کراچی:
کراچی فش ہاربرسے متصل کالا پانی میں داخل ہوتے ہی سماعتوں سے لکڑی کی تراش خراش کرنے والی ہیوی آرا مشینوں اورکیلوں کے ذریعے لکڑی کے تختوں کو باہم جوڑنے کے لیے ہتھوڑوں کی آوازیں سماعتوں میں گونجتی ہیں، یہاں تیاری اوربسا اوقات مرمت کے مراحل سے گزرنے والی بلند وبالا لانچوں اورکشتیوں کودیکھ کرایک لمحے کے لیے ان پر چوباروں اورجھروکوں والے پرانے طرزکے خوبصورت اونچے مکانوں کا گمان گزرتا ہے۔
سمندرکے دوش پرایک روزہ یا پھرطویل وقت اور ایک ماہ تک مچھلی کےشکارکے لیےجانے والی لانچوں کی تیاری یعنی کشتی سازی کے فن کو برسہا برس سے اپنے کام میں یکتا کاریگرجدید دورکے باوجودروایتی اندازمیں زندہ رکھے ہوئے ہیں، کشتی سازی کےاس قدیم فن کی مقبولیت عصر حاضر کے فائبرگلاس کے میٹریل سے تیارکشتیوں کی ایجاد کے باوجود بھی کم نہ ہوسکی، جس کی بنیادی وجہ غالباً یہی ہے کہ یہ لانچیں اور کشتیاں سمندرکے کھارے پانی میں سردوگرم حالات کے دوران انتہائی آزمودہ ہیں اوران کی سمندری زندگی 10 سے 15سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
کالا پانی پرمقامی سطح کے علاوہ غیرملکی خریداروں کے لیے بھی لانچیں اورکشتیاں تیارکی جاتی ہیں، ایک اندازے کے مطابق ہرسال سیکڑوں کی تعداد میں نئی کشتیاں تیارکی جاتی ہیں، تاکہ ماہی گیری کی مقامی صنعت کی طلب پوری کی جاسکے، انہی لانچوں کے جھرمٹ میں ایک منفرد دیوہیکل لانچ کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔
لانچ کی تیاری کے کام کا آغاز 18ماہ قبل ہوا تھا، جو اب ایک بلند وبالاکوٹھی نما ڈھانچے کے ساتھ موجود ہے، ماہی گیری کی اس لانچ کی تیاری میں مہنگی ترین شیشم اوربرماٹیک کی لکڑی کے علاوہ مقامی دیار، پرتل سفیدے، کیکر کی لکڑی جبکہ افریقہ سے درآمد کی گئی مہنگی لکڑی بلاوبھی استعمال کی گئی ہے۔
دیگرکشتیوں کے مقابلے میں غیرمعمولی طورپرلمبی چوڑی اس لانچ کومقامی زبان میں رچ کہتے ہیں، تیاری کے آخری مرحلے میں موجود اس لانچ کی خاصیت یہ ہے کہ زمین اس کی عرش اوربالائی منزل تک فاصلہ 24فٹ سے زائد ہے،3منزلہ رچ کی نچلی اوربالائی منازل کو کسی پختہ تعیمرات کی طرزپردلکش اندازمیں بنایا گیا ہے۔
مضبوط لکڑی کے ستون، چوبارے اورجھروکوں کے علاوہ منقش جالیاں بھی موجود ہیں، جس میں مغلیہ فن تعمیر کی جھلک نمایاں ہے،57 فٹ لمبی اورلگ بھگ 50فٹ چوڑی اس لانچ کوبنانے میں کاریگروں کے ساتھ نگران کی صورت مصروف عمل کشتی سازفرید عبدالرحمن کےمطابق اس کی تیاری کا عمل گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے اور90 فیصد کام مکمل کیا جا چکا ہے، اب صرف رنگ وروغن اور دیگر چھوٹے کام ہونا باقی ہیں۔
لانچ کی تیاری میں مہنگی لکڑی استعمال کی گئی ہے—فوٹو: ایکسپریس
ان کا کہنا تھا کہ یہ لانچ بلوچستان کے ماہی گیروں کے لیےتیارکی جا رہی ہے، جس کو بڑی مچھلیوں کے شکار کے لیے استعمال کیا جائےگا، اس لانچ کوچلانے کے لیے تہہ خانے میں 580ہارس پاور(580گھوڑوں کی طاقت کے ہم پلہ) کا انجن نصب کیا گیا ہے۔
فرید کے مطابق انہوں نے بڑی کشتیوں اورلانچوں کی تیاری کا فن اپنے پرکھوں سے سیکھا ہے، اس سے قبل یہ کام ان کے دادا اوروالد کیا کرتے تھے، اب یہ فن چوتھی پیڑی کو منتقل ہوچکا ہے اوران کا بیٹا سراج بھی ان کے ساتھ شامل ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لانچ کے عرشے کے عین نیچے مچھلی کو ذخیرہ کرنے کے دوبڑے حجم کےٹینکس موجود ہیں، جو مکمل طورپرکولنگ سسٹم کے حامل ہیں، اس لانچ پربیک وقت 50 ماہی گیرکھلے سمندرمیں سفرکرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کالا پانی کے کشتی سازی کی اس جیٹی پردبئی اورایران کے لیے ان گنت کشتیاں بنائی جاچکی ہیں، یہاں اکثربننے والی کشتیوں کا معائنہ کرنے کے لیے عرب شیوخ بھی آتے ہیں، جواکثروبیشتربہترین کام پرخوش ہوکرانہیں شاباش بھی دیتے ہیں۔
