غیرملکی قرض،مال مفت دل بے رحم

حالات جب اتنے شکستہ اوربرے ہوں توہمیں اپنا ہاتھ بھی ہولہ رکھنا چاہیے



موجودہ حکومت سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ IMF سے قرضہ منظورہوتے ہی وہ بے دریغ اپنے اخراجات بڑھادے گی۔وہ صبح وشام عوام سے ہمدردی اور انھیں ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے توبہت کرتی رہتی ہے لیکن عملاً اس نے انھیں کوئی ایسا بڑا ریلیف نہیں پہنچایا ہے جیسا اس نے اپنے وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کو صرف ایک جھٹکے میں پہنچا دیا ہے۔

ہمارے وزیرخزانہ ہر بار عوام کو یہ تسلیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ اگلے چند ماہ میں حکومتی اخراجات کم ہوتے دیکھیں گے۔اُن کے مطابق حکومت جسے اپنے غریب عوام کا بہت خیال ہے وہ بہت جلد سرکاری اخراجات کم کرے گی، مگر ہم نے پچھلے چند ماہ میںاخراجات کم ہوتے تو کیا بلکہ بے دریغ بڑھتے ہوئے ہی دیکھے ہیں۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مسیحا عوام سے تو ہر وقت قربانی دینے کی درخواستیں کرتے ہیں لیکن خود وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔یہ سارے کے سارے خودساختہ عوامی غم خواراللہ کے فضل سے کسی غریب طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔

اِن میں بہت سے بڑے بڑے جاگیردار اورسرمایہ دار لوگ ہیں۔پشت درپشت اِن کی جاگیریں ان کی اولادوں میں بٹتی رہی ہیں۔اُن کی زمینوں کا ہی تعین کیاجائے تو تقریباً آدھاپاکستان انھی لوگوں کی ملکیت ہے۔اِنکے گھروں میں وہ فاقے نہیںہورہے جن سے ہمارے بیشتر عوام دوچار ہیں۔ ملک میں جب بھی کوئی بحران آتاہے تو یہ سب لوگ ترک وطن کرکے دیار غیر میں جابستے ہیں۔جن لوگوں سے یہ ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے منتخب ارکان بنتے ہیں انھیں ہی برے وقت میں تنہاچھوڑجاتے ہیں۔

 وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک اس ملک میں جب جب کوئی بحران آیاہے قربانیاں صرف غریب عوام نے ہی دی ہیں۔  مالی مشکلات پیداکرنے کے اصل ذمے دار یہی لوگ ہیں جب کہ قربانیاں عوام سے مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اوراشیائے خورونوش کی گرانی عوام کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔

IMF کی کڑی شرطوں کاسارا بوجھ عوام پرڈالا جاتا ہے اور عالمی مالی ادارے جب کوئی قرضہ منظورکردیتے ہیں تو شاہانہ خرچ اِنہی خیر خواہوں کے شروع ہوجاتے ہیں۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ارکان پارلیمنٹ اورحکومتی اہل کاروں کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا بڑا اضافہ کرنے کی بھلا ایسی کیا بڑی ضرورت آن پڑی تھی کہ پچاس فیصد نہیں سوفیصد نہیں چارسوسے لے کر نوسوفیصدی تک ایک ہی چھلانگ میں بڑھادی گئی ہیں۔

جب کہ ان بھاری تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات اوربھی دی جارہی ہیں۔ ان کے گھر کے اخراجات بھی حکومت کے خزانوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔بجلی، گیس اورٹیلیفون تک کے بلوں کی ادائیگی عوام کے پیسوں سے کی جاتی ہے۔

پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حاضری لگانے کے الاؤنس بھی اس کے علاوہ ملتے ہیں۔پارلیمنٹ کی کیفے ٹیریا میں انھیں لنچ اورڈنر بھی بہت ہی ارزاں داموں میں ملاکرتے ہیں۔اِنکے سفری اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں، پھر کیاوجہ ہے کہ انھیں اتنی بڑی بڑی تنخواہوں سے نوازا گیاہے۔

IMF نے ابھی صرف ایک ملین ڈالر ہی دیے ہیں اورہمارے مسیحاؤں نے فوراً ہی اس میں سے اپنا حصہ سمیٹ لیا ہے، مگر جب یہ قرض اداکرنے کی بات ہوگی تو عوام سے وصول کیاجائے گا۔

حکومت نے تو یہ کام کرکے اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کردی ہے مگر ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ اپوزیشن کے ارکان اس کی اس حرکت پر خاموش رہیںگے۔ پاکستان تحریک انصاف جو ہر حکومتی کام پرزبردست تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے اس معاملے میں مکمل خاموشی طاری کیے ہوئے ہے۔

