ممکن ہوتا ہے۔ جبکہ پچھلے برسوں کی طرح اس سال شکار ناممکن ہوا ہے۔ یہ سب اس علاقے میں موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔
دوسری جانب جہاں مارخور کے شکار سے مقامی کمیونٹی کو مالی فائدہ پہنچتا ہے، وہیں یہ لوگ تشویش میں بھی مبتلا ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت کنزرویشن اور نیشنل پارک کے نام پر گلگت بلتستان کی زمینوں پر قابض ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس طرح دو سال پہلے ضلع استور میں دو نیشنل پارکس کے اعلان کے بعد وہاں کے لوگوں نے اس پر سخت اعتراضات اُٹھائے اور اسے ناکام بنایا۔
مارخور صرف ایک جانور ہی نہیں بلکہ پاکستان کا قومی جانور اور ہماری قوم کا فخر ہے۔ مناسب ہوگا کہ مقامی لوگوں کے تحفظات کا خاتمہ کیا جائے اور مارخور کی نسل کو معدومیت سے بچانے کےلیے جو ممکنہ اقدامات ہوسکتے ہیں اس جانب توجہ دی جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