فریدالرحمن کے مطابق اس قبل انہوں نے ایران کے لیے70 فٹ کی لانچ تیار کی تھی اس کی مکمل تیاری پر4سال کا عرصہ لگاتھا، انہوں نے اس بات کا شکوہ کیا کہ یہ فن روایتی اندا زمیں سینہ بہ سینہ لوگوں میں منتقل ہورہا ہے مگر حکومتی سطح پران کے لیے کسی بھی قسم کی سہولیات کا فقدان ہےاور مطالبہ کیا کہ حکومت بجلی، پانی، صفائی کی سہولیات دے۔
انہوں نے لانچ کی مکمل تیاری کے بعد پانی میں اتارنے کے عمل کوکافی مشکل مرحلہ قراردیا اور کہا کہ یہ مرحلہ عموماً ایک بڑی کرین کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے، یہ تیکنیکی لحاظ سے ایک مشکل مرحلہ ہوتا کیونکہ جب تک لانچ پانی میں مکمل طورپرنہیں اترجاتی اس وقت تک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ خدانخواستہ کچھ گڑبڑنہ ہوجائےکیونکہ اس میں کچھ کٹھن صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
کشتی سازوں کے مطابق ایک لانچ 40لاکھ سے کئی کروڑروپے کی لاگت سے تیارہوتی ہے، مچھلی کے شکارکے لیے مختلف لانچیں اورکشتیاں سمندرمیں شکارپرجاتی ہیں، اس میں سب سے چھوٹی لانچ ٹکڑی کہلاتی ہے، جس میں صرف دو ماہی گیرہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہوڑی کا عملہ عموماً 5ماہی گیروں پرمشتمل ہوتا ہے، بڑی لانچوں کی ترتیب ڈونڈے سے شروع ہوتی ہے جوکہ10 سے 12فٹ لمبی ہوتی ہے، اس میں بیک وقت 8ماہی گیرسوارہوتے ہیں، اس کے علاوہ ایک لانچ ہوڑا کہلاتا ہے، جوکہ 16فٹ سے24 فٹ تک لمبا ہوتا ہے، سب سے طویل وعریض لانچوں میں رچ 100 فٹ لمبی ہوسکتی ہے جبکہ گوجا کی لانچ 150فٹ تک لمبی ہوسکتی ہے۔
بڑی مچھلی کے شکار کے لیے ایک اورلانچ بھی سمندرمیں شکار پر روانہ کی جاتی ہے، جس کو اس کے مخصوص جال کی وجہ سے قطرے کی لانچ کہتے ہیں، یہ لانچ 65 ماہی گیروں کے ہمراہ شکارپرنکلتی ہے، اکثروبیشتران ماہی گیروں کو نادر ونایاب نسل کی مہنگی ترین سوا مچھلی کا کیچ بھی مل جاتا ہے، اس دن کھلے سمندرمیں ان کی گویا عید ہوجاتی ہے کیونکہ سوامچھلی کا گوشت کروڑوں روپے میں فروخت ہوتاہے۔
ایک کشتی یا لانچ کی عمر بالعموم 12سے15سال کے لگ بھگ ہوتی ہے، تاہم جتنا گڑ اتنا میٹھا کے مصداق مہنگی لکڑی سے تیارکی جانب والی کشتی زیادہ مضبوبط اور پائیدار کہلاتی ہے، کشتی سازی کا سب سے پہلا اصول پیندے میں ایک خم دارلکڑی پتھان کواس کی جگہ پرنصب کرنا ہوتا ہے، کشتی کےاگلےحصے میں ایک اورخم دارلکڑی مہرہ نصب کیا جاتا ہے، اور سب سے نچلے حصے میں ایک اورلکڑی سکھان نصب کی جاتی ہے، یہ تینوں لکڑیاں ایک دوسرے میں باہم پیوست ہوتی ہیں، جس کے بعد انجن کے ساتھ منسلک پروپیلر(پنکھے)کے شافٹ کے قریب لانچ کا رخ موڑنے والا تختہ نصب کیا جاتا ہے۔
لانچ یا کشتی کی مکمل تیاری کے دوران ہی اس بالائی اورنچلی منزلوں پرکشمیری فن کے کارونگ کا خوبصورت منقش کام کروایا جاتا ہے، شیشم اورلکڑی کےدل آویزکام کے بعد ایک خوبصورت امتزاج ابھرتا ہے۔
بیکراں نیلے سمندروں سے جڑے ہنرمند آج جدید دورمیں بھی روایتی اوزاروں کےذریعے کشتی سازی کے قدیم و روایتی فن کوزندہ رکھے ہوئے ہیں، کراچی فش ہاربرکے ساحلی مقام کالا پانی کی جیٹی پر عرصہ ڈیڑھ سال کی محنت شاقہ کے بعد دیوہیکل 100 ٹن مچھلی کے شکار کی رچ(لانچ کی غیر معمولی شکل اور بحری جہاز سے مشابہہ) کی تیاری آخری مراحل میں داخل ہوگئی۔