اس بہتی گنگا میں اس نے بھی اشنان کرنے میں بڑی راحت محسوس کی ہے اورمال غنیمت سمجھ کر جو آتا ہے ہنسی خوشی قبول کرلیاہے۔یہاں اسے اپنے غریب عوام کا ذرہ بھربھی خیال نہیں آیا۔کوئی منحنی سی آواز بھی پارلیمنٹ میں بلند نہیں کی۔غریب عوام کو ابھی تک اس حکومت سے کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا ہے۔

مہنگائی کی کمی کے جودعوے کیے جارہے ہیں تو زمینی حقائق کے بالکل برخلاف ہیں،کسی شئے کی قیمت کم نہیںہوئی ہے۔ جس آٹے کی قیمت کم کیے جانے کا دعویٰ کیاجا رہا ہے وہ ایک بار پھرپرانی قیمتوں کو پہنچ چکاہے۔عوام کی سب بڑی مشکل بجلی اورگیس کے بلز ہیں۔اس مد میں انھیں ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔ سردیوں میں صرف تین ماہ کے لیے جو رعایتی سیل حکومت نے لگائی ہے۔

وہ بھی حیران کن ہے کہ جتنی زیادہ بجلی خرچ کروگے اتنازیادہ ریلیف ملے گا۔ یعنی گزشتہ برس اِن تین سال میں عوام نے جتنی بجلی خرچ کی ہے اس سے زیادہ اگر وہ اس سال اِن تین مہینوں میں خرچ کریں گے تو حکومت اس اضافی بجلی پر کچھ ریلیف فراہم کریگی۔

سبحان اللہ سردیوں میںعام عوام ویسے ہی کم بجلی خرچ کرتے ہیں انھیں زیادہ بجلی خرچ کرنے پراکسایاجارہا ہے۔یہ ریلیف بھی انھی امیروں کو ملے گا جو سردیوں میں الیکٹرک ہیٹر چلاتے ہیں۔غریب عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس نام نہاد ریلیف کی تشہیراخبارات میں بڑے بڑے اشتہاروں کے ذریعے کی جارہی ہے جنھیں دیکھ کر عوام قطعاً خوش نہیں ہورہے بلکہ نالاں اورسیخ پاہورہے ہیں۔

خدارا عقل کے ناخن لیںاورصحیح معنوں میں عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کی کوشش کریں۔ غیرملکی قرضوں سے انھیں نجات دیں اورکچھ دنوں کے لیے سکھ کاسانس لینے دیں۔ابھی معیشت پوری طرح بحال بھی نہیں ہوئی ہے اورقرض کومال مفت سمجھ کر اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کردیاگیا۔اسے اس بے رحمی سے خرچ کیا جارہا ہے جیسے پھر کبھی موقع نہیں ملے گا۔کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا سویا ہوا ضمیراس شاہانہ اخراجات پر نہیں جاگا۔

IMF جو حکومتی ہر اقدام پر کڑی نظر رکھتی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس غیر ضروری فراخدلی پرخاموش ہے۔ وہ دراصل چاہتی بھی یہی ہے کہ یہ ملک اوراس کے عوام اسی طرح قرض لینے کے لیے ہمیشہ اس کے محتاج بنے رہیںاوروہ چند ملین قرض دینے کے بہانے ان پر پابندیاں لگاتی رہے۔

وہ ہرگز نہیں چاہتی کہ ہم اس کے چنگل سے آزاد ہوکر خود مختار اورخودکفیل ہوپائیں۔ اس کی ہشت پالی گرفت ہمیں کبھی بھی اپنے شکنجہ سے نکلنے نہیںدے گی۔یہ سی پیک اورمعدنیات کے بڑے بڑے ذخائر سب فریب نظر ہیں۔ ہم کبھی بھی اِن سے فیضیاب نہیں ہوپائیںگے۔

ہمیں برباد کرنے کے لیے تو اُن کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔کبھی سیاسی افراتفری اورکبھی منتخب حکومت کی اچانک تبدیلی۔کبھی ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پرپابندیاں تو کبھی سی پیک رول بیک کرنے کی کوششیں۔اسی طرح اورممالک نے بھی ایسے ہی کئی MOU سائن کیے ہیں لیکن وہ بھی صرف کاغذوںپر موجود ہیں ،عملاً کوئی قدم بھی ابھی نہیں بڑھایا ہے۔

حالات جب اتنے شکستہ اوربرے ہوں توہمیں اپنا ہاتھ بھی ہولہ رکھنا چاہیے۔ پڑوسی ملک بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کہیں زیادہ ہیں لیکن وہاں کے پارلیمنٹرین کی تنخواہیں اورمراعات ہم سے بہت ہی کم ہیں۔یہی سوچ کرہمارے حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ ہم کیونکر اتنے شاہانہ خرچ کے مرتکب ہورہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں