سینیما کے سب سے زیادہ فلسفیانہ مصنفین میں سے ایک آندرے تارکووسکی نے اکثر انسانی فطرت کے گہرے دہرے پن اور اچھائی اور برائی کے درمیان ابدی جدوجہد کی کھوج کی۔ ان کی فلمیں، جیسے دی سیکرائس (1986)، اس اندرونی کشمکش کو علامتی منظرکشی اور مابعدالطبیعاتی موضوعات کے ذریعے بیان کرتی ہیں۔
یہ آخری شاہکار، جو سویڈن میں تارکووسکی کی جلا وطنی کے دوران تخلیق کیا گیا تھا، جوہری تباہی کو روکنے کے لیے خدا سے ایک آدمی کی مایوسی کی درخواست کی پیروی کرتا ہے، جس میں خود قربانی اور روحانی نجات کی تبدیلی کی طاقت پر زور دیا گیا ہے۔
یہ تارکووسکی کے عقیدے کو سمیٹتا ہے کہ انسانیت کو مصائب سے بالاتر ہونے اور الٰہی فضل حاصل کرنے کے لیے اپنی اندرونی تاریکی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
یہ نقطہ نظر تارکووسکی کے کام کے جسم کا ایک سنگ بنیاد تھا، جس کی جڑیں اس کے روسی آرتھوڈوکس عقیدے اور گہری وجودی تحقیقات میں پیوست تھیں۔ اس نے برائی کو خیرکی عدم موجودگی سے تشبیہ دی، جیسا کہ سایہ صرف روشنی کی عدم موجودگی میں ہوتا ہے۔ اسٹالکر (1979) اور آندرے روبلیو (1966) جیسی فلموں میں، تارکووسکی نے ان اخلاقی مخمصوں کا جائزہ لیا جن کا سامنا ایک ٹوٹی ہوئی دنیا میں گھومنے پھرنے والے افراد کو ہوتا ہے۔
یہ کہانیاں اس کے اس یقین کی عکاسی کرتی ہیں کہ انسانیت کا اصل مقصد دوسروں کی مذمت کرنے کے بجائے ذاتی خامیوں کے خلاف خود شناسی سے لڑنا ہے۔ تارکووسکی کے مراقبہ کے انداز نے 20 ویں صدی کے سینیما کو نئی شکل دی، جس نے سامعین کو زندگی کی پیچیدگیوں کا مقابلہ کرنے کا چیلنج دیا۔
ان کی لازوال فلمیں وجود کی روحانی آزمائشوں اور اندرونی ہم آہنگی کے راستے کو سمجھنے کے لیے رہنما بنی ہوئی ہیں۔ چرچل نے کہا تھا ’’ جب میں پیچھے مڑ کر ان تمام تفکرات کی جانب دیکھتا ہوں مجھے اس بوڑھے شخص کی کہانی یاد آتی ہے جس نے اپنے بستر مرگ پر کہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں بے تحاشہ تکالیف کا حامل تھا جن میں اکثرکبھی رونما نہ ہوئی تھیں۔‘‘
ایک اوسط درجے کا حامل انسان دن بھرکے دوران 500,000 سوچوں کا حامل ہوتا ہے جن میں کچھ سوچیں مثبت ہوتی ہیں، تاہم ان میں سے بہت سی سوچیں منفی ہوتی ہیں، مثبت سوچیں ایسے ہارمونز خارج کرتی ہیں جو ہماری فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے کام کرتی ہیں اور منفی سوچیں ایسے ہارمونز خارج کرتی ہیں جو ہمیں علیل کرتے ہیں۔
ہم صرف وہ ہی کچھ ہیں جو ہم سوچتے ہیں اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ ہماری دنیا اور زندگی صرف ہماری سوچ تک محدود ہے، ہم اپنی سوچ کے مطابق ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے آگے اورکچھ دکھائی ناممکن ہے۔ سوچیں، ہمارا ریموٹ کنٹرول ہوتی ہیں اور ہم ریموٹ کنٹرول کے آگے مکمل بے بس ہوتے ہیں اگرکوئی یہ سمجھا بیٹھا ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کا مالک ہے تو وہ اول درجے کا بے وقوف ہے۔
ہم سب اپنے آپ کے کرائے دار ہوتے ہیں ہمارا مالک ہماری سوچیں ہوتی ہیں۔ یاد رکھیں کرائے دارکبھی مالک کو اپنا دشمن نہیں بناتا ہے کیونکہ اگر وہ آپ کا دشمن بن گیا تو آپ کی بے دخلی یقینی ہوجاتی ہے مالک کو ہمیشہ دوست بنا کے رکھیں، اسے اپنا خیر خواہ بنائیں۔ ورنہ آپ بھی ہمارے اہم ترین کرداروں کی طرح کہیں بیٹھے اور لیٹے اپنے آپ کو کوس رہے ہوں گے، بدکردار اور بدکار سوچیں انسان کو شیطان سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔
شیطان سے تو بچا جاسکتا ہے، اس کے نرغے سے نکلا جاسکتا ہے، اس کا وار خالی جاسکتا ہے، اس کا بہکاوا ناکامی سے دوچار ہوسکتا ہے لیکن بدکردار اور بدکار سوچوں کے نرغے سے نکلنا ناممکن ہے، ان کا وارکبھی خالی نہیں جاتا ہے۔ ان کا بہکاوا کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتا ہے۔ آپ اورکچھ نہ کریں صرف ملک کی مختلف جیلوں کا مطالعاتی دورے کرکے دیکھ لیں اور ان میں قیام پذیر تمام مجرموں بشمول سیاسی مجرموں کے سب سے صرف ایک سوال پوچھ لیں کہ آپ کو اس حال پر پہنچانے والا اصل مجرم کون ہے؟ یقین جانیے وہ سب کے سب اپنی بد کردار اور بدکار سوچوں کو برا بھلا، لعنت ملامت اورگالیاں دیتے ہوئے پائے جائیں گے اور وہ بھی اس قدر بلند آواز میں کہ جیل میں موجود تمام قیدی ڈر اور خوف سے کانپ کانپ اٹھیں گے۔
انسان کی ہر پشیمانی، ہر تکلیف، ہر اذیت، ہر ذلالت کے پیچھے سوچیں ہی کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہیں۔ سکندر اعظم، ہٹلر، مسیولینی، شاہ فرانس ، شاہ ایران اور دیگر کو ان کی سوچوں ہی نے تمام عمر اذیت میں تڑپائے تڑپائے رکھا۔ آج ہمارے ملک میں موجود ہر غلاظت، ذلالت،کرپشن، لوٹ مار، کمیشن خوری کی موجودگی کی ساری کی ساری ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔
یہ ہی انسان کو غلط کاموں پر اکساتی ہے، ورغلاتی ہیں للچاتی ہیں۔ یاد رکھیں شیطان کی حدیں ہیں لیکن ان کی کوئی حدیں نہیں ہیں اور انھیں لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ شیطان کے پاس انسان کو دبوچنے کے مخصوص انداز ہیں لیکن ان کے پاس انسان کو دبوچنے کے ہر انداز موجود ہیں ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان بدکردار اور بدکار سوچوں نے عام لوگوں کوکم اور ہمارے حکمرانوں کو زیادہ دبوچا اور اپنے نرغے میں لیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعداد و شمار حاصل کر کے ایک تجزیہ مرتب کیا گیا جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خوشی و مسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائزہ لیا گیا۔ اس تجزیے جسے کہ ہم اب تک کیا جانے والا بہترین تجزیہ قرار دے سکتے ہیں کے مطابق عوام کی خوشی و خوشحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں جوکہ اچھی تعلیم، اچھی آمدن اور بہتر صحت سے مرتب ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خود بھی معیار حکومت کی مرہون منت ہوتی ہیں۔
ہماری خوشی کا سارا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمیں وراثت میں کیا ملا ہے۔ ہمارا کردارکیا ہے؟ ہمیں رشتے میں کیسے لوگ ملے ہیں اورہم کہاں اورکن حالات میں پیدا ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ ہمارا نصیب کیسا ہے، لیکن شہروں اور قوموں میں انسانی خوشی کے لیے سب سے زیادہ اہم جو بات ہوتی ہے وہ آب و ہوا یا آس پاس کے قدرتی مناظر، اچھے یا برے جین یا قومی کردار نہیں ہوتے بلکہ وہاں جاری حکومت کا معیار ہوتا ہے اور حکومت کے معیارکا سارا دارو مدار سوچ پر ہوتا ہے۔
اچھی حکومت اچھی، باکردار، دیانت دار سوچ کے بغیرناممکن ہے کیونکہ سوچیں صر ف بدکردار اور بدکار ہی نہیں ہوتیں بلکہ باکردار اور پاکیزہ بھی ہوتی ہیں۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران بدکردار اور بدکار سوچوں کے نرغے میں آجاتے ہیں یا پھر باکردار اور پاکیزہ سوچوں کو اپنے لیے چن لیتے ہیں۔ آئیں! مل کر انتظارکرتے ہیں ۔