ہم اور بے زباں جانور
متناسب جسامت، گہری رنگت، نیلے رنگ کی وردی میں آدھی آستینیں پہنے سر پر ٹوپی اوڑھے، اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے سے رگڑ کر غالباً گرم کرنے کی کوشش کر رہا تھا نجانے کب سے وہاں کھڑا تھا۔
شام کا وقت کراچی کی دسمبر کے مہینے کے سرد دنوں میں ایسا نظر آنا کچھ عجیب سا تھا کیونکہ وہ این آئی سی وی ڈی کے باہر کھڑا تھا، یقینا نگرانی اس کی ڈیوٹی تھی پر بنا کسی گرم کپڑے کے اس کو وہاں یوں دیکھ کر احساس ہوا کہ یہ دنیا ہے، سرد جذبات رکھنے والے ان گنت انسانوں سے بھری، جو گزرتے چلتے پھرتے نجانے کتنے لوگوں کو نظرانداز کرتے چلے جاتے ہیں۔
جنھیں ہماری ہمدردی، مدد یا محبت اور خلوص کے چند بولوں کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں تو دل سے دعا ہی دیتے چلے جائیے کہ دنیا چلانے والا بہت عظیم ہے وہ سب کچھ دیکھ بھال کر ہی کرتا ہے، کہیں کوئی اجنبی اچانک فرشتہ بن کر کسی کی زندگی بچا کر لمحہ بھر میں یوں غائب ہو جاتا ہے کہ جیسے وہ اس دنیا کا باسی ہی نہ ہو اور وہ گارڈ۔۔۔۔
انسان کو انسان کی پہچان ہوتی ہے یا نہیں لیکن جانوروں کو انسان کے احساسات کی خوب سمجھ ہوتی ہے گو وہ زبان سے کچھ نہیں بول سکتے لیکن اچھے اور برے رویے خوب شناخت کر لیتے ہیں۔ابو روزانہ ناشتہ کرتے تھے تو ایک دن دروازہ کھلا تھا، ایک کوا آ کر بیٹھ گیا، ابو اسے ڈبل روٹی اور انڈہ دیتے رہے، میں نے ان سے کہا کہ آج آپ نے ناشتہ کرنا بھی ہے یا آپ اپنا سارا ناشتہ اس کوے کو کھلا دیں گے اس پر وہ بولے کچھ نہیں ہوگا۔
دونوں ہی کھا لیں گے مجھے اپنے کپڑے دھونے تھے جو میں پہلے ہی ٹب میں بھگو کر آئی تھی۔ ابو سے یہ بات کرنے کے بعد میں باہر چلی آئی تاکہ کپڑے دھو لوں، ابھی بیٹھی ہی تھی کہ اس کوے نے وہ انڈہ اور ڈبل روٹی میرے کپڑوں کے ٹب میں پھینک دی جیسے کہہ رہا ہو کہ ’’لو رکھو اپنے انڈے اور ڈبل روٹی۔‘‘ اس کے اس عمل پر میں دنگ رہ گئی کہ میں نے تو اپنے ابو سے کہا تھا یقینا اس میں کوے کے لیے ایک ناگوار جذبہ ضرور تھا، جیسے اس بے زبان جانور نے کس طرح محسوس کیا صرف یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے ردعمل سے بھی ظاہر کر دیا کہ اسے میری اس ناگواریت سے تکلیف پہنچی ہے اور اسے میری نوازش کی کوئی ضرورت نہیں۔
کراچی کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی کی معلمہ نے اپنی زندگی کے اس حیرت انگیز واقعے کو بیان کرتے ہوئے بتایا ’’کوا بہت سمجھ دار اور چالاک پرندہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں منفی اور مثبت جذبات کو سمجھنے اور ظاہر کرنے کی بھی صلاحیت دی ہے۔‘‘چارلس ڈارون کا نام سائنس کے نظریات کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتے ہیں وہ کہتا ہے ’’انسان اور جانوروں میں لطف اور درد، خوشی اور دکھ کو محسوس کرنے کی صلاحیت میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔‘‘
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ جانوروں میں شعور ہوتا ہے، مثلاً بلی کی اپنی عادت ہے کہ وہ اپنا بچہ کسی کھلی جگہ میدان وغیرہ میں پیدا کرنے سے احتراز برتتی ہے، کیا بلی میں ایک شرمیلی خاتون کی مانند اتنا شعور ہے کہ وہ نہ صرف بچے کے لیے بلکہ اپنے دیگر امور میں بھی مختلف عادات میں مبتلا نظر آتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح انسان مختلف عادات میں مبتلا ہوتے ہیں۔
