لاہور:
سال 2024ء کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر رپورٹ سامنے آگئی، پیپلز پارٹی کو مشکلات سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا رہا، حکومتی اتحاد سے پیپلز پارٹی کو کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق 8 فروری کے جنرل الیکشن میں این اے 127 سے کل 25 امیدوار مدمقابل ہوئے جس میں پاکستان مسلم ليگ (ن) کے عطا اللہ تارڑ 98210 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، آزاد امیدوار ملک ظہیر عباس کھوکھر 82230 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 15005وٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے، لاہور میں بڑا پاور شو اور ڈور ٹو ڈور کمپین بھی بلاول بھٹو کو پنجاب میں بڑی کامیابی نہ دلاسکی اور انکوائری کمیٹی کی بنائی گئی رپورٹ پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے وفاق میں اتحاد کیا، جس کے تحت پیپلز پارٹی نے ایوانِ صدر، چیئرمین سینیٹ اور دیگر آئینی عہدے حاصل کیے، جبکہ ن لیگ نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی۔
یہ شراکتِ اقتدار پیپلز پارٹی کے لیے عہدوں کی سطح پر کامیاب رہی لیکن عملی طور پر حکومتی پالیسیوں پر ان کا اثرمحدود رہا۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے ساتھ پاور شیئرنگ قانون سازی کیلئے اعتماد نہیں لیا جاتا بلاول بھٹو زرداری نے اس کا اظہار بھی کردیا کہ ن لیگ مکمل طور پر ان کی توقعات پر پورا نہیں اتری۔
منصب سنبھالنے کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری دو بار جبکہ بلاول بھٹو پانچ بار لاہور آئے، پاور شیئرنگ کے حوالے سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے کئی اجلاس بے سود رہے۔
گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے صوبہ میں پیپلز پارٹی کی لڑائی لڑتے ہوئے پاور شیئرنگ حوالے سے ن لیگ سے علیحدگی کا بھی کہہ دیا اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی حالات سے آگاہ کردیا بلاول بھٹو زرداری کے کہنے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کمیٹی بنادی لیکن تاحال رزلٹ نہ آسکا اور نہ ہی لاہورسمیت پنجاب بھر کی تنظیم نو ہوسکی۔
پیپلزپارٹی کا ن لیگ کے ساتھ اتحاد وقتی طور پر تو فائدہ مند رہا لیکن اس کی طویل مدتی کامیابی کا انحصار دونوں جماعتوں کے تعلقات اور پاور شیئرنگ کے وعدوں کی تکمیل پر ہے پنجاب میں اپنی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کو اضلاع سے لیکر یونین کونسل سطح تنظیم سازی کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