ہمارے پڑوسی کا حال احوال

ہمارے پڑوسی ملک میں خواندگی کی شرح 74.04 فیصد ہے اور تعلیم کا معیار کافی تسلی بخش ہے


سیدہ شیریں شہاب December 22, 2024

ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے پاکستان کے ساتھ ہی سال 1947 کے ماہِ اگست میں انگریزوں کے زیرِ تسلط ہندوستان سے آزادی حاصل کی تھی۔ تقسیمِ ہندوستان کے وقت برٹش سرکارکی جانب سے بھارت کی جھولی میں پاکستان کے مقابلے میں ایک بڑا زمینی حصہ بمعہ مستحکم و مربوط ملکی ادارے دانستہ طور پر ڈالے گئے تھے۔

اس غیر منصفانہ تقسیم کے تحت ہندوستان کی اٹھائیس (28) بڑی ریاستیں اور آٹھ (8) یونین ٹیریٹوریز بھارت میں شامل کی گئی تھیں۔ اْس وقت ہمارے پڑوسی ملک کی کْل آبادی تقریباً چونتیس (34) کروڑ افراد پر مشتمل تھی

جب کہ پاکستان کی آبادی تین (3) کروڑ پچیس (25) لاکھ تھی۔بھارت 1.429 بلین افراد پر مشتمل ملک ہے، جہاں 129 ملین افراد غربت کی لکیر سے بھی نیچے اپنی زندگی بسرکر رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک میں خواندگی کی شرح 74.04 فیصد ہے اور تعلیم کا معیار کافی تسلی بخش ہے۔ بھارت کی معیشت بیحد مضبوط ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں کثیر تعداد میں موجود اربوں ڈالر کے اثاثے رکھنے والے کامیاب بھارتی صنعتکار ہیں۔

اس سال کی ’’ فوربس انڈیا کے امیروں کی فہرست‘‘ میں جن 100 امیر ترین بھارتیوں کو شامل کیا گیا ہے اْن کے نیٹ ورتھ کی شروعات 119.5 بلین ڈالر سے ہوتی ہے اور اختتام سو کے ہندسے پر پہنچ کر 3.3 بلین ڈالر پر ہوتا ہے۔بھارت نے آزادی حاصل کرنے سے لے کر اب تک اپنے عوام کو چودہ وزیراعظوں سے نوازا ہے۔

ہندوستان کی آزادی سے قبل سال 1930 سے شروع ہونے والی ’’انڈین نیشنلسٹ موومنٹ‘‘ کے روحِ رواں اور مہاتما گاندھی کے قریبی ساتھی پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے تھے، جنھوں نے بھارت میں سیکولرازم کی بنیاد رکھی تھی، جمہوریت کو فروغ دیا ساتھ اپنے ملک کو ترقی کی اونچائی پر پہنچایا تھا۔ دوسری طرف آج بھارت کے چودہویں وزیراعظم نریندر مودی لگا تار تیسری بار اپنی حکومت بناتے ہوئے ملک کو اپارتھائیڈ ( نسلی امتیاز کی بنیاد پر علیحدگی) کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔

دنیا کے تمام ممالک کی طرح بھارت میں بھی دائیں اور بائیں بازوؤں کی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ نمایاں بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک کی سیاسی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس جب بھی حکومت میں آئی ہے اْس نے ملک کی عوام کو جوڑنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار میں آکر ہمیشہ معاشرے میں تقسیم پیدا کی ہے۔

اس معاشرتی تقسیم کی عملی شکل موجودہ بھارت ہے، جس کے سربراہ نریندر مودی نے اپنے سیاسی سفرکا آغاز ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس سے کیا تھا جس کے ایک اہم رْکن ناتھورام گوڈسے نے ’’ فادر آف نیشن‘‘ مہاتما گاندھی کا قتل کیا تھا۔مہاتما گاندھی کا سیکولر بھارت کے حوالے سے مشہور مقولہ ہے، ’’معاشرے میں کسی قسم کی بھی تقسیم نہیں ہوسکتی ہے، نہ ہندو اور مسلمان کے درمیان، نہ براہمن اور دلت کے درمیان اور نہ تنگ نظر اور آزاد خیال کے درمیان، ہم بھارتیوں کو متحد ہوکر رہنا ہوگا۔‘‘

