جرمنی میں اپنی کار سے شہریوں کو کچلنے والے طالب المحسن نفسیات کا ڈاکٹر تھا جس نے ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالب المحسن نے تفتیش کاروں کو اپنے بارے میں بتایا کہ وہ ایک سابق مسلمان ہے اور اس کا تعلق سعودی عرب کے شہیر الھوف سے ہے۔
50 سالہ ماہر نفسیات طالب المحسن نے مزید بتایا کہ وہ یورپ میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے سے خائف اور غصے میں تھا۔
گرفتار ملزم نے یہ بھی بتایا کہ وہ سعودی عرب کا شدید مخالف تھا اور اسی لیے 2006 میں جرمنی میں آکر بس گیا تھا کیوں کہ اپنے وطن میں محفوظ نہیں تھا۔
جرمنی کے شہر برنبرگ میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے والے طالب المحسن نے سعودی عرب سے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی مدد کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی بنایا تھا۔
طالب المحسن نے سعودی عرب سے فرار ہو کر جرمنی آنے والی خواتین کو اکساتے ہوئے اپنی حمایت کا یقین بھی دلایا تھا۔ اعلان کیا تھا۔
تاہم بعد میں وہ جرمنی کا مخالف ہوگیا اور اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ میرا مشورہ ہے جرمنی میں سیاسی پناہ نہ لیں۔
طالب المحسن نے دوبارہ سے اسلام مخالف ٹویٹس کو دوبارہ شائع کرنا شروع کیا اور لکھا کہ اسلام پسندی سے لڑنے میں یورپ ناکام ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ منشیات کے نشے میں دھت طالب المحسن نے تیز رفتار شہریوں پر چڑھا دی تھی جس میں 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
جس پر انھیں گرفتار کرکے قتل کی کوشش کے 205 الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
ابھی تک واضح نہیں کہ اس قتل عام کے محرکات کیا ہیں تاہم طالب المحسن کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ماہر نفسیات کا خود ذہن الٹ گیا ہے اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوگئے۔
دوسری جانب سعودی عرب کے حکام کا کہنا ہے کہ طالب المحسن کی سوشل میڈیا پر مہم پر نظر رکھے ہوئے تھے اور جرمنی کو متعدد بار اس شخص کے جارحانہ عزائم سے آگاہ کیا تھا۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ہماری تنبیہ کے باوجود جرمنی کی حکومت نے اس شخص کی نگرانی نہیں کی جو نفرت انگیز مواد پھیلانے اور شرانگزیوں میں ملوث تھا۔