واشنگٹن سے خوش کن ہوا کا جھونکا آیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ U.S State Department نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حکومت پاکستان کے مختلف اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردی کے لیے مالیاتی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔
امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے National Risk Assessment (NRA) رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں دہشت گردوں کے 11گروپ متحرک ہیں جب کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ دہشت گردی کی مالیاتی لائن کے لیے یہ انتہائی مناسب ہے۔
اس رپورٹ میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حکومت پاکستان نے دیگر ممالک میں دہشت گردی میں ملوث افراد کی واپسی کے لیے اہم اقدامات کیے۔ رپورٹ میں حکومت پاکستان کے ان اقدامات کو سراہا گیا ہے جن کے تحت افغانستان کی سرحد پارکرنے والے افراد کے لیے بائیو میٹرک لازمی کر کے بین الاقوامی بارڈر سیکیورٹی سسٹم قائم کیا ہے۔ اس رپورٹ میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی NACTA کی کارکردگی پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان کو 2022 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے فہرست سے خارج کیا گیا تھا، یوں پاکستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم ہوگئی تھیں۔ دوسرا صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے منظورکردہ مدرسہ رجسٹریشن ایکٹ کی توثیق کرنے سے انکارکرتے ہوئے وزیر اعظم کے نام خط میں کہا ہے کہ اس قانون کی منظوری سے پھر بین الاقوامی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطے میں یہ تنبیہ کی ہے کہ قانون ساز ادارے کے اراکین کو کسی قانون کو بناتے ہوئے بین الاقوامی تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنے خط میں وزیر اعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ اس وقت Pakistan Education (Establishment and affiliation of modern Madaris Board) کا قانون مجریہ 2001 اور Islamabad Capital Territory Trust Act 2020ء اب بھی نافذ العمل ہے ۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ مجریہ 1860 کے تحت مدارس کی تعلیم کے معیار پر بھی ایک سوال ہے۔ بقول صدر آصف علی زرداری یہ سوسائٹیز ایکٹ ہے جس میں فائن آرٹس کا مضمون بھی شامل ہے، جو مدارس کی تعلیم سے متصادم ہے۔ صدر نے واضح طور پرکہا ہے کہ نئے قانون سے فرقہ بندی کو تقویت ملے گی۔ صدر آصف علی زرداری نے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے انتہائی اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ سیکیورٹی امور کے ایک ماہر نے لکھا ہے کہ مالیاتی دہشت گردی کا بعض مدارس سے اہم تعلق گزشتہ 24 برسوں میں ظاہر ہوا ہے۔
سیکیورٹی کے ایک معروف ماہر محمد عامر رانا لکھتے ہیں کہ ملک میں مدارس کی تعداد کتنی ہے، اس بارے میں اعداد و شمار نہ تو حکومت کے پاس ہیں نہ مدارس کی لیڈر شپ مصدقہ اعداد وشمار پیش کرتی ہے۔ کسی آزاد ایجنسی کے پاس اس بارے میں معلومات نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حقیقی اعداد و شمار دستیاب نہ ہونے کی بناء پر مدارس کا تعلیم کے معاملے میں کردار کا مکمل طور پر جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔
وزارت تعلیم کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ہر فقہ کے الگ بورڈ ہیں۔ دیو بندی مکتبہ فکرکے 5 بورڈ ہیں، بریلوی اور شیعہ فقہ کے اہلِ حدیث مکتبہ فکرکے دو، دو بورڈ ہیں اور جماعت اسلامی والوں کا اس وقت تک صرف ایک بورڈ ہے۔
اس وقت یہ بورڈ مذہبی تعلیم کے ڈائریکٹریٹ جنرل کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ مذہبی تعلیم کے ڈائریکٹ جنرل کے قیام سے پہلے کچھ مدارس میں سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ تھے۔کچھ نائن الیون کے بعد جب اتحادی فوجوں نے کابل فتح کیا اور طالبان شکست کھا گئے تو افغانستان میں ہونے والی لڑائی پشاور اور کوئٹہ کے راستہ کراچی تک منتقل ہوئی۔ فوجی تنصیبات، اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر خودکش حملے ہونے لگے۔
