یورپ ہمیشہ سے پاکستانی عوام کےلیے ایک خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسا خواب جسے پورا کرنے کےلیے کچھ لوگ قانونی طریقے اختیار کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگ خصوصاً مالی مشکلات کے شکار افراد، غیر قانونی راستوں کو اپناتے ہیں۔
یہ راستے جوا کھیلنے کے مترادف ہیں، لیکن اس جوے میں رقم نہیں بلکہ جان داؤ پر لگائی جاتی ہے۔ جیت کی صورت میں یورپ میں غیر قانونی داخلہ ممکن ہوتا ہے، لیکن شکست کی صورت میں انسان اپنی زندگی اور اپنے خاندان کے خوابوں کو بحیرہ روم کی بے رحم لہروں کے حوالے کردیتا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے ذریعے غیر قانونی ہجرت کا مسئلہ نیا نہیں، لیکن حالیہ برسوں میں اس نے کئی المناک کہانیاں جنم دی ہیں۔ دفتر خارجہ کی رپورٹ کے مطابق، 14 اور 15 دسمبر 2024 کی درمیانی شب یونانی سمندری حدود میں داخلے کی کوشش کے دوران انسانی اسمگلنگ کے شکار پانچ پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان بدقسمت افراد میں سے تین کا تعلق پنجاب کے مختلف اضلاع سے تھا۔
سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا واقعہ تیرہ سالہ محمد عابد کی موت ہے، جس کا نام ہلاک شدگان کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ کم سن بچہ، جس نے زندگی کی ابتدائی خوشیوں کا ذائقہ بھی نہ چکھا تھا، کس مجبوری کے عالم میں اپنے والدین کی شفقت کو چھوڑ کر اس جان لیوا سفر پر روانہ ہوا ہوگا؟ یہ سوال ہمارے معاشرتی اور قومی ضمیر کو جھنجھوڑنے کےلیے کافی ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ سال 2023 میں بھی پیش آیا تھا، جس بڑے سانحے نے پاکستان بھر میں انسانی اسمگلنگ کے مسئلے پر شدید بحث کو جنم دیا۔ اس ساںحے میں تقریباً 262 افراد اپنی جان سے گئے تھے۔ قومی اور سوشل میڈیا پر اس موضوع پر گرما گرم مباحثے شروع ہوئے اور عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت نے اس مسئلے کے خاتمے کےلیے بڑے دعوے اور وعدے کیے۔ تاہم آج بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں کیوں ناکام رہی؟ کیا مسائل کی جڑ تک پہنچنے کی کوششوں میں کمی رہ گئی یا یہ تمام بیانات محض وقتی سیاسی حربے تھے؟
سوال یہ ہے کہ کیوں پاکستانی اپنے ملک میں زندگی گزارنے کے بجائے موت کے خطرناک کھیل کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اگر ان عوامل پر غور کیا جائے جو پاکستانیوں کو غیر قانونی ہجرت پر مجبور کرتے ہیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان وجوہات کی جڑیں ہمارے معاشرتی، معاشی، سماجی اور سیاسی نظام کی ناکامی میں پیوست ہیں۔
ان تمام مسائل میں سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ معاشی تباہی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت نے عوام کو اس قدر بے بس کر دیا ہے کہ وہ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی دباؤ اور خاندان کی توقعات بھی لوگوں کو غیر قانونی ہجرت کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش میں زندگی کے خطرناک راستے اختیار کرتے ہیں۔ جو لوگ غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں، وہ زندگی اور موت کے خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔ اب ہمیں ان لوگوں پر بات کرنی چاہیے جو مجبوری کی حالت میں قانونی طریقے سے سفر کرتے ہیں۔
وہ تعلیم یافتہ نوجوان جو ملک میں بہتر مستقبل کے امکانات سے مایوس ہوچکے ہوتے ہیں، یورپ جانے کےلیے بھاری رقم خرچ کرتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ معمولی نوکریاں کرتے ہیں جیسے سیکیورٹی گارڈ، ہوٹل ویٹر، یا ٹیکسی ڈرائیور وغیرہ، لیکن ان نوکریوں سے وہ پاکستان کی کسی اعلیٰ ملازمت کے مقابلے میں زیادہ کما لیتے ہیں۔
