بشار الاسد کی حکومت کی ’’ شام ‘‘
طویل عرصے سے بین الاقوامی سیاسی فارمزکا موضوع گفتگو مشرق وسطی کے حالات رہے ہیں، انقلاب ایران، فلسطین کا تنازعہ، مصر کی صورتحال، ترکی کے معاملات، عرب اسپرنگ کے دور سے مشرق وسطیٰ ہمیشہ ہاٹ ٹوپک رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی گرما گرمی کی وجہ سے ہی تیسری جنگ عظیم کا نکتہ آغاز اسی خطے سے تصورکیا جاتا ہے۔ اسد خاندان نے شام میں 50 سال جاری رہنے والے دورِ حکمرانی میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے حکومت پر سوال اٹھانے والوں کو مبینہ طور پر قید کیا اور عقوبت خانوں میں رکھا جہاں مخالفین پر تشدد اور انھیں قتل کرنا معمول کی بات بتائی جا رہی ہے۔
دوسری جانب بشار الاسد نے ماسکو میں پناہ لے رکھی ہے۔ شام میں عبوری حکومت قائم کرنے والی ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اعلان کر چکی ہے کہ اسد دور میں ناانصافی کرنیوالے حکومتی عہدے داروں کا احتساب کیا جائے گا۔
یاد رہے، ہیئت تحریر الشام نامی تنظیم شروع میں القاعدہ کی ملیشیا کے طور پر شام میں خیمہ زن تھی، پھر یہ النصرہ فرنٹ بن گئی اور اب یہ ہیئت التحریر الشام کے نام سے کام کر رہی ہے، ہیئت تحریر الشام کی ماضی کی شناخت کی وجہ سے شام میں بسی عیسائی، شیعہ، اسماعیلی اور علوی برداری کو خدشات لاحق ہیں کہ کہیں یہ تنظیم ان پر ستم نہ ڈھائے۔
بالخصوص علوی برادری ہیئت تحریر الشام سے زیادہ خوفزدہ ہے کیونکہ علوی فرقے سے اسد خاندان کا تعلق ہے، لہٰذا انھیں ہیئت تحریر الشام نامی تنظیم سے خطرات اور تحفظات ہیں، تاہم تاحال ہیئت تحریر الشام نامی تنظیم عام شہریوں سے خوش اسلوبی سے پیش آرہی ہے، مقام مقدسہ کی تعظیم پر بھی کوئی ضرب نہیں ڈال رہی ہے، اس کا ٹارگٹ شام کی فوج اور اسد خاندان کے دستور، حکومت، تعمیرات، تنصیبات، عمارات، المختصر اسد خاندان سے وابستہ اقدامات کی تاراجی ہے، جو کہ وہ کر رہی ہے۔
ایچ ٹی ایس کے سربراہ احمد الشرع جو ابو محمد الجولانی کے نام سے معروف ہیں، یہ اعلان کرچکے ہیں کہ بیرون ملک جانیوالے مشتبہ افراد تک رسائی کے لیے ان ممالک کی حکومت سے رابطے کیے جائیں گے۔
شام کی موجودہ صورتحال ایک دہائی سے زائد ہنگامہ خیزی اور انتشاری کیفیات کا پیش خیمہ ہے، شام میں 2011 خانہ جنگی کا خلفشار بپا ہوا، جس میں 10 لاکھ لوگوں کی جانیں گئیں اور 70 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، بشار الاسد کی طرز حکومت نے شامی فوج کو کمزورکیا، جس کی وجہ سے باغیوں کو موقع ملا۔ ماضی میں روس، ایران اور حزب اللہ شام کے خاص اتحادی تھے، ان کی جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے بشار الاسد کی حکومت باغیوں کے نرغے سے محفوظ تھی۔
بین الاقوامی اشاعتی ادارے وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں شامی حکومت نے اپنے حامیوں (روس، ایران اور حزب اللہ) کی مدد سے باغی افواج کو شام بدرکیا تھا، اس کامیابی کو ملنے میں 4 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا تھا۔ موجودہ منظر نامے کیمطابق روس، ایران اور حزب اللہ خود جنگی کیفیات کی زد میں ہیں۔ روس، یوکرین کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہے، ایران اور حزب اللہ کا اسرائیل کے ساتھ تنازعہ عروج پر ہے، ایسے میں ان ممالک کی توجہ شام سے اوجھل رہی، جس کا مکمل فائدہ باغیوں نے اٹھایا اور چند دنوں میں حلب پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، بلکہ اس قبضے میں شہرکے وہ حصے بھی شامل ہیں جہاں شامی فوج نے پہلے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شام کی صورتحال میں ترکی، اسرائیل، امریکا اور سعودی عرب کی دلچسپیاں شامل ہیں جو کہ توانائی اور جغرافیائی نقل و حرکت پرگہری نظر رکھے ہیں، دراصل شام جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کا ایک نہایت ہی اہم ملک ہے کیونکہ اس کی سرحدیں ترکی، لبنان، اسرائیل، اْردن اور عراق سے ملتی ہیں۔ 2013 میں امریکی صدر اوباما شام پر حملہ کرنا چاہتا تھا تاکہ ایرانی اثر و رسوخ کو ختم کراسکے۔
