فیض احمد فیض پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ڈھاکا تشریف لے گئے تھے اور 1974 میں واپس آئے، تب انھوں نے خون جگر سے یہ نظم تخلیق کی۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مدارتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہرباں صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر، شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
کہتے ہیں کہ دل بڑا نازک ہوتا ہے، ذرا، ذرا سی بات پر ٹوٹ جاتا ہے اور اگر دل کے شیشے پر بال آ جائے تب وہ کبھی جڑتا نہیں ہے، لیکن حالات یہ بتاتے ہیں سب جھوٹ ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ پورے جسم میں دل ہی تو فولاد کی مانند ہے، بڑے بڑے زخم سہہ جاتا ہے، گزرنیوالے سانحات کی تکلیف برداشت کر لیتا ہے۔
سنتے آئے ہیں کہ دسمبر کا مہینہ بڑا ہی سحر آفریں ہوتا ہے، ہجر و وصال کے میٹھے میٹھے درد سے آشنا اور اپنوں کی یادوں سے مزین یہ یادیں بھی بڑا انمول سرمایہ ہوتی ہیں، پورا سال غنودگی میں رہتی ہیں لیکن ماہ دسمبر میں پوری آب و تاب کے ساتھ جاگ جاتی ہیں، دنیا کے مکینوں کا حال یکساں ہی ہے لیکن ہمارے پاکستان اور اس میں بسنے والوں کے لیے دسمبر کی قیامت خیزی جان لیوا ہوتی ہے۔
16 دسمبر اے پی ایس کے طلبا کی شہادت اور سانحہ مشرقی پاکستان جب وجود میں آیا تو بے شمار شہادتوں کے بعد، ظلم و سفاکیاں عروج پر تھیں، لاکھوں لوگ آزادی کی شمع لے کر منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے، آزادی کی خوشی اور آزاد وطن میں قدم تو نہیں رکھ سکے لیکن شہادت کا تاج پیشانی پر سجائے بہشت کے باغوں میں ضرور پہنچ گئے اور جو بچے انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے بعد دنیا کی عظیم کامیابی کو گلے لگایا اور آزادی کے ترانے گائے اور اس وقت کامیابی کا چراغ ٹمٹماتا ہوا نظر آنے لگا جب آزادی کے 24 سال بعد 16 دسمبر 1971 میں پاکستان دولخت ہوگیا۔
اس کی وجہ یہ ایک بہت بڑی سازش اور ہوس اقتدار تھا جس نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اس کا ایک بازو تن سے جدا کر دیا جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ دنیا بھر میں پہلا اور واحد ملک جو اللہ کی مدد سے کلمہ طیبہ کے نام پر اس کرہ ارض کے نقشے پر ابھرا۔ یہ قائد اعظم ہی تھے جو اعلیٰ صفات کے مالک اور سچے مسلمان تھے۔
قائد اعظم تن، دھن کے ساتھ ایک علیحدہ مملکت کی تعمیر کے لیے اپنے ہمعصروں اور معمارانِ پاکستان کے ساتھ ایک مشکل ترین اور کٹھن آزما سفر پر روانہ ہوگئے اور آخر کار اپنی منزل کو پا لیا۔اپنوں کی ناعاقبت اندیشی نے پاکستان کی بنیاد میں دراڑ ڈال دی۔ قتل و غارت، خون ریزی عروج پر تھی، حبیب جالب نے درست ہی تو کہا تھا:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اور پھر واقعی منزل کھو گئی۔ ان تمام حالات کے پس پردہ بھارت کا ہاتھ تھا جس نے 1971 میں بین الاقوامی اصول و ضوابط کو پامال کر کے مشرقی پاکستان میں قہر و جبر کی ہولی کھیلی، سفاکیت کا وہ کھیل کھیلا جس میں ماں، بہن اور بیٹیوں کی عزت اور حیا کو ان کے اپنے حقیقی رشتوں کے سامنے تار تار کر دیا، جنھیں اپنا سمجھا جاتا تھا وہ ہی دشمن جاں ثابت ہوئے، مہمان بن کر آئے اور دسترخوان پر سروں کے مینار سجا گئے۔
قطار میں لگا کر انھیں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یہ کیسے انسان تھے؟ انسان تھے بھی کہ نہیں؟ درندگی کا یہ کھیل بڑی فراخ دلی سے کھیلا گیا اور لاکھوں انسانوں کو ان کے خون میں نہلا دیا، بھارت یہی چاہتا تھا، جو اس نے کر دکھایا۔ بھارتی وزیر اعظم نے 2017 میں ایک سرکاری تقریب جو ڈھاکا میں منعقد ہو رہی تھی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ:
’’ مکتی باہنی فورس میں بھارت کے فوجی بھی شامل تھے، مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان سے علیحدہ کرنے میں ان کا ہی ہاتھ تھا، اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے اپنی اصلیت اور گھٹیا سوچ اور عمل کا اعلان ببانگ دہل کیا۔
گویا یہ اس نفرت کا اظہار تھا کہ پاکستان نے دو قومی نظریہ کو توانا کرکے ایک الگ ملک پاکستان تعمیر کر لیا، مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے کے بعد بھارت کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا: ’’میں نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر کے برصغیر پر مسلمانوں کے ہزار سالہ اقتدار کا بدلہ لے لیا ہے۔‘‘
بدلہ تو ضرور لے لیا لیکن خود بھی برے انجام کو پہنچی۔ اس کے ساتھ ہی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والی کو اپنے خواب کی تعبیر نہ مل سکی، اس کی وجہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ سلامت ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
جن جن سورماؤں نے پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں اپنی طاقت اور پست ذہنیت کے تحت شرم ناک فعل کیا ان کا اپنا انجام بھی عبرت ناک ہوا، اندرا گاندھی کو قتل کیا گیا اور رہا مجیب الرحمن وہ 15 اگست 1975 کو اپنی ہی فوج کا نشانہ بنا۔ تین دن تک اس کی لاش اس کے ہی گھر کی سیڑھیوں پر پڑی مقام عبرت بنی رہی۔
ہمارے یہاں بھی ہمارے حکمرانوں کی اپنے فرائض سے چشم پوشی نے مسائل پیدا کیے ہیں۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سے بچا کھچا پاکستان بھی سنبھالا نہیں جا رہا ہے۔ عوام پریشان ہیں، غم زدہ ہیں اور جو کیمپوں میں زندگیاں گزارنیوالے مشرقی پاکستان کے شہری ہیں وہ بھی ایسی زیست بسر کرنے پر مجبور ہیں جو بھوک افلاس، بیماری اور غموں سے بھری ہوئی ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں ہر چیز مہنگی، پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، ضروریات زندگی کی تمام اشیا بجلی اور گیس کے بل، یوٹیلیٹی بلز میں سوائے سانس لینے، چلنے پھرنے اپنی مرضی سے اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کے بل شامل نہیں ہیں، باقی ایک نہیں کئی بل وہ شامل ہیں جس سے صارف بے خبر اور حیران و پریشان ہے۔ سوائے اس کے یہی کہا جاسکتا ہے کہ۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا