جدید طرزِ احساس کا شاعر، اکرمؔ کنجاہی
جس شاعر کی غزل میں ہمیں بہت سے رنگ ملیں، خاص طور پر نغمگی اور جدت بھی ہو تو اس شاعر کی انفرادیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ یہی بات دورِ حاضر کے جدید طرزِ احساس کے شاعر اکرم کنجاہی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ اکرم کنجاہی کا پیدائشی نام محمد اکرم بٹ جب کہ ادبی منظرنامے پر وہ اپنے قلمی نام اکرم کنجاہی سے مشہور ہوئے۔
ان کا آبائی تعلق ضلع گجرات کے علمی و ادبی شہر ’’ کنجاہ ‘‘ کے کشمیری خاندان سے ہے۔ میٹرک گورنمنٹ پبلک اسکول ( کنجاہ) سے پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ زمیندارکالج گجرات سے وابستہ ہوئے اور مذکورہ کالج کی ادبی سوسائٹی ’’ بزمِ اقبال‘‘ کے جنرل سیکریٹری رہے۔ اُس وقت گجرات میں بی کام کرنے کے لیے کوئی بھی کالج موجود نہ تھا۔
چنانچہ گورنمنٹ ڈگری کالج بھمبر میں داخل ہو گئے۔ اس کالج میں ’’بزمِ ادب‘‘ اور ’’ کامرس سوسائٹی‘‘ کے صدر رہے۔ بعدازاں آئی بی اے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اور ایم بی اے کے امتحانات پاس کرنے کے بعد انھوں نے یونیورسٹی لا کالج سے ایف آئی ایل کیا۔ اکرم کنجاہی کے ساتھ ’’ کنجاہ‘‘ کا ذکر آتے ہی ہمیں غنیمت کنجاہی، شریف کنجاہی، زمان کنجاہی، روحی کنجاہی، منیر صابری کنجاہی، شاکر کنجاہی اور زہیرکنجاہی کے اسمائے گرامی یاد آنے لگتے ہیں۔
اکرم کنجاہی کا مزاج بالکل سادہ ہے جو اُس کی باساختہ شاعری میں واضح دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ ’’ اکرم کنجاہی کی شاعری میں دیہات کی سادگی، رعنائی اور سچائی ہے۔ وہ اُفقِ سخن پر ترقی پسند تحریک کے دورِ زوال میں نمودار ہوئے، اس لیے اُن کے ہاں اُونچی آواز نہیں اُٹھتی، نعرہ نہیں اُبھرتا، چیختا چنگاڑتا نظریہ حملہ آور نہیں ہوتا لیکن اُن کی شاعری میں دل کی آواز سرگوشیوں میں ضرور سنائی دیتی ہے۔
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اکرم کنجاہی فطرت سے ہم کلام ہیں۔‘‘اکرم کنجاہی کے ’’ دامنِ صد چاک‘‘ کو موجودہ سیاست، ظلم و بربریت، فساد، انتشار، تباہی و بربادی، فریب کاری، دھوکا دہی، مہنگائی، بے روزگاری، رشوت خوری، بدعنوانی، عوام کی بے چارگی، حکومت کوتاہ بینی، لاقانونیت، خود غرضی، انارکی، انفرادی، اجتماعی اور ریاستی دہشت گردی، مسلمانوں کی پامالی، رسوائی اور جدوجہد جیسی کیفیات جب انھیں متاثرکرتی ہے تو وہ بہت دُکھی ہو جاتے ہیں اور اسی دُکھ کا مداوا اپنے لفظِ اظہار کی صورت لیے اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ:
زخم گہرے ہیں یہ سارے رگِ جاں تک میرے
زندگی نوچے گی پر اور کہاں تک میرے
نارسائی کے ہیں ناگفتہ کئی کرب ابھی
لفظ یوں آتے نہیں میری زبان تک میرے
’’دامنِ صد چاک‘‘ کے آغاز میں خوبصورت حمد و نعت بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد اُردو غزلیات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور غزلیات کے آخر میں کچھ آزاد نظمیں ہیں۔ ان کی حمد و نعت کی بات کی جائے تو یہ ان کا اپنے اللہ اور اُس کے رسولؐ سے دلی عقیدت اور حقیقی محبت کا اولین ثبوت ہیں جب کہ ان کی غزلیں انسانی جذبوں، احساسات اور زندگی کی ترجمان ہے،کیونکہ اچھی شاعری ہمیشہ دل و دماغ پر اپنا خوشگوار اثر چھوڑتی ہے۔
اکرم کنجاہی کے ’’ دامنِ صد چاک‘‘ میں کس قدر سچائی ہے وہ ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے،کیونکہ ان کی شاعری کہیں خوبصورت الفاظ و تشبیہات اور استعارات کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے تو کہیں شکستہ دلوں کی صدا بن جاتی ہے توکہیں حقیقی جذبات کی گہرائی، احساس کی تنوع، الفاظ کی رنگینی ان کی شاعری کو حُسن بخشتی ہے۔
