بشار الاسد کے ’قصاب‘ کے نام سے مشہور سفاک جیلر کے اپنے عالیشان گھر سے فرار کی کہانی
بشار الاسد کے آمرانہ دورِ حکومت میں جیلوں کے نگراں جمیل حسن ایک سخت گیر آفیسر تھے جو شہریوں میں قصاب کے نام شہرت رکھتے تھے لیکن گھر بار چھوڑ کر فرار ہوتے ہوئے ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے جمیل حسن کے پڑوسی اور دیگر عینی شاہدین سے سابق جیلر کی اپنے عالیشان گھر کو جلد بازی میں چھوڑ کر فرار ہونے کی داستان جانی۔
پڑوسیوں نے بتایا کہ جس دن جمیل حسن ایک چھوٹی سی کار میں مختصر سے سیکیورٹی قافلے کے ہمراہ جلد بازی میں گھر فرار ہو رہے تھے تو ہم سمجھ گئے کہ بشار حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
پڑوسیوں نے مزید بتایا کہ دو ہفتوں قبل یہ منظر ہم نے اپنی بالکونی سے دیکھا۔ جمیل حسن بمشکل چند سوٹ کیس ہی اپنے ساتھ لے جا سکے اور اتنی مہلت بھی نہ ملی کہ پلٹ کر اپنے گھر کو ایک نظر دیکھ لیں۔
پڑوسیوں کے بقول چند روز بعد ہم لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ ریفریجریٹر میں ادھ کھایا ہوا کیک، بستروں پر بکھرے کپڑے، جوتوں کے خالی ڈبے، گُلدان میں مُرجھائے پھول اور سِنک کے پاس کپ اور پلیٹیں بتا رہی تھیں کہ مکین عجلت میں گئے ہیں۔
جمیل حسن کا شمار بشار الاسد کے سفاک ترین افسران میں ہوتا تھا۔ وہ تھے تو ایئرفورس انٹیلی جنس کے سربراہ لیکن سخت گیری کے باعث انھیں جیلوں کا نگراں بھی بنایا گیا تھا۔
بدنام زمانہ مزہ جیل میں قیدیوں پر نت نئے تشدد کے بے رحمانہ طریقوں نے جمیل حسن کو ملک میں قصاب کے نام سے شہرت دی۔
گھر کے اندر اسٹڈی روم میں جمیل حسن اور بشار الاسد کی تصویر اب بھی لٹکی ہوئی ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ ہمارا آسماں ہے اور کسی اور کو یہاں آنے کی اجازت نہیں۔
جمیل حسن جس علاقے میں رہتے تھے آس پاس کے مکینوں کا جینا حرام تھا۔ کسی کا کتا بھونکتا تو کہا جاتا کہ یا تو کتے کو مار دو یا یہاں سے گھر منتقل کرلو۔
پلمبر، الیکٹریشن وغیرہ کو بھی اجازت لے کر کام کرنا پڑتا تھا اگر شور کی آواز آجائے تو جمیل حسن کے سیکیورٹی گارڈ پوچھ گچھ کرتے تھے۔
یاد رہے کہ جمیل حسن قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک سمیت متعدد الزامات میں بھی امریکا کو مطلوب ہیں جب کہ فرانس میں دو شامی نژاد فرانسیسوں کو لاپتا اور تشدد کرنے پر سزا بھی سنائی گئی تھی۔
جمیل حسن کے تشدد سے جرمنی کے شہری بھی محفوظ نہیں تھے۔ جرمنی میں بھی وہ مطلوب ہیں اور جنگی جرائم پر ان کی تصویر انٹرپول کے ریڈ نوٹس پر بھی چسپاں ہے۔
امریکا نے2011 میں شامی ایئرفورس کے انٹیلیجنس اہلکاروں کی دمشق میں احتجاجی مظاہرین پر آنسو گیس اور گولیاں برسا کر 43 افراد کو ہلاک کرنے پر جمیل حسن پر پابندیاں عائد کی تھیں۔