پاکستان و بھارت کے ممتاز علمائے کرام اور محققین نے انھیں ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کا لقب دے رکھا ہے۔یہ منفرد لقب بے جا ہے نہ اِس میں مبالغہ آرائی ہے۔ انھوں نے بر صغیر ، پاک وہند، میں چھوٹے بڑے علمائے اہلِ حدیث کی تحریری، تصنیفی اور تبلیغی عظیم خدمات کو جس محنت، کمٹمنٹ اور عرق ریزی سے مدوّن کیا ،اِس پس منظر میں انھیں ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ ہی کے حقیقی نام اور لقب سے یاد کیا ، لکھا اور پکارا جانا چاہیے ۔
اُن کا اسمِ گرامی مولانا محمد اسحاق بھٹی تھا ۔ اب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ۔ مجھے فخر بھی ہے اور اعزاز بھی کہ بھٹی صاحب مرحوم کی کئی معرکہ آرا تحریریں سب سے پہلے میری نظروں سے گزریں۔ان تحریروں نے قارئینِ کرام سے بے پناہ تحسین حاصل کی ۔
پاکستان اور ہندوستان کے وسیع حلقے میں بھٹی صاحب مرحوم کی تحریریں پڑھی گئیں اور اب بھی تسلسل سے پڑھی جا رہی ہیں ۔ مجھے ہمیشہ اِس بات پر حیرت ہوتی رہی ہے کہ کٹڑ اہلِ حدیث ہونے کے باوصف مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب قبلہ مرحوم اسقدر مرنجانِ مرنج ، خوشگوار اور خوش مزاج طبیعت کے حامل کیوں اور کیسے ہیں؟ جب بھی راقم نے بھٹی صاحب سے یہی الفاظ کہے ، سُن کر وہ گہری مسکراہٹ کے پھول فضا میں بکھیر کر خاموش ہو جاتے ۔
راقم نے اپنی زندگی میں پروفیسر محمد یحییٰ صاحب، قبلہ مولانا محمد اسحاق بھٹی اور یحییٰ مجاہد صاحب سے زیادہ کوئی اہلِ حدیث دوست خوش مزاج نہیں دیکھا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب مرحوم کو ہم سے جدا ہُوئے 9برس بیت چلے ہیں ، مگر آج بھی جب مَیں یہ الفاظ لکھ رہا ہُوں ، اُن کا مسکراتا اور جیتا جاگتا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے ہے ۔ اُن کی یاد سے ، بقول فراق گورکھپوری، کئی کہانیاں یاد آ کر رہ گئی ہیں : شام بھی تھی دھواں دھواں حُسن بھی تھا اُداس اُداس/ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کر رہ گئیں!
میرے ایسے ہیچمداں شخص کے لیے یہی اعزاز کم نہیں ہے کہ راقم نے اسحاق بھٹی صاحب مرحوم کی لاتعداد مرتبہ براہِ راست علمی گفتگوئیں سُنیں ، اُن کا قرب حاصل رہا، اُن کے قہقہے سُنے، لاہور میں اُن کے دولت کدے پر حاضر ہو کر اُن کا نمک کھایا ، اُن کے ذی شان دفتر میں بیٹھ کر اُن سے کئی تاریخی اور تاریخ ساز واقعات کی تصحیح اور تصدیق چاہی ۔
بھٹی صاحب جب لاہور میں بروئے کار ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں بطورِ ریسرچ اسکالر خدمات انجام دے رہے تھے ، مجھے متعدد بار اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کے مواقع میسر آئے۔یہ مواقع اور لمحات میری صحافتی زندگی کے سنہرے ایام میں شمار ہوتے ہیں ۔وہ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے تحت شایع ہونے والے معروف اور منفرد علمی و تحقیقی جریدے ’’ المعارف‘‘ کے برسوں ایڈیٹر رہے۔ اِسی ادارے سے انسلاک کے دوران انھوں نے اپنی مشہورِ عالم کتاب’’ فقہائے ہند‘‘ بھی تصنیف کی ۔
یہ ذی شان کتاب کئی جلدوں پر مشتمل ہے ۔ کئی برس قبل بھٹی صاحب سے جب میری ملاقاتیں شروع ہُوئیں تو انھوں نے بڑی محبت و اکرام سے یہ کتاب مجھے اپنے دستخطوں سے عنائت فرمائی تھی ۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب مرحوم نے زندگی میں 4درجن شاندار کتابیں لکھیں۔ ہر کتاب سونے میں تولنے کے مترادف ہے۔ انھوں نے تنِ تنہا وہ علمی کام انجام دیے جو بڑی بڑی اکیڈمیاں بھاری بھر کم فنڈز سے بھی انجام دینے میں ناکام رہتی ہیں ۔
اِس کالم کا دامن اسقدر تنگ ہے کہ راقم مولانا محمد اسحق بھٹی صاحب مرحوم کی شخصیت اور اُن کی جملہ علمی ، دینی اور تحقیقی خدمات و معرکہ آرائیوں کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ 9سال قبل یہی دن اور مہینہ تھا جب بھٹی صاحب ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ۔
اُن کی رخصتی پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی علمی دُنیا کا ایک بڑا نقصان تھا۔ بھٹی صاحب سے میری نیاز مندی اُس وقت شروع ہُوئی جب راقم نے اپنے ایڈیٹر ، جناب مجیب الرحمن شامی صاحب ، کے حکم اور ایما پر ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں اُن کا پہلا مفصل اور خوبصورت مضمون شایع کیا تھا۔ اِس مضمون کا عنوان تھا: میرا جانی، ذیل سنگھ گیانی۔ ذیل سنگھ گیانی آنجہانی اُس وقت بھارت کے صدر تھے ۔
وہ مشرقی پنجاب میں بھٹی صاحب کے گرائیں اور دوست رہے تھے ۔ یہ مضمون راقم خود بھٹی صاحب سے اَپر مال روڈ( لاہور) پر واقع اُن کے دفتر ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے لے کر آیا تھا۔ اِس کے بعد ہم نے اپنے ماہنامہ جریدے میں بھٹی صاحب کے کئی مضامین شایع کیے ۔ یہ مضامین اُردو کی خاکہ نگاری صنف میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اِن مضامین کے اب کئی مجموعے کتابی شکل میں شایع ہو چکے ہیں ۔ بھٹی صاحب واقعی معنوں میں خاکہ نگاری کے بادشاہ کہلانے کے حقدار ہیں ۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی رحلت کے 9برس بعد اب ’’نامہ ہائے دُور دراز‘‘ کے زیر عنوان ایک کتاب معرضِ عمل میں آئی ہے ۔ تقریباً 300صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتاب دراصل اسحاق بھٹی صاحب مرحوم و مغفور کے نام لکھے جانے والے 70سے زائد خطوط کا مجموعہ ہے۔
کئی خطوط کئی نامور سیاسی و علمی شخصیات کے ہیں۔ زیادہ تر خطوط بھارت سے لکھے گئے ہیں۔ یہ خطوط زبانِ حال سے ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہندوستان میں بھی بھٹی صاحب کے پرستاروں کا جمِ غفیر موجود ہے۔ اِن خطوط کی تعداد تین درجن سے زائد ہے ۔ مکتوب نگاروں میں زیادہ تر اہلِ حدیث شامل ہیں ۔
کویت سے آنے والے خطوط کی تعداد 7،سعودی عرب سے 13، برطانیہ و امریکا سے 8خطوط شامل ہیں۔ بھارتی شہروں سے جن احباب ، علمائے کرام اور مصنفین نے بھٹی صاحب کو خطوط لکھے ، ان شہروں میں یہ نام نمایاں ہیں: نئی دہلی، اعظم گڑھ، لکھنو، بنارس، علی گڑھ، رامپور، بلرام پور، بارہ بنکی، کلکتہ، چندی گڑھ، مالیر کوٹلہ، کاندھلہ، پٹنہ۔ سعودی عرب کے معروف شہروں ( مکہ شریف، مدینہ منورہ اور ریاض) سے اُن کے نام بڑے دلچسپ خطوط آئے ہیں۔
اِن خطوط کے مضامین کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ سبھی بھٹی صاحب سے کوئی علمی، فقہی ، تاریخی اور کتابی مسئلہ پوچھ رہے ہیں ۔ اِسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دُنیا بھر میں پھیلے اُن کے چاہنے والے انھیں کس محترم زاویہ نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں ۔ اِن مکاتیب سے یہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ پاکستان کے ایک جریدے میں گیانی ذیل سنگھ پر شایع ہونے والا اُن کا مضمون ہندوستان میں کسقدر وسیع ترین پیمانے پر پڑھا گیا۔
اِس کا انگریزی سمیت کئی دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ کتاب مذکور میں گیانی ذیل سنگھ کا بھارتی صدر کے پریذیڈنٹ لیٹر پَیڈ پر لکھا گیا وہ خط بھی شامل کیا گیا ہے جو ذیل سنگھ نے بھٹی صاحب کے مضمون کی اشاعت پر بطورِ شکریہ انھیں لکھا تھا ۔
زیر نظر کتاب ( نامہ ہائے دُور دراز) میں سید ابوالحسن ندوی صاحب مرحوم( جنھیں بھارت کے ساتھ پاکستان کے دینی و مذہبی حلقوں میں نہائت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے) کا خط بھی بھٹی صاحب کے نام شامل کیا گیا ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر حافظ عثمان احمد صاحب نے کتاب بارے بجا لکھا ہے کہ ’’یہ مجموعۂ مکاتیب ہمیں خبر دیتا ہے کہ مولانا محمد اسحاق بھٹی کے تعلقات کی شاخیں برگد کے پیڑ کی طرح گھنی اور اَن گنت تھیں ۔ تمام مکاتیبِ فکر کے اہلِ علم سے ربط و استفسار اُن کا مزاج تھا۔‘‘
یہ کتاب دُنیا بھر میں پھیلے اُس اُردو دان و تشنگانِ علم طبقے (خصوصاً سلفی مکتبِ فکر) کو سیراب کرے گا جو اسحاق بھٹی صاحب مرحوم کی علمی زندگی کے کسی نہ کسی رُخ کی تحقیق کرنے کی جستجو رکھتے ہیں ۔’’نامہ ہائے دُور دراز‘‘ محمد اسحاق بھٹی ریسر چ انسٹی ٹیوٹ اسلامیہ کالونی (لاہور) نے شایع کی ہے ۔
کتاب کے مرتبین ( محمد لقمان سعید صاحب اور حافظ محمد احسان سعید صاحب) ستائش اور تحسین کے مستحق ہیں جنھوں نے مورخِ اہلِ حدیث کے نام آنیوالے یہ گرانقدر نامے یکجا کرکے شایع کر دیے ہیں ۔ یقیناً اِس خدمت سے بہت سے اہلِ علم استفادہ کرسکیں گے۔