خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں خاصے عرصے سے حالات خراب چلے آ رہے ہیں، گزشتہ روز خیبرپختونخوا کی صوبائی ایپکس کمیٹی کا اہم اجلاس پشاور میں ہوا، اس اجلاس کی صدارت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے کی۔
صوبائی ایپکس کمیٹی کے اس اہم اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، خیبرپختونخوا کابینہ کے ارکان آفتاب عالم، بیرسٹر محمد علی سیف اور مزمل اسلم، کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمر احمد بخاری، چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا ندیم اسلم چوہدری، انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات خان گنڈا پور، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ محمد عابد مجید کے علاوہ اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں ضلع کرم سمیت خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور امن وامان کے حوالے سے تبادلہ خیالات کیا گیا اور صوبے میں قیام امن کے لیے لائحہ عمل طے کر کے اہم فیصلے بھی کیے گئے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا کی ایپکس کمیٹی نے قبائلی ضلع کرم میں خصوصاً پارہ چنار میں قیام امن کے لیے دونوں متحارب فریقوں سے اسلحہ جمع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فریقین تمام اسلحہ جمع کریں گے جس کے لیے وہ حکومت کی ثالثی میں آپس میں ایک معاہدے پر دستخط کریں گے۔
معاہدے میں رضاکارانہ طور پر اسلحہ جمع کرنے کے لیے دونوں فریق 15 دنوں میں لائحہ عمل دیں گے۔ یکم فروری تک تمام اسلحہ انتظامیہ کے پاس جمع کیا جائے گا اور اسی عرصے میں علاقے میں قائم تمام بنکر ز بھی مسمار کیے جائیں گے۔ اجلاس میں ضلع کرم کے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے طویل مشاورت کے بعد لائحہ عمل کو حتمی شکل دے دی گئی۔
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنا، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا صوبائی حکومت کی ہی نہیں بلکہ وفاق کی بھی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ضلع کرم میں عرصے سے قتل وغارت جاری ہے لیکن اس حوالے سے جو اقدامات ہونے چاہیے تھے، وہ نہیں ہوئے۔ صوبائی حکومت کے ماتحت پولیس اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی رٹ کہیں نظر نہیں آئی۔
قبائلی گروہ خود ہی اپنی مرضی سے جو چاہتے وہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بہرحال دیر آید درست آید خیبرپختونخوا کی صوبائی ایپکس کمیٹی میں جن جن معاملات پر غور ہوا ہے اور جو کچھ میڈیا میں آیا ہے، اس کے حوالے سے بھی اگر سنجیدگی سے قانون پر عملدرآمد کر کے قانون کی اور حکومت کی رٹ قائم کر دی جائے تو پارہ چنار ہی نہیں بلکہ پورے کرم ضلع میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے وفاقی حکومت کو بھی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے وفاق اور وفاقی حکومت کے ساتھ اختلافات اپنی جگہ رہے لیکن آئین اور قانون کی عملداری قائم کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔
دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے ڈھلمل پالیسی چاہے وہ صوبائی حکومت کی ہو یا وفاق کی، اسے کسی صورت سراہا نہیں جا سکتا کیونکہ پرامن ماحول میں زندگی گزارنا اور کاروبار کرنا پاکستان کے عوام خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ پاکستان کا آئین اس حق کی تصدیق کرتا ہے۔ حکومت چاہے وفاق کی ہو یا صوبے کی، اس حکومت کو چلانے والوں پر آئین پر عمل کرنا لازم ہے، اگر کوئی حکومت یا حکومت کا کوئی کل پرزہ آئین اور قانون کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کے بنیادی حق کے خلاف کام کر رہا ہے، اس لیے اس قسم کے حکومتی عہدیداروں یا سرکاری افسروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
کیونکہ وفاقی حکومت کا وزیراعظم ہو، اس کی کابینہ ہو، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان ہوں، وفاقی حکومت کے افسر اور ملازمین ہوں، صوبائی وزیراعلیٰ ہو، اس کی کابینہ ہو، صوبائی اسمبلی کے ارکان ہوں یا صوبے کے سرکاری افسر اور ملازم ہوں، ان سب کو پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور دیگر مراعات بغیر کسی رکاوٹ کے ماہانہ بنیادوں پر تسلسل سے ادا کی جاتی ہیں، یہ تنخواہیں اور سہولتیں اسی لیے ادا کی جاتی ہیں کہ وہ آئین اور قانون میں درج اپنی ذمے داریاں اور فرائض کو پوری ایمانداری اور تندہی سے انجام دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو قومی خزانے سے انھیں تنخواہ اور مراعات لینے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔
میڈیا کے مطابق خیبرپختونخوا صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی طے ہوا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ضلع کرم کا زمینی راستہ وقفے وقفے سے عارضی طور پر کھول دیا جائے گا اور سیکیورٹی میکنزم ترتیب دیا جائے گا۔ پولیس و ایف سی اہلکار قافلوں کو مشترکہ طور پر سیکیورٹی فراہم کریں گے۔ ہنگامی بنیادوں پر خصوصی ائیر سروس شروع کی جائے گی جس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیلی کاپٹر فراہم کریں گی۔
علاقے میں فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے والے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کا بھی فیصلہ ہوا۔ ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ضلع کرم کے عمائدین کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ حالات کی نزاکت، صوبائی حکومت اور پاکستان کی مشکلات سمجھیں۔ پاکستان کے دشمن مختلف روپ اختیار کر کے عوام کو کنفیوژ کر رہے ہیں۔ ملک پر پراپیگنڈہ وار مسلط ہے۔
صوبوں اور قومیتوں کو آپس میں لڑانے کے لیے نسلی، لسانی، مذہبی اور مسلکی نفرتوں کو ابھارا جا رہا ہے۔ ملک کے فہمیدہ حلقوں کو دشمنوں کی اس حکمت عملی کو سمجھنا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی اس حوالے سے اپنی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ملک کی مین اسٹریم پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو دہشت گردی کے خلاف غیرمبہم اور دلیرانہ مؤقف اختیار کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان کو بچانے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔
میڈیا میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پشاور ایپکس کمیٹی نے تیراہ اور جانی خیل میں سیکیورٹی کی تازہ صورتحال کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اجلاس کو بریفنگ دی گئی جس میں بتایاگیا کہ ان علاقوں میں پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ضلع کرم کا مسئلہ صرف علاقائی نہیں بلکہ ایک قومی اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔
اس مسئلے پر کسی کواپنی سیاست چمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مسئلے پر بعض سیاسی قائدین کی طرف سے سیاسی بیانات قابل افسوس ہیں۔ ضلع کرم کے مسئلے پر صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور تمام متعلقہ ادارے ایک ہی پیج پر ہیں۔ ادھر ضلع ٹانک میں سیکیورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کے دوران انتہائی مطلوب دہشت گرد سمیت 7 دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا ہے۔
یہ آپریشن 17 اور 18دسمبر کی درمیانی شب کیا گیا۔ ایک معروف امریکی ملٹری ایڈوائزر جان روزن برگ نے امریکی اخبار شکاگو ٹریبیون میں اپنے آرٹیکل میں پاکستان کے عالمی سطح پر مثبت کردار کو سراہاہے۔ جان روزن برگ، افغان نیشنل آرمی کے سابق ملٹری ایڈوائزر بھی رہے ہیں۔
انھوں نے شکاگو ٹریبیون میں آرٹیکل لکھا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ محفوظ عالمی بحری تجارت میں بھی پاکستان کا اہم کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔عالمی امن کی خاطر پاکستان اب تک 153 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے۔
پاکستان انتہائی مشکل معاشی حالات کے باوجود سالانہ دو ارب ڈالر انسداد دہشت گردی آپریشنز پر خرچ کر رہا ہے۔ آرٹیکل میں پاکستان کے سیاسی حالات کا بھی احاطہ کیا۔ پاکستان ایک پھلتی پھولتی جمہوریت ہے، پاکستان میں باقاعدگی سے انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کے امن مشن میں بھی پاکستان کا کردار دیگر ممالک سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پاکستان کو منفی نظر سے دیکھنا اس کی عالمی امن کے لیے خدمات کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔وقت آ گیا ہے عالمی برادری پاکستان کو متوازن نظر سے دیکھے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ دنیا میں شاید کسی دوسرے ملک نے اتنی طویل جنگ نہیں لڑی۔ اس جنگ میں پاکستان نے بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود دہشت گردوں کو شکست دی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے ہمسایہ ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مل رہی ہیں، انھیں آزادی سے نقل وحرکت کی بھی آزادی ہے اور ان کی تربیت گاہیں بھی پوری آزادی سے کام کر رہی ہیں۔ ان کی فنانشل لائف لائن بھی انھی محفوظ پناہ گاہوں کی بدولت قائم ہے۔
افغانستان کی حکومتوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے تاہم افغانستان میں حالیہ عبوری سیٹ اپ قائم ہونے کے بعد اس خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ پاکستان میں موجودہ افغانستان کی حکومت کو بار بار دراندازی کے بارے میں بھی بتایا ہے اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ دہشت گرد افغان سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود افغان حکومت اپنے ملک میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں ناکام رہی ہے۔