56 سال کی قانونی جنگ کے بعد بہن نے بھائی کو سزائے موت سے بچالیا

ایوائو ہاکاماتا کی بریت سے جاپان کی طویل ترین قانونی لڑائی کا خاتمہ ہوگیا

56 سال سے زائد کی قانونی جنگ کے بعد بہن نے اپنے بھائی کو سزائے موت سے بچالیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جاپان کی عدالت نے گزشتہ ماہ دنیا کی سب طویل قید کاٹنے والے سزائے موت کے قیدی کو بے گناہ قرار دیکر رہا کردیا جس سے جاپان کی طویل ترین قانونی لڑائی کا خاتمہ ہوگیا۔

جاپان کے شہر ہماتسو سے تعلق رکھنے والے 81 سالہ ایوائو ہاکاماتا کو 1968 میں چار افراد کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایووائو ہاکاماتا کی 91 سالہ بہن ہیڈیکو ہاکاماتا نے اپنے بھائی کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے طویل قانونی جنگ لڑی اور اپنی نصف عمر اسی میں گزار دی، وہ اپنے بھائی کی جانب سے ایک قانونی معاون کے طور پر عدالت میں پیش ہوئیں۔

بہن نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ جب ایوائو کو بتایا گیا کہ اسے بری کیا جارہا ہے تو اسے بلکل یقین نہیں آیا اور وہ خاموش رہا۔

واضح رہے کہ جاپان میں سزائے موت کے قیدیوں کو صرف چند گھنٹے پہلے ہی پھانسی کی اطلاع دی جاتی ہے اور قیدی ہر وقت یہی سمجھتے ہیں کہ آیا آج ان کا آخری دن ہوگا۔

انسانی حقوق کے ماہرین نے طویل عرصے سے اس طرح کے سلوک کو ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے قیدیوں کو سنگین ذہنی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ایوائو ہاکاماتا نے اپنی نصف سے زیادہ زندگی پھانسی کے انتظار میں قید تنہائی میں گزاری باوجود اس کے کہ جرم کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ایواؤ جس پروسیسنگ پلانٹ پر کام کرتے تھے وہاں سے 30 جون 1966 کو انکے باس، اسکی بیوی اور دو نوعمر بچوں کی لاشیں ملی تھیں جنہیں چاقو مار کر قتل کیا گیا تھا۔

واقعے کے ایک سال دو ماہ بعد 1968 میں جائے وقوعہ کے قریب سے ایوائو ہاکاماتا کے کپڑے ملنے پر انہیں اس قتل میں ملوث قرار دے دیا گیا۔

حکام نے ایوائو ہاکاماتا پر چاروں افراد کے قتل، ان کے گھر کو آگ لگانے اور 200,000 ین کی نقدی چوری کرنے کا الزام لگایا، 1980 میں اسے موت کی سزا سنائی گئی۔

ایواوٗ ہاکاماتا نے 1981 میں دوبارہ مقدمے کی سماعت کی درخواست دائر کی جسے مسترد کر دیا گیا، 2008 میں انہوں نے دوسری بار درخواست دائر کی۔

 شیزوکا ڈسٹرکٹ کورٹ نے 2014 میں ان کی دوبارہ سماعت کی درخواست منظور کرلی اور اسی سال ہاکاماتا کو رہا کر دیا گیا تاہم کیس کی دوبارہ سماعت 2023 میں شروع ہوئی۔

کیس کی دوبارہ سماعت کے بعد بلآخر گزشتہ ماہ ستمبر 2024 میں اس کیس کا فیصلہ سنادیا گیا، صدارتی جج کوشی کنی نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ لباس کو تفتیشی حکام نے پروسیس کیا اور وہاں چھپایا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ثبوت من گھڑت تھے۔

Load Next Story