حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی نے کہا ہے کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں ملک میں قومی سطح کا کوئی لیڈر نہیں بچا اگر ان حالات میں فیڈریشن کو کوئی بچا سکتا ہے تو وہ فوج ہے جو اب تک فیڈریشن کو بچاتی آئی ہے اور صرف فوج ہی فیڈریشن کو بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ سب بچوں کو سمجھائیں چاہے غمی ہو یا خوشی فوج ہماری ہے، ہم فوج کے ہیں۔ ملک سالوں سے جس دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ دہشت گردی کسی سیاستدان کی وجہ سے نہیں بلکہ فوج کی وجہ سے قابو میں آئی ہے جس کے خاتمے کے لیے صرف فوج نے قربانیاں دی ہیں اور فوج کے جوان ہی ملکی سالمیت کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے صرف ملک بچانا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
پیر صاحب پگارا نے اپنے مریدین سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے اس کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ملک اب بھی ملکی اور بیرونی دہشت گردوں میں گھرا ہوا ہے جن کا مقابلہ فوج کر رہی ہے اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزر رہا جب فوج پر حملے نہ ہو رہے ہوں۔ خوارج اور دہشت گردوں کے مقابلے میں فوجی افسروں اور جوانوں کی جانیں جا رہی ہیں۔
ان مقابلوں میں دہشت گرد زیادہ تر مارے جا رہے ہیں اور ان تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں پاک فوج کو بھی مسلسل جانی نقصان پہنچ رہا ہے مگر فوج بھی اپنے مسلسل ہونے والے جانی نقصان کے باوجود سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہے اور وطن عزیز کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے اور فوج کا سب سے زیادہ نقصان صوبے کے پی میں ہو رہا ہے۔
جہاں گیارہ سالوں سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے جب کہ پی ٹی آئی کی موجودہ اور سابق حکومت صرف سیاست کرنے اور فوج کی مخالفت میں مصروف ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے بانی اپنے اقتدار کے خاتمے کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے ہیں جب کہ اپنے اقتدار میں وہ اسٹیبلشمنٹ کی تعریفیں کرتے اوران پر تنقید کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیتے تھے۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ان کی حکومت ایک پیج پر ہیں۔ مگر کسی پی ٹی آئی مخالف سیاسی پارٹی یا لیڈر نے اسٹیبلشمنٹ پر کبھی تنقید نہیں کی تھی۔ بانی پی ٹی آئی نے یہ بیانیہ اپنایا تھا کہ باری باری اقتدار میں آنے والی پارٹیوں کی حکومتوں نے اپنے دور میں ملک کو بے دردی سے لوٹا ہے اور سابق وزراء نے قومی دولت چوری کرکے بیرون ملک منتقل کی اور اپنی جائیدادیں بنائیں اور ملک کے عوام کو برباد کیا تھا۔
یہی الزامات 1999 میں نواز شریف کو غیر آئینی طور پر برطرف کرنے والوں نے بھی لگائے تھے اور وہ بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ملک میں کرپشن اور جائیدادیں بنانے کا ذمے دار سمجھتے تھے مگر انھوں نے کبھی شریف اور زرداری فیملیوں کو چور، ڈاکو قرار نہیں دیا تھا۔
بانی پی ٹی آئی نے جنرل پرویز مشرف کو دونوں حکمران فیملیوں کے خلاف اس قدر بھڑکا دیا تھا کہ وہ دونوں پارٹیوں کی سیاست ہی ختم کرنے پر تل گئے تھے اوربانی پی ٹی آئی 2002 میں خود وزیر اعظم بننا چاہتے تھے مگر جنرل پرویز 2011ء بانی پی ٹی آئی کے جھانسے میں نہیں آئے تھے تو بانی پی ٹی آئی نے ان کی بھی مخالفت شروع کر دی تھی۔
ممکن ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے اپنے سیاسی مخالفین پر کرپشن اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے سب الزامات غلط نہ ہوں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور بانی پی ٹی آئی اپنی حکومت میں سیاسی مخالفین پر عدالتوں میں کرپشن ثابت نہیں کرسکے تھے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے مگر دونوں کی پارٹیاں پھر بھی اقتدار میں آئی تھیں۔
نواز شریف نے خود تسلیم کیا تھا کہ اب کرپشن جدید طریقوں سے ہوتی ہے جو کوشش کے باوجود پکڑ میں نہیں آتی۔ نواز شریف جمہوری وزیر اعظم تو کہلاتے رہے مگر ان کی اپنے ہی صدر غلام اسحاق خان سے بنی نہ تینوں ادوار میں اسٹیبلشمنٹ سے۔جب اختلاف میں شدت آئی تو انھیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا ۔ شریف اور زرداری اپنے اقتدار میں ہمیشہ کرپشن کے مبینہ الزامات کی زد میں رہے، اسی وجہ سے انھیں اقتدار سے نکال کر پہلی بار اقتدار کے شدید خواہش مند بانی پی ٹی آئی کی باتوں میں آ کر انھیں ایماندار سمجھ کر اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
پاک فوج میں ایک جنرل سرفراز دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے تھے جب کہ پاک فوج کے جوان اور افسران 2007 سے ملک میں دہشت گردی کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ اور 27 سالوں سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرکے اپنی جانیں ملک و قوم کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ مسلسل دہشت گردی کا شکار فوج صف اول میں رہ کر ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے میں مصروف ہے۔
بانی پی ٹی آئی کو آئینی طریقے سے اپوزیشن نے اقتدار سے ہٹایا تھا جس کا الزام وہ کبھی امریکا کو کبھی دوسروں کو دیتے رہے اور اب بھی ایسا ہی کر رہے ہیں اور مرضی کا آرمی چیف نہ ملنے پر انھوں نے سانحہ 9 مئی کرایا اور اب فوج کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے انھوں نے مذموم مہم شروع کی ہے اور ذاتی مفاد کے لیے انھوں نے وطن کی محافظ فوج کو بھی نہیں بخشا۔