اب ہم مذاہب کی بات کرتے ہیں تو رب جلیل نے فرمایا ہے کہ ایسی کوئی قوم نہیں جہاں میں نے ہدایت نہ بھیجی ہو۔لیکن وہ علم وخیر اوربے حد رحم وکرم کامالک انسانوں کی ضرورتوں ، مجبوریوں اورمسائل سے آگاہ تھا ، اس لیے ہرمذہب میں باشندوں کی سہولت کاخیال رکھا گیا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو صحرائی مذاہب ہیں۔
یہودیت ، عیسائیت اور اسلام، صحراؤں اورریگستانوں میں اترے ہیں جہاں انسان کی ضرورتوں کاانحصار جانوروں پر ہوتا ہے اورزمین سے اگنے والی خوراک نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے وہاں گوشت کو جائز اورحلال کردیاگیا ہے لیکن ہندوستان جہاں زمین کی پیداوار نہایت وافرہوتی ہیں وہاں گوشت کی ممانعت ہے کیوں کہ زراعت کے لیے جانوروں کی ضرورت اوراہمیت بھی زیادہ ہوتی ہے ،مطلب یہ کہ گوشت خوری اورسبزی خوری کامسئلہ اصل میں جغرافیائی زیادہ ہے ۔
بلکہ یہاں مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آتا ہے ، ریڈیو پاکستان پشاورمیں کچھ چینی لڑکیاں تربیت کے لیے آئی ہوتی تھیں جو پشتو بھی سیکھ چکی تھیں ان سے اکثر کھانے کے موضوع پر بھی باتیں ہوتی تھی خاص طورپر یہ بات کہ چینی لوگ’’سب کچھ‘‘ کھاتے ہیں اوران کاکہنایہ تھا کہ اگرہم حلال وحرام کی چکر میں پڑجائیں تو ہماری آبادی اتنی ہے کہ بھوکوں مرجائیں گے اس لیے سب کچھ کھاتے ہیں لیکن ماساہاری اورشاکھاہاری یا ویج نان ویج کے مسئلے کو خوامخواہ مذہب سے وابستہ کیاگیا ہے اورہندودھرم میں اس مسئلے کو ’’آواگون‘‘ سے وابستہ کیاگیا ہے حالانکہ آواگون کامسئلہ بھی ویسا نہیں جیسا مشہورکیاگیا ہے۔ آواگون یاپنرجنم یا جنم جنماتر کامسئلہ بھی ہندو دھرم میں اختلافی ہے ۔
آواگون کاچکر یوں ہے کہ ہندی دھرم میں ساری روحیں (آتمائیں) ایک ہی پرماتما (پرم آتما یاروح اعلیٰ) سے نکلتی ہیں اوردوبارہ ساری آتمائیں اسی پر ماتما میں جاملیں گی یہ تقریباً وحدت الوجود یانو فلاطونی نظریہ ہے یعنی فصل اوروصل کا۔ یہ دنیا موجودہ شکل میں فصل ہے ، روح اعلیٰ کی روح منتشر ہوکر انسانوں میں جاری ہے ،یہ فصل یا جدائی ہے اورجب پھر ساری روحیں روح اعلیٰ میں جاملیں گی وہ وصل ہوگی۔ ہندی دھرم میں انسان جب مرجاتا ہے اسے ’’پران تیاگنا‘‘ یاجسم چھوڑناکہتے ہیں کہ روحیں مرتی نہیں ہیں جسم چھوڑتی ہیں
آتما نام ہی رکھتی ہے نہ مذہب کوئی
وہ تو مرتی ہی نہیں اپنا ’’مکاں‘‘ چھوڑتی ہے
اب یوں ہے کہ انسان جب مرتا ہے تو اگر وہ نیک ہے تو اس کی آتما پرماتما کی روح سے واصل ہوجاتی ہے اسے سنسکرت میں ’’موکش‘‘ ہندی میں مکتی اوراردو میں نجات کہتے ہیں لیکن اگر اس نے پاپ کیے ہیں تو وہ مکتی پانے کے بجائے ایک اورمقام بونی یا جونی میں رکھی جاتی ہے اورباری باری ان روحوں کو دنیا میں بھیجا جاتا ہے کسی اورجنم یاجسم میں اسے ’’پنرجنم‘‘ کہاجاتا ہے اوریہ سلسلہ اس وقت جاری رہتا ہے جب تک آتما پاک ہوکر پرماتما سے ملنے یا مکتی پانے کے قابل نہیں ہوجاتی ۔اوریہیں پر برھمنوں کی ایک قلیل تعدادنے یہ عقیدہ پھیلایا ہے کہ پنر جنم جانوروں میں بھی ہوتا ہے یعنی انسانی روحیں حیوانی جسم میں آتی ہیں اس لیے گوشت نہیں کھانا چاہیے ۔