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، مہاتما گاندھی کے نظریات سے برعکس اور جمہوریت کا نقلی لبادہ اوڑھے ایک خطرناک آمرکے طور پر ملکی اْفق پر اْبھر رہے ہیں۔ انھوں نے بھارت میں آمرانہ اصولوں کو اپناتے ہوئے ملک کی اکثریت پر اپنا جھوٹ پر مبنی سحر بنایا ہوا ہے، صرف یہی نہیں وہ اکثریت (اونچی ذات کے ہندوؤں) کے اندر اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تعصب کے احساس کو کْھلے عام بڑھاوا دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بھارت میں سال 2014 سے قائم ہونے والی مودی سرکار اپنے ملک کی اقلیتوں میں مسلسل ایک ڈرکی فضا بنائے رکھنا چاہتی ہے اور جس طرح بھی ہوسکے اْنھیں بھارت سے نکال کر اپنے ملک کو خالص ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اپنے دوسرے دور سال 2019 میں بی جے پی حکومت کے وزیرِ داخلہ امیت شا نے پورے ملک میں ’’این آر سی‘‘ ( نیشنل رجسٹر آف سٹیزن) کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔

جس میں بھارتی شہریوں کو اپنی شہریت مخصوص ذاتی دستاویزات کے ذریعے ثابت کرنا پڑے گی اور جو یہ کرنے میں ناکام ہو جائیں گے اْنھیں ڈیٹینشن سینٹر بھیج دیا جائے گا جب تک وہ کسی دوسرے ملک رہائش اختیار نہ کرلیں یا بھارت کی نیشنیلٹی حاصل کرنے کے قانونی عمل کو مکمل نہ کرلیں۔

این آر سی کا دوسرا مرحلہ ’’سی اے اے‘‘ (سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ) ہے جس کے تحت حکومت 31 دسمبر 2014 سے پہلے پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش سے آنے والے ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی، جین، بدھ مت تارکینِ وطن کو فاسٹ ٹریک نیشنلٹی کے ذریعے 12 سال کے بجائے 6 سال میں ہی بھارتی شہریت عنایت کردے گی۔

مسلمانوں کو دانستاً سی اے اے سے باہر رکھا گیا ہے تاکہ اْنھیں بارآورکروایا جاسکے کہ بھارت میں اْن کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔بھارت میں سال 1991 میں کانگریس حکومت کے دوران ’’ پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘‘ نافذ کیا گیا تھا جس کے مطابق سن 1947 کی 15 تاریخ کے دن پر ملک میں جس مذہب کی جو عبادت گاہ تھی وہ اْسی کی رہے گی، اْس کا مذہبی کردار بالکل بدلا نہیں جاسکتا ہے، یہاں تک کہ ایک مذہب کے دو فرقوں کی عبادت گاہوں میں بھی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس قانون کے نفاذ کے پیچھے سال 1990 میں شروع ہونیوالی ایل کے ایڈوانی کی سرپرستی میں بی جے پی اور سنگھ پریوار تنظیم کی ’’ رام جنم بھومی موؤمنٹ‘‘ تھی جس کی وجہ سے ملک میں شدید تناؤ کا ماحول تھا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات اپنے عروج پر تھے جس کیوجہ سے پانچ سو بھارتی اپنی جانیں گنوا چکے تھے۔

بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے، وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ میں ایک بھی مسلم منسٹر موجود نہیں ہے۔ برسوں برس سے بھارت میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہندو مذہبی رسومات کی آڑ میں غریب مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں کو مسمارکیا جا رہا ہے اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر اْن کے چلتے ہوئے کاروبار کو بلاوجہ متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔

بھارت گائے کا گوشت ایکسپورٹ کرنیوالا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے مگر اندرونِ ملک گائے کا گوشت کھانے کے جھوٹے الزام میں اپنے ہی شہریوں کا بیدردی سے خون بہا رہا ہے۔ بھارت میں مذہب کے نام پر سال در سال ایسے ہی انتشار بڑھتا رہا تو اْس کی معیشت بری طرح بیٹھ سکتی ہے جسے اربوں ڈالر کے اثاثے رکھنے والے بھارتی صنعت کار بھی اْٹھا نہیں پائیں گے اور بیٹھی ہوئی معیشت والے ملکوں کا کیا حال ہوتا ہے یہ آپ اور میں دونوں اچھی طرح جانتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں