قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے مجھ پر موٹر سائیکل چوری سمیت تین مقدمات بنائے ہیں جب کہ دیگر بے شمار مقدمات علیحدہ ہیں جو میں عدالتوں میں بھگت رہا ہوں۔
عمر ایوب کو یہ یاد یا معلوم تو ہوگا کہ اپنے سیاسی مخالفین پر بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات اور ان کے خلاف انتقامی احکام کا آغاز ان کے دادا جنرل ایوب خان کی حکومت میں شروع ہوا تھا جو 66 سال گزر جانے اور ایوب خان کی طویل مارشل لا کی حکومت ختم ہو جانے کے باوجود بھی ختم نہیں ہوا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے مضحکہ خیز معاملات میں ملوث کر کے جو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنائے جاتے تھے وہ آج بھی جاری ہیں اور ایوب خان حکومت کے بعد سے اب تک شاید ہی کوئی حکومت رہی ہو جس میں اپنے سیاسی مخالفین پر ایسے بے بنیاد مقدمات نہ بنائے گئے ہوں۔
جنرل ضیا الحق بھٹو حکومت ختم کر کے 1977 میں مارشل لا کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے اور ان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں قتل کرائے گئے احمد رضا قصوری کے والد نواب احمد خان کے قتل کا پرانا مقدمہ کھلا تھا جو پی پی دور کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف درج کرانے کی کوشش کی تھی جو اس وقت کامیاب نہ ہو سکی تھی مگر وہی ایف آئی آر ذوالفقارعلی بھٹو کے لیے گلے کا پھندا بن گئی تھی۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ہی گجرات کے چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا جھوٹا مقدمہ بنا تھا جو بہت مشہور ہوا تھا۔ بھٹو دور میں انتقامی طور پر سانگھڑ کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کو بھی گرفتار کرایا گیا تھا جو بے بنیاد مقدمہ تھا مگر ملک میں یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے اور عمر ایوب اپنے دادا کے انتقامی دور کو بھول کر اپنے خلاف بے بنیاد مقدمات کے اندراج کا رونا رو رہے ہیں۔
عمر ایوب پی ٹی آئی حکومت میں وفاقی وزیر تھے اور ان کے سیاسی قائد اور منتقم مزاج وزیر اعظم عمران خان نے بھی مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف ہیروئن برآمدگی کا ایسا جھوٹا مقدمہ بنایا تھا جس میں رانا ثنا اللہ کو پھانسی کی سزا ہو سکتی تھی۔ اس جھوٹے مقدمے پر پی ٹی آئی کے وفاقی وزیروں کو بھی حیرت ہوئی تھی اور اسے بے بنیاد قرار دیا تھا۔
اس وقت عمر ایوب خاموش رہے تھے حالانکہ ان کے والد گوہر ایوب (ن) لیگ حکومت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اور عمر ایوب خود وزیر رہے تھے مگر انھیں بھی رانا ثنا اللہ کے خلاف بنایا گیا وہ مقدمہ نظر نہیں آیا تھا اور اب (ن) لیگی حکومت نے موٹرسائیکل چوری کا مقدمہ بنایا ہے تو وہ واویلا کر رہے ہیں۔ اگر انھیں اپنی حکومت میں وہ مقدمہ یاد ہوتا تو وہ اپنے خلاف درج موٹرسائیکل چوری کے مقدمے کو نہ بھگت رہے ہوتے۔
عمر ایوب وزیر بنے سب دیکھتے رہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں (ن) لیگ اور پی پی کے تمام اہم رہنماؤں کو نیب کے ذریعے جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا گیا تو اپوزیشن جماعتیں احتجاج کرتی رہیں کہ ان کے خلاف پی ٹی آئی حکومت بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات بنا رہی ہے مگر عمر ایوب وزارت کے مزے لیتے ہوئے خاموش تماشائی بنے رہے۔
پی ٹی آئی کے اسپیکر قومی اسمبلی کو اب پروڈکشن آرڈر یاد آ رہے ہیں مگر جب اپوزیشن اپنے گرفتار ارکان اسمبلی کو ایوان میں بلوانے کے لیے کہتے تھے تو اسد قیصر اور ان کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پروڈکشن آرڈر وزیر اعظم کی ہدایت پر جاری نہیں کرتے تھے مگر آج پی ٹی آئی کو پروڈکشن آرڈر یاد آ رہے ہیں۔
(ن) لیگ حکومت کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر جو پی پی کے ہیں آج ایوان میں پی ٹی آئی والوں کو بولنے اور ہنگامہ آرائی کا موقعہ دیتے ہیں کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کو اپنے ہی اسپیکر سے شکوہ کرنا پڑا کہ وہ پی ٹی آئی پر ضرورت سے زیادہ مہربان ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر نے تو تحریک اعتماد پیش کرنے والوں کو ’’ملک دشمن‘‘ قرار دے کر قرارداد ہی مسترد کردی تھی۔
جس پر بعد میں سپریم کورٹ نے عمل کرایا تھا اور ڈپٹی اسپیکر کا اقدام غیر آئینی قرار دیا تھا مگر پی ڈی ایم ڈرتی تھی اور صدر مملکت اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف کارروائی نہیں کی تھی۔محمد خان جونیجو اور (ق) لیگ کے دور میں سیاسی مخالفین کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات کم بنے اور باقی حکومتوں نے کسر نہیں چھوڑی۔ اس سلسلے میں سب سیاسی حکومتیں یکساں کردار کی حامل رہیں اور سب نے ہی اپنے سیاسی مخالفین پر ماضی میں سیکڑوں بے بنیاد اور جھوٹے مقدمے بنائے تھے اور یہ سلسلہ ماضی سے اب تک جاری ہے۔