تاہم امریکی کانگریس نے صدرکی رائے کو مسترد کرکے حملے کی مخالفت کی، بعد ازاں اوباما نے شام میں مختلف باغی گروپوں کو مالی امداد اور مسلح کیا۔ اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا کردار اکثر تنازعات کو ہوا دینے والا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق کی مثالیں دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ برقرار ہے کہ شام میں بھی امریکا اپنے مفادات کے لیے سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ شام کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ تبدیلی واقعی شامی عوام کے لیے مثبت ثابت ہوگی؟
ہیئت تحریر الشام نامی تنظیم اہل شام پر بشارالاسد کے مظالم کی عکس بندی، لوگوں کی مفلوک الحالی کے مناظر انٹرنیٹ پر وائرل کررہی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق بشار الاسد کا دھڑن تختہ کرنے والی تنظیم ہیئت تحریر الشام نے ایک لاکھ 36 ہزار 614 قیدیوں کو رہا کرایا ہے۔ افغانستان اور بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلیوں اور افغانستان کی صورتحال میں کسی خوشگوار تبدیلی کو نہ محسوس کرتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا القاعدہ کی ذیلی تنظیمیں ان حالات پر قابو پا سکے گی۔
شام کے 14 سالہ جنگی پس منظرکو سمجھنے کے لیے مختصرا اتنا کافی ہوگا کہ یہ تنازعہ شام کی حکومت اور اس کے اس وقت کے صدر بشار الاسد کے خلاف شامی بغاوت کے طور پر شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد سے، بہت سے گروہ لڑائی میں شامل ہوئے، ان گروپوں میں فری سیرین آرمی،کرد باغی جنگجو، نام نہاد اسلامک اسٹیٹ، جبہت فتح الشام، حزب اللہ، سیریئن ڈیموکریٹک فورسز اور ہیئت تحریر الشام شامل رہے۔
بین الاقوامی شمولیت نے بھی اس المیے کو مزید ہوا دی، روس، ایران اور حزب اللہ اس وقت کی شامی حکومت (بشارالاسد) کے حمایتی تھے، جب کہ حزب اختلاف کو امریکا سمیت کئی مغربی طاقتوں اور بعض خلیجی عرب ریاستوں کی حمایت حاصل رہی، ملک شام کی اندرونی قوتوں کی کمزوریوں کی وجہ سے بیرونی قوتیں حاوی ہوئی اور ملک 3حصوں میں بٹ گیا۔
بشارالاسد تو اپنی جان بچا کر بھاگ چکا ہے، بھگتنا عوام کو پڑ رہا ہے، اگر بشار الاسد اپنی ریاستی فوج کو مضبوط کرتا تو آج نہ خود بھاگتا نہ عوام کا یہ حال ہوتا جس کا وہ سامنا کر رہے ہیں، یہ حال ہی افغانستان کا ہوچکا ہے، جہاں دنیا بھر کی ایجنسیاں موجود رہیں، ملک تباہ کرکے اشرف غنی بھاگ گیا، یوکرین نے اپنے دفاعی اثاثے ضایع کر کے اپنے ڈیتھ سرٹیفیکٹ پر دستخط کیے۔
لیبیا، مصر جیسے ممالک کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ اس منظر نامے سے ریاست پاکستان اور عوام کے لیے اشارے ہیں، اپنی افواج کی قدر کیجیے، اس سے نفرت نہیں بلکہ جو اس کے خلاف بات کرتا ہے اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنی نسل اور مادر وطن کے خوشحال مستقبل کی جانب قدم بڑھائیں، ورنہ دنیا کی تاریخ سبق دے چکی ہے کہ جب برائی آتی ہے تو ’’ مقبول لیڈر‘‘ بھاگ جاتا ہے اور عوام پھنس جاتے ہیں۔
بشار الاسد، اشرف غنی، حسینہ واجد کبھی اپنے عوام کی جان تھے، آج وبال جان ہیں، لہٰذا اللہ کے اشاروں کو سمجھ کر ’’ مقبول لیڈر‘‘ کا نہیں بلکہ ریاست کا وفادار ہونا ضروری ہے، ورنہ (خاکم بدہن) چھاتا بردار فوج ہوگی، بھوک ہوگی، ماں، بہنوں کی لاشیں ہونگی اور گھروں کے ملبے ہونگے۔ اللہ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔ (آمین)