سونے پر سہاگہ کے مصداق کچھ پوری کی پوری غزلیں اتنی درد مندی اور اجتماعیت کی انگلی پکڑکر زینتِ قرطاس ہوئی ہیں۔ انھیں تنہائی میں گنگنانے کو جی چاہتا ہے، یہ غزلیں قلم سے نہیں، دل دھڑکنے کی دُھن کو سامنے رکھ کر تخلیق کی گئی ہیں۔ ان غزلوں میں شاعر نے اپنا دل نکال کر پیش کر دیا ہے۔ ‘‘ ان کی ایسی ہی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
دنیا کی دست بُرد سے لاؤں بچا کے میں
وہ دن، وہ رات اور وہ شامیں چُرا کے میں
منظر نظر نہ آئے تو سورج کا کیا قصور
آنکھوں کے یہ چراغ جو رکھوں بجھا کے میں
اسی غزل کے ایک اور شعر دیکھے کہ:
ہوتے نہ بے کفن جو یہ لاشے نگاہ میں
تصویر ہوں سکون سے، کتنے مزے میں ہوں
اکرم کنجاہی موجودہ معاشرتی اور ہنگامی بے چینیوں سے گزرتے ہوئے ان تمام واقعات کو بڑی مہارت سے اپنے اشعار میں پیش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی انفرادی کسمپرسی کی داستان بھی ان کی شاعری میں واضح دکھائی دیتی ہے اور اجتماعی کرب کی گونج بھی اس دور کی شاعری کے پس منظر سے اُبھرتی محسوس ہوتی ہے۔
’’کراچی کے اہلِ قلم‘‘ کی جلد اول میں صفحہ نمبر 72 پر منظر عارفی اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ ’’ اکرم کنجاہی کے قریبی عزیزوں میں کوئی شاعر وادیب نہیں گزرا۔‘‘ اکرم کنجاہی ایک پختہ شاعر ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز 1983 ء سے کیا۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب، صحافی اور نقاد بھی ہیں۔ وہ کراچی سے ایک ادبی پرچہ ’’غنیمت‘‘ کے نام سے بھی کئی برسوں سے باقاعدگی سے شایع کر رہے ہیں، وہ سنیئر وائس پریزیڈنٹ (آڈٹ چیف سندھ، بلوچستان نیشنل بینک آف پاکستان) ہیں۔
وہ ٹی وی چینل پر میزبانی کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ سوشل میڈیا خاص طور پر ’’ فیس بک‘‘ اور ادبی اخبار و جرائد میں بھی اپنی تحریروں کے برعکس نظر آتے رہتے ہیں۔ ’’شعری انتخاب‘‘ اور ’’انٹرنل آڈٹ ان بینکس‘‘ کے علاوہ ان کے کریڈیٹ میں تین طبع زاد شعری مجموعے ’’ ہجر کی چتا ، بگولے رقص کرتے ہیں اور محبت زمانہ ساز نہیں‘‘ موجود ہیں جب کہ ’’دامنِ صد چاک ‘‘ ان کا چوتھا شعری مجموعہ ہیں۔
جس میں زندگی کے تلخ وشیریں تجربات کو بڑی خوبصورت اور مہارت سے کشید کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا فلاپ انور شعور، شفیع عقیل، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اور شاعر علی شاعر کی آرا کو شامل کیا گیا ہے مگر اس کتاب کے اندرونی صفحات پر ڈاکٹر انور سدید اور جان کاشمیری کی آرا کو دیباچہ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
میں نے اس کتاب کا بھرپور مطالعہ کیا ہے اور میں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ جان کاشمیری کا دیباچہ بھاری ہے، کیونکہ انھوں نے اس کتاب کے ایک ایک لفظ کو پڑھ کر اپنے ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں سے اس کو بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
وہ اپنے اس مضمون کے اختتام پر لکھتے ہیں کہ’’ دامنِ صد چاک‘‘ میں لفظ غزلیں ہی نہیں محبت کی بھولی بسری بارہ نظمیں بھی شامل ہیں جو اپنے عنوانات کی انتہائی بلیغ اور دل میں اُترنے والی ترجمانی کرتی ہیں۔ مطالعہ کے دوران کہیں پلکیں بھیگ جاتی ہیں۔
کہیں روح میں چاہت کی گلابی کیاریاں ماحول کو خوشبودار بنا دیتی ہیں، کہیں سوچ کی برکھا دلوں کے بند دروازوں پر دستک کی رم جھم کرتی ہے۔ کہیں شام ہونے سے پہلے مرگِ آرزو کا نوحہ کانوں سے ٹکراتا ہے، کہیں محبت کے درمیان تشکر کی خلش سسکیاں بھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہیں ایک سے موسم اور سوغاتِ ہنر میں فرق واضح کیا گیا ہے المختصر زندگی کے تمام تر کونوں کھدروں میں پلنے والے بامراد اور نامراد لمحات کو حیطہ نظم میں لیا گیا ہے لیکن اس بات کا یقین ہے کہ نظم غزل کی سوتن نہیں، البتہ یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ نظم و غزل کی پگڈنڈیوں کی بے انت سیر و سیاحت پر نکلیں اور نشان دہی کریں کہ نظم و غزل میں شریک حیات کون ہے اور محبوبہ کا مقام کسے حاصل ہے۔‘‘