دنیا کے یہ دانا دانشور لوگ بھی بڑے احمق ہوتے ہیں، ایسی ایسی باتوں کو بھی’’دانش‘‘ بنا دیتے ہیں جو ’’اے لاٹ آف‘‘ حماقت ہوتے ہیں۔ معاف کیجیے! میں پاکستان کے ان دانا دانشوروں کی بات نہیں کررہا ہوں جو اخبارات اور چینلات میں لمبی لمبی دانش کا رائتہ پھیلاتے ہیں کیونکہ ان کے لیے تو دنیا بھر کے لوگ کان بچھائے رہتے ہیں کہ یہ کچھ ارشاد فرمادیں اور اس پر عمل کے لیے دوڑ پڑیں۔
چنانچہ یہ دانشور ہر صبح اخباروں میں اور ہر شام چینلات میں اپنی دانش یوں پھیلاتے ہیں جیسے پاکستان کے عوام سے لے کر لیڈروں تک، حاکموں سے لے کر محکموں تک، اور دنیا بھر کے حکمران ان ہی کی سننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں بلکہ ہم ان دانشوروں کی بات کررہے ہیں جو خود تو دنیا کو حتی الوسع اپنی دانشوں سے بگاڑ کر دوسری دنیا کو فرار ہوچکے ہیں۔
ان میں ایک تو’’شیخ پیر‘‘تھا جو یہاں چیچوں کی ملیاں سے جاکر برطانیہ میں ’’شیکسپیئر‘‘ہوگیا تھا اور وہاں حماقتیں پھیلانے کی دکان ڈال دی، ویسے تو اس کی حماقت مآب ’’دانشوں‘‘کا شمار نہیں لیکن ہم صرف اس کا ایک’’قول خاکین‘‘ کا ذکر کریں گے۔
اس نے قلوپطرہ کے بارے میں کہا تھا کہ’’ وہ آئی، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا‘‘ حالانکہ وہ بیچاری پیدائش سے لے کر آخری سانس تک’’مفتوح‘‘ رہی تھی۔ فاتح اسے فتح کرتے رہے، مفتوح شہر کی طرح لوٹتے رہے بلکہ پاکستان کی طرح پامال کرتے رہے، نوچ نوچ کر کھاتے رہے۔اور یہ دانشورکہتا ہے وہ آئی، دیکھا اور فتح کرلیا۔
دانشور کہیں کا۔دوسری مثال اردو ادب کے دانشوروں نے یہ پیش کی ہے۔ افسانے کے ذکر میں لکھ گئے کہ دنیا کا سب سے چھوٹا افسانہ یہ ہے کہ’’ایک شخص نے کہا کہ بھوتوں کو نہیں مانتا۔ دوسرے نے کہا، میں مانتا ہوں اور غائب ہوگیا۔‘‘اب اس میں افسانہ کہاں ہے بلکہ یوں کہیے کہ وہ شخص یا بھوت جو غائب ہوگیا،اپنے ساتھ افسانے کا مطلب جب کہ دانشوروں کے دماغ بھی لے گیا۔
اس سے بہتر تو محترمہ ’’انار دانہ ‘‘ کا افسانہ ہے، اس نے کہا، میں نے چالیس مردوں کے ساتھ معاشقہ کیا اور معلوم ہوا کہ ’’مرد بے وفا ہوتے ہیں‘‘۔اسے کہتے ہیں افسانہ،جس اینگل سے بھی دیکھیے مکمل افسانہ ہے۔جس میں پلاٹ بھی ہے، تھیم بھی ہے، فلسفہ بھی ہے، کردار نگاری بھی ہے، سسپنس بھی ہے اور کلائی میکس بھی ہے۔
افسانے میںکیا حقیقت بیانی ہے،کیا نکتہ آفرینی ہے اور کیا فلسفہ دانی ہے بلکہ اس میں ’’خبر‘‘ بھی ہے، تبصرہ بھی،تجزیہ بھی، مشاہدہ بھی اور ایڈونچر بھی۔ یقین کیجیے محترمہ ’’اناردانہ‘‘ کا یہ طویل مختصر افسانہ ہمیں اتنا اچھا لگا کہ ہم بھی کوشش کرنے لگے کہ اناردانہ جیسا کوئی شاہکار تصنیف کریں۔ ایک اس کے پاس تو تجربہ بہت تھا جب کہ ہمارے پاس ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
سوچتے رہے، مطالعہ اور مشاہدہ کرتے رہے۔ایک لطیفہ نما حکایت ہاتھ آئی لیکن اس میں ایک نام بہت ہی ڈروانا ہے اور ہم ٹھہرے دنیا کے ڈرپوک نمبر ون۔یہ افسانہ کچھ ایسا ہے کہ ایک خان صاحب اور ایک ’’اُس‘‘میں دوستی ہو گئی۔
یہ اس ’’اُس‘‘کا نام اس لیے نہیں بتاسکتے کہ ہمیں نہ تو ابھی اپنا سرگردن سے اتروانے کا شوق ہے اور نہ ہی سنگسار ہونے کا۔اس لیے صرف ’’اُس‘‘ پر گزارہ کیجیے۔تو ایک خان اور’’اُس‘‘ میں دوستی تھی۔ ایک دعوت میں دونوں اکٹھے ہوئے۔تو ’’اس‘‘ نے خان صاحب سے کہا، وہ جو آپ نے فلاں جنگ لڑی تھی، اس میں کیا ہوا تھا۔یہ پوچھنے پر خان صاحب شروع ہوگئے، نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے ہاتھوں پیروں سے بھی جنگ کا حال بتانے لگے۔