سابق صدر پرویز مشرف ان خودکش حملوں میں بچ گئے مگر دہشت گردوں نے ایک منظم حکمت عملی کے تحت بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کر دیا۔ پورے ملک میں انتہا پسندی کے عنصریت نے تباہی مچانی شروع کردی۔ سلمان تاثیر، راشد رحمن اور بشیر بلور سمیت ہزاروں افراد اس دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ نشانہ بننے والوں میں اعلیٰ فوجی اور پولیس افسران کے علاوہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے طالب علم اور اساتذہ بھی شامل تھے۔
نائن الیون کی دہشت گردی کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ کا تعلق مدارس سے تھا ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت پاکستان کا مقدمہ اقوام متحدہ کی مشرقی اور ایشیائی فنانشل ٹیرر ازم کی روک تھام کی ٹاسک فورس کے سپرد ہوا۔ ایف اے ٹی ایف نے ملک میں دہشت گردی کے کلچر کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کرنے پر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر لیا۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر نئی سخت پابندیاں عائد کردیں۔
ان پابندیوں کی بناء پر بینکنگ کا نظام اور تجارتی شعبہ سخت متاثر ہوا۔ حکومت پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی، جس کی بناء پر بینکوں کا ڈیٹا عالمی نگرانی میں دیا گیا۔ اسٹیٹ بینک پر مختلف پابندیاں عائد ہوئیں۔ انعامی بونڈز کی مختلف اسکیموں پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ ایف اے ٹی ایف نے پوسٹ آفس کے سیونگ بینک پر بھی پابندی لگا دی۔ اس کے ساتھ ہی مدارس میں اصلاحات کا معاملہ بھی اہمیت اختیارکرگیا۔
مدارس میں مغلیہ دورکا فرسودہ نصاب پڑھایا جا رہا تھا۔ مدارس کے نصاب کو جدید بنانے، نصاب میں مذہبی مضامین کے علاوہ انگریزی،کمپیوٹر اور سائنس کے مضامین کی تدریس پر زور دیا جانے لگا۔ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں اور حکومت پاکستان نے مختلف مدارس کوکمپیوٹر فراہم کرنے شروع کیے۔ اس کے ساتھ ہی مدارس کو ملنے والے عطیات کو ریکارڈ پر لانے پر بھی زور دیا گیا۔ اب مدارس کو بینک اکاؤنٹ کھلوانا لازمی ہوا۔
حکومت پاکستان نے مدارس کو ملنے والی غیر ملکی امداد کے طریقہ کار کو بھی دستاویزی شکل دینے کی تجویزکی۔ غیر ملکی طالب علموں کے داخلوں کے پروسس کو بھی وزارت تعلیم کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ ہوا۔ ان فیصلوں پر طویل بحث ہوئی۔ کچھ مدارس نے ان اصلاحات کو فوری قبول کرلیا اور کچھ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے مختلف یونیورسٹیوں سے رجسٹریشن کرانا شروع کی مگر مدارس کی اکثریت نے مزاحمتی رویہ اختیارکیا۔
تحریک انصاف کی سابقہ حکومت میں وزارت تعلیم کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کا ڈائریکٹریٹ قائم ہوا۔ مولانا طاہر اشرفی کا دعویٰ ہے کہ جے یو آئی کے مدارس کی رجسٹریشن کے خلاف مزاحمت دوسری وجوہات ہیں۔ جب پی ڈی ایم بنی اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو جے یو آئی نے مدارس کے رجسٹریشن کے قانون کو تبدیل کرنا، اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔
اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا ایجنڈا تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ اس بناء پر مولانا فضل الرحمن کے تمام مطالبات مان لیے گئے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک ایسا قانون منظور ہوا جس کے نفاذ سے پاکستان میں مزید اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری اس قانون کی توثیق کے لیے تیار نہیں ہیں۔
مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ اس وقت زیرِ بحث ہے جب پوری قوم آرمی پبلک اسکول کے 130 طلبہ کی دسویں برسی منا رہی ہے۔ یہ معصوم طلبہ دہشت گردوں کے جنون کا نشانہ بنے تھے۔
ان شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے اور ایسی اصلاحات کی جائیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ یہی آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی پکار ہے۔ یہ ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے، اگر یہ قانون نافذ ہوا تو پھر پاکستان کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ حکمرانوں کو محض اپنے اقتدارکی فکر کرنے کے بجائے ملک کے وسیع مفاد میں فیصلہ کرنا چاہیے۔