لیکن یہ بہت بڑا غلط العام ہے اوربہت بڑے بڑے ہندی علماء اورفلاسفر نے اس کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جانوروں کے تو اعمال ہوتے ہی نہیں وہ تو ’’جبلت‘‘ پرہوتے ہیں ، شیر ہمیشہ درندہ ہی رہتا ہے اوربکری ہمیشہ چرندہ رہتی ہے مطلب یہ کہ ان کو گناہ یاثواب کااختیار ہی نہیں ہوتا اورذمے داری وہاں ہوتی ہے ، جہاں اختیار ہوتا ہے کسی کے پاس برا یابھلا کرنے کا اختیار ہی نہیں تو جواب طلبی کیسی؟
اس سلسلے میں شنکراچاریہ ادوتیاوا(وحدت الوجود کابانی) سوامی دیانندسرسوتی نے اپنی اکیس جلدوں پر مشتمل ویدوں کی تفسیر میں بھی یہی لکھا ہے، مہاتماگاندھی، پنڈت نہروں ، رادھا کرشن اور سوامی دوانند نے بھی یہی لکھا ہے کہ جانوروں کے پاس چونکہ اختیار نہیں ہوتا ، شیر کبھی بکری اوربکری کبھی شیرنہیں بن سکتی تو گناہ اور ثواب کی ذمے داری بھی ان پر نہیں ہے اورآتماؤں کابونی قیام اورپنرجنم کامقصد یہ ہے کہ وہ اپنے پچھلے جنم کے اعمال کو سدھار سکیں اورجو جو پاپ ان سے ہوئے ہیں ان کاازالے کرسکیں لیکن جانوروں میں تو گناہ وثواب کاشعورہی نہیں ہوتا تو روحوں کا جانوروں کی جون میں آنے کا نہ کوئی مقصد ہوتا ہے نہ فائدہ ۔
یہ دراصل ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے جیسا کہ حقوق وفرائض کا ’’زوج‘‘ہوتا ہے جہاں حقوق ہوتے ہیں وہاں فرائض بھی ہوتے ہیں اورجہاں اختیار ہوتا ہے وہاں ذمے داری بھی ہوتی ہے اور تمام مخلوقات میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کے اختیار میں ہے کہ اؐس راستے پر چلے یا اُس راستے پر چلے، چاہے تو اچھا بھی بن سکتا ہے اور چاہے تو برے سے برا بھی بن سکتا ہے چنانچہ گناہ و ثواب اورجنم جنماتر اورپنرجنم بھی صرف انسانوں تک محدود ہے ،جانوراس سے مبرا ہیں اورجب انسان جانوروں کی شکل میں پنرجنم لیتا ہی نہیں تو گوشت کھانے نہ کھانے کااس سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہندی دھرم میں اب اتنے زیادہ اوررنگ برنگی باتیں شامل ہوگئی ہیں کہ وہ معروف معنی میں کوئی دھرم ہے ہی نہیں،اس سلسلے میں بھی بہت سارے مباحث ہندی علماء میں ہوتے رہتے ہیں کہ ہندو دھرم آخر ہے کیا؟
یہ اب اتنا ڈھیلا ڈھالا دھرم ہے کہ آپ کچھ بھی اس کے اندرڈال سکتے ہیں اورنکال بھی سکتے ہیں اوراتنے زیادہ مختلف بلکہ متضاد عقائد یا صحیح معنی میں توہمات اس کے اندر موجود ہیں کہ ہردیوتا کے اپنے اپنے ماننے والے ہوتے ہیں جو دوسرے دیوی دیوتا کے ماننے والوں سے اکثر لڑائیاں بھی لڑلیتے ہیں ۔
یہ گوشت خوری کامعاملہ بھی ایسا ہی ہے جسے خوامخواہ مذہب سے نتھی کیاگیا ہے حالانکہ یہ جغرافیائی مسئلہ ہے ، صحرائی اوربرفانی خطوں میں اگر انسان گوشت نہ کھائے تو کیاکھائے گا ۔ہمیں گوشت کھانے کی ’’اجازت ‘‘ہے ’’حکم ‘‘ نہیں ۔
اورہمارے پاکستان اورخصوصاً ہمارے صوبے خیبر پختون خوا کے لوگ جس طرح گوشت کو کام سمجھ کر کھاتے ہیں اس سے پاکستان میں تو آج سارے جانوروں کا قلع قمع ہوچکا ہوتا اگرپڑوس میں بھارت نہ ہوتا جہاں تک بارڈر کاتعلق ہے تو دنیا میں ایسا کوئی بارڈر کہیں بھی نہیں جس میں سوراخ نہ ہوں اورہمارے بارڈر میں تو دریا بھی ہیں ۔