بعض اوقات واقعات میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے دسترخوان سے اٹھ کر عملی نمونہ بھی پیش کردیتے ۔ جنگ کا حال سنانے کے بعد جب وہ کھانے کے لیے بیٹھے۔تو تب تک ’’اُس‘‘ نے دستر خوان پر پڑا سارا مال ومتاع ہڑپ کرلیا تھا اور خان صاحب کے لیے صرف پتلا پانی شوربا باقی بچا تھا۔خان صاحب اتنے بھی نادان نہ تھے، سمجھ گئے کہ ’’اس‘‘ نے اسے کہانی پر لگاکر’’ماجرا‘‘ کردیا ہے۔
کچھ بولے نہیں لیکن ٹھان لیا کہ اگلی دعوت میں ’’اُس‘‘ سے بدلہ لیں گے اور ایسا موقع بہت جلد آبھی گیا۔دسترخوان پر آمنے سامنے بیٹھتے ہی خان صاحب نے ’’اُس‘‘ سے پوچھا۔ قصہ یوسف زلیخا کے بارے میں اکثر سنتے ہیں، یہ کیا داستان تھی۔ خان صاحب کا خیال تھا کہ داستان خاصی طویل ہے اور جب تک یہ سنائے گا، میں کام دکھا چکاہوں گا اور اپنا بدلہ لے لوں گا۔
لیکن ’’اس‘‘ نے ایک بڑا سا نوالہ منہ میں رکھا اور اسے چباتے چباتے کہا، ایک لڑکا تھا جو کھوگیا تھا اور پھر مل گیا تھا۔اور نوالوں پرحملے میں مصروف رہا۔یہ کہانی پڑھ کر ہمارے ذہن میں بھی ایک چھوٹے ترین افسانے کا خاکہ بننے لگا لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی اڑچن آہی جاتی تھی، یوں کہیے کہ کوئی نہ کوئی ’’ڈر‘‘ ہمیں ڈرادیتا تھا کیونکہ آج کل پاکستان میں طبقات، برادریاں، ذاتیں ، تنظمیں اور جماعتیں نہیں بلکہ صرف گینگ ہی گینگ بنتے ہیں۔
سفید گینگ، سبزگینگ، سرخ گینگ، چتکبراگینگ،بلیک گینگ، براؤن گینگ وغیرہ وغیرہ ۔مطلب یہ کہ جن کو نہ ہو جان ودل عزیز، اس کی گلی میں جائے ۔اب کیا پتہ کوئی ایسا لفظ ہمارے قلم سے نکل جائے جو ان میں سے کسی بھی گینگ کو ناگوار گزرے تو؟؟؟اس تو؟ کے بعد نہ رہے گا بانس نہ بجے گی ہماری بانسری۔جس کا افسانے میں ذکر ہی نہ ہو۔ایک دن ہمیں ایک چیک پوسٹ پر صرف اس لیے ایک طرف بٹھایا گیا تھا۔کہ ہمارے سارے کا غذات و اندراجات ’’درست‘‘ پائے گئے تھے۔
چیکنگ کرنے والوں کا شبہ تھا کہ عموماً عام لوگوں کے کاغذات واندراجات اتنے ’’درست‘‘ نہیں ہوتے ،کوئی نہ کوئی غلطی یا بھول چوک ضرور ہوتی ہے جسے درست کرنے کے لیے چیکنگ کا عملہ’’قائد اعظم‘‘ کی تصویر سے رہنمائی حاصل کرتا رہتا ہے لیکن ہمارے کاغذات واندراجات اتنے زیادہ’’درست‘‘ اس لیے ہیں کہ ہم کوئی نہ کوئی خطرناک واردات کرنے جارہے ہیں۔
ہمیں ایک طرف بٹھاکر وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئے تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک ناصح مشفق نے ہمیں سمجھایا کہ فارغ ہوکر وہ دلجمعی کے ساتھ ہماری تفتیش کریں گے اور وہ تفتیش ایسی ہوگی کہ ہم دنیا بھر کے جرائم کا اقرار کرلیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہنوٹ کی برکات حاصل کریں۔ سو ہم نے ویسا ہی کرکے جان چھڑائی۔اگر آپ کسی کو نہ بتانے کا وعدہ کریں تو اپنے پاکستان کا سب سے چھوٹا افسانہ ہمارے ذہن میں آچکا ہے جو صرف تین الفاظ پر مشتمل ہے۔ لایئے کان ادھر لایئے اور سنئے۔
’’وہ آئے،لوٹا اور چلے گئے‘‘ یعنی نیولے نے سانپ کو نگل لیا، سانپ نے نیولے کو۔اور دونوں نے ایک دوسرے کو نگل لیا۔