سقوط ڈھاکا ہم پاکستانیوں کے لیے ایک تاریخی اندوہناک سانحہ تھا جس کا غم شاید ہم کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ اس حادثے کو ہم تو اپنی غلطی کے طور پر دیکھتے ہیں مگر بھارت اسے اپنی برتری اور بہادری ظاہرکرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ اس سانحے کا سب سے تکلیف دہ پہلو جنرل نیازی کی بھارتی کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تقریب تھی۔
بھارت نے اس تصویر کا دنیا بھر میں خوب خوب استعمال کیا تھا۔ اس تصویر کو بھارتی حکومت بہت اہمیت دیتی رہی ہے۔ اسے اہم سرکاری عمارتوں میں آویزاں کیا جاتا رہا۔ ہر قومی دن پر اخبارات میں اسے صفحہ اول پر خاص اہتمام کے ساتھ شایع کیا جاتا رہا ہے حتیٰ کہ اسے وزیر اعظم کے دفتر اور فوجی سربراہ کے دفتر میں آویزاں کیا گیا تھا جس کا مقصد اسے غیر ملکی اعلیٰ شخصیات کی توجہ کا مرکز بنانا رہا ہے۔ اس تصویر کے ذریعے بھارتی حکومت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ پاکستان اس کے آگے ایک شکست خوردہ ملک ہے۔
اب تازہ خبر یہ ہے کہ بھارتی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشوک کمار نے اسے اپنے دفتر سے ہٹا دیا ہے اور ایک نئی پینٹنگ آویزاں کر دی ہے۔ یہ پینٹنگ نئے آرٹ ورک کرم کھیترا کی عکاس ہے۔ اس نئی پینٹنگ کو ’’فیلڈ آف ڈیڈز‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں بھارت اور چین کی سرحد کے ساتھ واقع پینگوئن جھیل کو دکھایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی جدید فوجی ساز و سامان جس میں جدید غیر ملکی ٹینک اور اپاچی ہیلی کاپٹر کے ساتھ ماضی کی مہا بھارت جنگ میں کو بھی بطور خاص دکھایا گیا ہے۔ اس نئی پینٹنگ کا مقصد دراصل مودی حکومت کا چین کو مرعوب کرنے کے لیے اپنی جدید فوجی تیاریوں سے آگاہ کرنا ہے۔ یہ پینٹنگ چین کو واضح پیغام دیتی ہے کہ بھارتی فوج کی تیاری اور جدید فوجی ساز و سامان چین کی ٹکر کا ہے۔ وہ چین کی طرف سے درپیش چیلنج سے بخوبی نمٹنے کے لیے تیار ہے تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی پینٹنگ چین کو مرعوب کرنے کے بجائے ہندو توا نظریے کی عکاس ہے۔
بھارتی فوج پہلے ضرور سیکولر نظریے پر یقین رکھتی تھی مگر اب مودی نے اسے ہندوتوا کے نظریے میں رنگنے کی کوشش کی ہے کیونکہ نئی پینٹنگ میں جہاں بھارت کے پاس موجود جدید فوجی اسلحے کو دکھایا گیا ہے وہاں مہا بھارت جو ماضی کی افسانوی ہندو رزمیہ کامیابیوں کی عکاس جنگ ہے کو خاص طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔
کانگریس اور بی جے پی کے نظریات میں زبردست اختلافات ہیں۔ کانگریس سیکولر نظریات کی حامل سیاسی پارٹی ہے، اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جب کہ بی جے پی ایک کٹر مذہبی پارٹی ہے جو پورے بھارت کو ہندو توا نظریے میں رنگنا چاہتی ہے، وہ چونکہ آر ایس ایس جیسی کٹر مسلم دشمن پارٹی کی ترجمان ہے چنانچہ وہ کانگریس کو ہندوستان کی تقسیم کا ذمے دار مانتی ہے جب کہ مہاسبھا اور آر ایس ایس خود ہندوستان کی تقسیم کی ذمے دار ہیں۔
شاید مسلمان ہندوستان کو ٹوٹنے نہ دیتے اگر ان کے ساتھ تعصب نہ برتا جاتا اور ہندو اکثریت والے صوبوں میں ان کا قتل عام نہ کیا جاتا۔ صوبہ بہارکی مثال سب کے سامنے ہے کہ وہاں کے مسلمانوں کا آر ایس ایس اور مہاسبھا کیکارکنوں نے جینا حرام کردیا تھا جس کی وجہ سے کافی مسلمان بہار چھوڑ کرکراچی منتقل ہو گئے تھے جب کہ ابھی پاکستان کا قیام عمل میں بھی نہیں آیا تھا۔ دراصل یہ دونوں انتہاپسند تنظیمیں انگریزوں کی حلیف تھیں۔ بی جے پی ان ہی دونوں جماعتوں کی مشترکہ اولاد ہے ۔
اب تو حالات یہ ہیں کہ بھارت دو نظریات میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک وہ طبقہ ہے جو ساورکر اور ناتھو رام گوڈسے کو اپنا ہیرو مانتا ہے اور دوسرا طبقہ گاندھی اور نہرو کو بھارت کا ہیرو قرار دیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بھارت کی آزادی میں آر ایس ایس یا مہاسبھا کا کوئی کردار نہیں تھا۔ انھیں بھارت کی آزادی سے کوئی سروکار نہیں تھا مگر اب وہ خود کو بھارت کی آزادی کا علم بردار کہتی ہیں اور کانگریس کو الٹا انگریزوں کا دوست قرار دیتی ہیں۔ آج کل مودی کی حکومت میں گاندھی اور نہرو کے خلاف کھلم کھلا پرچار جاری ہے۔
1971 میں کانگریس کی سازشوں اور جارحیت کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا تھا، بی جے پی پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی تو معترف ہے مگر اس کا کریڈٹ اندرا گاندھی کو نہیں دیتی اور شاید اسی لیے اس نے ہندوتوا نظریے کی عکاس پینٹنگ بھارتی فوج کے سربراہ کے کمرے میں لگوا دی ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں انقلاب کے بعد ہتھیار ڈالنے کی تصویر کی کوئی وقعت نہیں رہی ہے۔ پھر اب بنگلہ دیش بھارت کے چنگل سے آزاد ہو چکا ہے اور پاکستان کے قریب آچکا ہے۔ بھارت سرکار کے رویے میں یہ تبدیلی پاکستان اور بھارت کو قریب بھی کر سکتی ہے۔