جیسے انسان برتاؤ کرتے ہیں بہت سی بلیاں شرمیلے، بے باک اور شرارتی انداز میں دکھائی دیتی ہیں یہ خواص دیگر جانوروں میں بھی نظر آتے ہیں البتہ مقام و عوامل کے لحاظ سے ان میں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ چیل عام طور پر آبادی سے دور سنسان مقامات پر نظر آیا کرتی تھی لیکن آج کل بڑھتی ہوئی آبادی میں یہ انسانوں کے درمیان ہی گھروں کی چھتوں، میناروں پر گھونسلے بنا لیتی ہیں، البتہ ان کی عادات خطرناک حد تک انسانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
’’میرے ساتھ میری بارہ تیرہ سالہ بھتیجی بھی تھی، ہم لوگ شام کے وقت چھت پر ٹہلنے نکلے تھے، ہمارے سامنے والے گھر کی منڈیر کے ساتھ چیل نے اپنا گھونسلا بنانا شروع کیا تھا، اس وقت بھی وہ اتفاق سے چھت کی منڈیر پر بیٹھی تھی، ’’اوفوہ۔۔۔۔ یہ چیل یہاں بیٹھی ہے توبہ ہے بھئی!‘‘ میری بھتیجی نے اسے دیکھتے ہی منہ بنایا تھا۔
’’نہیں بیٹا! ایسے نہیں کہتے، یہ بھی تو مخلوق ہے اللہ تعالیٰ کی، تم اس کے بارے میں اگر برا سوچو گی تو اسے فیل ہوگا ناں۔‘‘
’’چیل کو کیسے پتا چلے گا پھوپھو!‘‘ بچی نے مسکرا کر کہا، اور تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ چیل اس کے اتنے نزدیک سے گزری کہ خوف سے اس کی چیخ نکل گئی۔ اس وقت وہ مجھ سے فاصلے پر تھی۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ میں بھی اس سے اتنا دور نہ تھی بلکہ چیل مجھے آرام سے فوکس کر سکتی تھی اور میں نے تو بچی کو صرف اللہ کی مخلوق کے لیے منفی سوچ نہ رکھنے کے باعث کہا تھا کہ چیل کو برا محسوس ہوگا۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ واقعی اس وقت میرے دل سے ایسا ہی خیال ابھرا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ اس نے فوراً اپنا ردعمل ظاہر بھی کر دیا کہ اسے اس بچی کی بات کی سمجھ آگئی تھی اسے اچھا نہیں لگا وہ اسے چوٹ بھی پہنچا سکتی تھی لیکن اس نے صرف ڈرانے پر ہی اکتفا کیا یہ میرے لیے عجیب تھا۔
جانوروں اور شعور کے درمیان کیا واقعی کوئی تعلق ہے یا نہیں، سائنس دان اس پر تحقیقات کر رہے ہیں، اس پر باتیں بھی بنائی جا رہی ہیں، مذاق اڑایا جا رہا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ جانور بھی انسانوں کی طرح محبت، پیار اور نفرت کو سمجھتے ہیں اس پر کتنی بھی تحقیق کی جائے۔
قدرت کے اس عمل کی نفی نہیں کی جاسکتی لیکن دنیا میں انسانوں کے رویے اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ جس انداز سے اختیار کیے جا رہے ہیں وہ حیران کن ہے، ہم جلد باز، غصہ آور، تعصب، برتری کا احساس، چڑچڑے پن اور حسد کینہ میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔
ہم فوراً ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے کھڑے ہو جاتے ہیں، پل بھر میں آتشیں ہتھیاروں سے ایک دوسرے کا خون کرنے پر تل جاتے ہیں، اس کی وجہ چاہے ایک گالی، ایک مکروہ ہنسی، ہلکا سا دھکا یا چند پیسے ہی کیوں نہ ہو، ہماری عزت پر بن آتی ہے۔ گھروں میں لڑائی جھگڑے، قتل و غارت گری میں بدل جاتے ہیں۔ پر ہم بے حسی کے زہر میں گھلتے جا رہے ہیں، سرد بے رحم جذبات ہمیں گھیر رہے ہیں حالانکہ ہم بے زبان جانور تو نہیں، بولتے بھی ہیں ، سمجھتے بھی ہیں، پڑھتے بھی ہیں اور عبادت بھی کرتے ہیں پھر بھی جانور بننے میں ذرا دیر نہیں کرتے آخر کیوں؟