برطانیہ میں موجودہ کم از کم اجرت 11 پاؤنڈ فی گھنٹہ ہے۔ اگر کوئی شخص روزانہ 8 سے 12 گھنٹے کام کرے تو وہ ماہانہ 10 سے 12 لاکھ پاکستانی روپے باآسانی کماسکتا ہے۔ یہ رقم نہ صرف اس کی ذاتی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ پاکستان میں موجود اس کے خاندان کی مالی حالت کو بھی بہتر بناتی ہے۔
آخر یہ کیسے برداشت کیسے ہوتا ہوگا؟ کتنے ہی درد بھرے لمحے ہوں گے جب ایک نوجوان اپنی ماں کی دعاؤں اور اپنے والد کے محبت اور شفقت کو چھوڑ کر پردیس یا بحیرہ روم کی لہروں کے حوالے ہوتا ہے۔ یہ ایک ذاتی سانحہ ہی نہیں بلکہ ایک قومی المیہ بھی ہے۔ یہ سوال دل کو جھنجھوڑ دیتا ہے کہ کیا وہ لمحہ آسان ہوتا ہوگا جب ایک ماں اپنے بچے کو الوداع کہتی ہے، یا جب ایک باپ اپنے لختِ جگر کو زندگی کے مشکل ترین سفر پر روانہ کرتا ہے؟
ہم ایک ایسے نظریے اور عقیدے کے پیروکار ہیں جس میں حکمرانی کی بنیاد انصاف، رحم دلی اور عوام کی فلاح پر رکھی گئی ہے۔ وہی نظام جس میں کہا جاتا تھا کہ اگر دریا کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرگیا، تو اس کا حساب حکمران کو دینا ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے رہنما راتوں کو جاگ کر گلیوں اور محلوں میں گشت کرتے تھے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی شخص بھوکا نہ سوئے۔ اگر کسی ضرورت مند کا علم ہوتا تو حکمران خود اپنے کندھوں پر سامان لاد کر مدد کےلیے پہنچ جاتے۔
ان مثالوں کے تناظر میں، ہمارے موجودہ حکمرانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ وہ افراد جو بہتر روزگار اور زندگی کی تلاش میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ان کا حساب بھی حکمرانوں سے لیا جائے گا۔ یہ ذمے داری صرف ماضی کی کہانیوں تک محدود نہیں، بلکہ آج کے دور میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے قوانین کو نہ صرف مزید سخت کرے بلکہ ان پر مؤثر عمل درآمد بهی یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کےلیے جامع حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔
ہمارے وہ تعلیم یافتہ نوجوان جو بیرون ملک جانے کےلیے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، وہاں پہنچ کر معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انجینئر، ڈاکٹر اور ماسٹرز ڈگری ہولڈرز جو اپنی قابلیت کے مطابق کام کرنے کے بجائے سیکیورٹی گارڈ، ہوٹل ویٹر یا ٹیکسی ڈرائیور بن جاتے ہیں، وہ اپنی صلاحیتوں کو ضائع کررہے ہیں۔
اگر ملک کے اندر ان نوجوانوں کو موزوں کاروبار کے مواقع فراہم کیے جائیں تو نہ صرف ان کی تعلیم اور قابلیت کا صحیح استعمال ہوگا بلکہ وہ ذلت اور خوار ہونے سے بھی بچ سکیں گے۔ اس کے نتیجے میں جب تعلیم یافتہ نوجوان ملکی معیشت میں کردار ادا کریں گے تو معیشت مستحکم ہوگی، روزگار کے مواقع بڑھنے سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔
یہ وقت ہے کہ ہم خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کےلیے عملی اقدامات کریں۔ وہ افراد جو بہتر روزگار کی تلاش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ان کی قربانیاں ہمیں یہ احساس دلانے کےلیے کافی ہیں کہ ہمیں اپنے معاشی، سماجی اور سیاسی نظام کی اصلاح کرنی ہوگی۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک مضبوط اور خودمختار قوم بن سکیں گے، جہاں کسی کو اپنے خواب پورے کرنے کےلیے جان داؤ پر نہ لگانی پڑے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