کندھوں پر اضافی بوجھ

یہ بھاری اسکول بیگز بچوں کی کمر میں درد کا باعث بنتے ہیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں رپورٹ ہوئے ہیں


زارا نواز شیخ December 22, 2024

معیاری تعلیم تب ممکن ہے جب بچوں کے کندھوں سے اضافی بوجھ ہٹایا جائے۔ تاہم، ہمارے یہاں طلبا کی جسمانی اور ذہنی تندرستی سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس اکثر اس ملک کے اسکولوں میں کھیلوں اور تفریحی تقریبات کے مواقعے نہیں ہوتے ہیں۔

اسکول اکثر چھوٹی عمارتوں میں واقع ہوتے ہیں جن میں جسمانی سرگرمیوں کے لیے شاید ہی کوئی جگہ ہوتی ہے، جو خاص طور پر چھوٹے بچوں کو متاثر کرتی ہے اور ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کو بھی متاثرکرتی ہے۔

ان کی صحت پر ایک اور بوجھ وہ بھاری اسکول بیگ ہیں جو وہ روزانہ اسکول لے جاتے ہیں۔ اسکول بیگ کے وزن کی طے شدہ حد بچے کے جسمانی وزن کا 10 سے 15 فیصد ہے۔ اسکولوں میں اس کو معمول کے مطابق نظر اندازکیا جاتا ہے، جہاں اسکول بیگ کا وزن بچے کے جسمانی وزن کے 30 سے 40 فیصد کے برابر ہوتا ہے۔

یہ بھاری اسکول بیگز بچوں کی کمر میں درد کا باعث بنتے ہیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ 11 سے 14 سال کی عمرکے بچے بلوغت کے سال میں داخل ہوتے ہی عام طور پر ترقی میں تیزی کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہ عمر ریڑھ کی ہڈی کی نشوونما کا ایک اہم مرحلہ بھی ہے اور ایک ایسا دور جب، جیسا کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے، ’’ نوعمروں کی ریڑھ کی ہڈی اس دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتی جو بالغ ریڑھ کی ہڈی کے لیے نارمل ہوتے ہیں۔‘‘

اس مرحلے میں ایک بھاری بیگ اٹھانے سے کمرکے نچلے حصے میں درد کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، جس کا تجربہ بچوں کو اپنی بعد کی زندگیوں میں ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ جن بچوں کی پیٹھ پرکتابوں کے بوجھ کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی بری طرح متاثر ہوتی ہے وہ جسمانی طور پر بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بے چینی انھیں خود سیکھنے میں دلچسپی کھونے کا سبب بن سکتی ہے۔

اس سے ان کے درد اور تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے، خاص طور پر ان کلاسوں میں جہاں طلباء کو مشکل سے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ کچھ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ بچے اپنا تقریباً 50تا70 فیصد وقت کلاس میں بیٹھ کر گزارتے ہیں اور اس دوران شاید ہی کوئی جسمانی سرگرمی ہوتی ہے، جس سے ان کا جسم ساکت ہو جاتا ہے۔ ان کا درد اس وقت شدید ہو جاتا ہے جب کہ اسکول بھی انھیں کھیلوں اور جسمانی فٹنس کی کلاسوں سے محروم رکھتے ہیں۔

اسکول زیادہ تر پبلشنگ ہاؤسز اور تعلیمی حکام کو تعلیمی سال میں شامل نصابی معیارات میں اضافے کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جس کے نتیجے میں اکثر کتابوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نصابی کتب بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ اسکول جو روزانہ تمام مطلوبہ مضامین پڑھاتے ہیں اور طلباء کو باقاعدگی سے ہوم ورک تفویض کرتے ہیں وہ اسکول کے ہفتے کے ہر دن بچوں کو بھاری بیگ اٹھانے پر مجبورکرتے ہیں۔

بیگ کا بھاری مواد خود اس کے وزن میں حصہ ڈالتا ہے۔ دوپہر کے کھانے کا اضافی بوجھ اسکول کے بیگ کا وزن بڑھاتا ہے اور بچوں کی مشقت میں اضافہ کرتا ہے۔زندگی کا سب سے پرلطف اور حسین نور انسان کا ’’بچپن ‘‘ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیے ایک بہترین عطیہ اور تحفہ ہے۔

لیکن یہی بہترین تحفہ اب بچے کی جسمانی مشقت میں صرف ہوتا ہے، صبح سویرے ہمارے آدھے سوئے آدھے جاگے ہوئے بچے اسکول کا رخ کرتے ہیں اور واپسی پر کڑی دھوپ میں تھکے ماندے بھاری بستوں کو اٹھائے ہوئے یہ معصوم بچے ایسے مظلوم دکھائی دیتے ہیں کہ گھر پہنچتے ہی دور سے بھاری بستے کو پھینک دیتے ہیں۔بڑے شہروں میں ایک سروے کے مطابق سات برس سے تیرہ برس کی عمر کے 88 فی صد بچے ہلکی کمر درد کے کے شکار ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق بھاری اسکول بیگ ریڑھ کی ہڈی ،نروس سسٹم یعنی اعصابی نظام کی خرابی کا باعث بن سکتے ہیں ۔

اضافی وزن پٹھوں، جوڑوں اور ڈسکوں پر غیرمعمولی دباؤ ڈالتا ہے اور ان کو نقصان پہنچاتا ہے، بھاری وزن کو اٹھانے کے لیے بچوں کو جھکنا پڑتا ہے ۔ طویل عرصے سے ان میں ان میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے جو اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔بھاری بستے کی سب سے بڑی وجہ بچے کے لیے لمبا چوڑا سلیبس ہے، اگر صرف پرائمری کلاسوں کے کتابوں کی بات کی جائے تو پرائمری کلاسوں میں کم سے کم دس درسی کتابوں کے ساتھ کاپیاں، اسٹیشنری، لنچ بکس اور پانی کی بوتل وغیرہ ہوتی ہے۔

عملی طور پر ہمارے یہاں ایسا تعلیمی نظام رائج ہے کہ روزانہ بچے کو اسکول میں نصاب کی ساری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف چھٹی کے بعد بھی بچہ ہوم ورک کے نام پر اضافی بوجھ تلے دب جاتا ہے، دوسری طرف اسے ہر روز ہوم ورک اور تمام کتابوں کے ساتھ اسکول جانا پڑتا ہے ۔ اسی طرح اسکول بیگ کے وزن میں بچے کے کھانے پینے کی چیزیں بھی اضافہ کردیتی ہیں۔

اس حوالے سے والدین پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ہیوی بریک فاسٹ کے بجائے انھیں ہلکا ناشتہ ساتھ دیں۔بچوں کے لیے آرام دہ اسکول بیگ کا انتخاب کریں،بستے استعمال کرتے وقت بچے کے دونوں کندھوں کا استعمال کریں تاکہ وزن بھی دونوں کندھوں پر یکساں تقسیم ہوسکے۔اس طرح بچہ بستے کے وزن کا توازن برقرار رکھ سکے گا۔ بھاری اسکول بیگ کی مخمصے پر قابو پانے کے کئی حل ہیں۔

اسکولوں کو بچوں کے بھاری بیگ اٹھانے کے نتائج کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور اس طرح حکمت عملی بنانا چاہیے کہ یہ طلبہ کے لیے روزانہ کا بوجھ نہ بنے۔ سوچ سمجھ کر اسکول کی انتظامیہ بچوں کے لیے لاکرز مہیا کرے گی، جہاں وہ اپنی کتابیں رکھ سکیں گے اور صرف وہی چیزیں گھر لے جا سکیں گے جو اپنے ہوم ورک کے لیے ضروری ہیں۔

طلبہ کے کرسیوں اور بینچوں پر بیٹھنے کے لیے مجبور ہونے والے وقت کو کم کر کے کلاس روم کے ماحول کو سرگرمی پر مبنی ماحول میں تبدیل کرنا ایک قابل عمل آپشن ہے۔ یہ صرف کتابوں کے وزن کے بارے میں نہیں ہے۔ طلبہ بھی اپنے بیگ کو غلط طریقے سے لے جاتے ہیں۔ یہ اسکولوں پر منحصر ہے کہ وہ طلبا کو اپنے بیگ صحیح طریقے سے لے جانے کی تعلیم دیں۔ ہمارے ملک میں بچے اپنی بساط سے کہیں زیادہ وزنی بستے نازک سی کمر پر اٹھائے اسکول جاتے ہیں جو ان کی صحت اور نشوونما کے لیے انتہائی تشویشناک اور نقصان دہ ہے۔ماہرین صحت اس بات سے متفق ہیں کہ ضرورت سے زیادہ وزن اٹھانے سے بچوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

بچے کتنا وزن اٹھا سکتے ہیں یا ان کی پیٹھ پر کتنا وزن اٹھانے دینا چاہیے؟اس حوالے سے پورے ملک میں کم و بیش تمام اسکولوں کے بچوں کو اس تکلیف دہ صورتحال کا سامنا ہے۔ شہر کے مختلف اسپتالوں میں کچھ والدین اپنے بچوں کو لے کر پہنچے ہیں جن کی کمر میں جھکاؤ کی شکایت کی گئی ہے کیونکہ صبح سویرے اٹھنے والے بچے گھر سے لے کر اسکول تک جو بھاری بیگز اٹھاتے ہیں ان کا وزن 15 سے 20 کلو تک ہوتا ہے۔ جب ایک ٹیچر ایک سبجیکٹ روز نہیں پڑھا سکتی تو بچوں سے سات سبجیکٹ پڑھنے کی امید کیسے رکھتے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

امن لازم ہے

Dec 22, 2024 03:40 AM |

انقلابی تبدیلی

Dec 22, 2024 03:15 AM |