رواں سال کے وسط میں اپنے کالم میں یہ تحریر کیا تھا کہ تیسری عالمی جنگ کی بنیاد اس سال کے آخر میں پڑ جائے گی۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ فال آف شام دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔
امریکا اسرائیل نے اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی حکومت کو گرانا ہے ۔ یہ موقعہ امریکا کو 45برس بعد میسر آیا ہے ۔ پہلے بھی امریکا نے ایران کے خلاف کچھ کم نہیں کیا ۔امریکا نے ایران کو سامراجی غلامی سے نکلنے کی سخت سزا دی اور آج تک دے رہا ہے ۔
اس بغاوت پر دنیا امریکی سربراہی میں ایران کو سبق سکھانے کو کھڑی ہوگئی اور سبق سکھایا بھی ۔ مسلط کردہ جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں ایرانی کام آئے ۔ عسکری ومالی نقصان کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ایرانی مذہبی قیادت کسی بھی صورت آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ سے ہٹنے کو تیار نہیں تھی ۔
وہ تو ایرانی عسکری قیادت نے سمجھایا کہ ایران اب اس تباہ کن نقصان کو مزید برداشت نہیں کر سکتا پھر کہیں جا کر مذہبی قیادت اس تباہ کن جنگ کو روکنے پر رضا مند ہوئی ۔ اسے کہتے ہیں مذہبی شدت پسندی ۔ سوچ ایک ہی طرف فوکس ہوتی ہے ۔ اتنی شدت سے فوکس ہوتی ہے کہ دوسری متبادل سوچ آتی ہی نہیں ۔
کیا المیہ ہے ! ایرانی مذہبی قیادت کو تو مدتوں بعد یہ سنہری موقعہ میسر آیا تھا ، کتنے خون کے دریاؤں کو عبور کر کے ۔ انھوں نے یہ بھی نہ سوچا، فلسطین اور حماس کی محبت میں سب کچھ گنوا دیا۔ کچھ بھی نہ بچا۔ ایرانی انقلاب ایرانی بارگیننگ پاور کا وہ نقطہ عروج تھا کہ امریکی سامراج سے بہت کچھ منوایا جا سکتا تھا۔
روسی صدر پیوٹن نے حال ہی میں ماسکو میں انتہائی اہم سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرح دوسرے ممالک کو تباہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے جیسے اس نے فلسطین اور لبنان میں کیا ہے ۔ پیوٹن کا یہ بھی کہنا تھاکہ روس اتنا بڑا ملک ہے کہ دنیا کا کوئی بھی اتحاد اسے تباہ نہیں کر سکتا روس نے ایٹمی حملوں سے بچاؤ کے لیے مکمل حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں ۔
وہ دنیا بھر کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ روس اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے میں بہت سنجیدہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اگر روس ، فرانس ، جرمنی ، امریکا کی ریاستوں یا یورپی ممالک پر ایٹمی حملہ کرتا ہے تو انھیں 24سے 72گھنٹے پہلے اطلاع دی جائے گی۔ تاکہ شہری ان علاقوں سے نقل مکانی کر سکیں ۔
پیوٹن نے ایٹمی جنگ کی صورت میں انسانی جانوں کی حفاظت کے علاوہ ایک اور انتہائی اہم بات یہ کی کہ ایران ، یمن ، لبنان ، شمالی کوریا ، بیلا روس اور چین پر کسی بھی حملے کو روس پر حملہ سمجھا جائے گا اور اس پر فوری ردعمل دیا جائے گا۔ صدر پیوٹن کا دعوی تھا کہ روس کے پاس انتہائی جدید اور تیز رفتار نیو کلیئر میزائل ہیں جو کسی بھی دشمن کے شہر کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔
اور ان کا یہ دعوی حال ہی میں سچ ثابت ہو چکا ہے جب روس کے ہائی سپر سونک بیلاسٹک میزائل نے ساڑھے تین سے پانچ کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے یوکرائن میں ہدف کو نشانہ بنایا ۔ روسی صدر نے کہا کہ اگر روس کو بھی عراق، لیبیا ، شام اور فلسطین سمجھ کر حملہ کیا گیا تو اس کا جواب نیو کلیئر حملے کی صورت میں دیا جائے گا۔
ولادی میر پیوٹن کا یہ بیان پوری دنیا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ چھپا ہوا ہے ۔ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑتی ہے اور ایٹمی ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں تو صرف چند دنوں میں ہی تین ارب سے زائد لوگ موت کے گھاٹ اتر جائیں گے ۔ عالمی معیشت برباد ہو جائے گی کھانے پینے کی اشیاء نایاب اور ان کی قیمتیں آسمان کو جا پہنچیں گی۔
صنعتی پیداوار نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی اور پناہ گزینوں کا سیلاب پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔ پیوٹن کا یہ خطاب عالمی سطح پر ایک سنگین پیغام بھی ہے اگرروس کی بقاء یا مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی سے گریز نہیں کرے گا۔ بہرحال فکر کی کوئی بات نہیں ۔
چیزیں اپنے منطقی انجام کی طرف جا رہی ہیں ۔ ایک طویل مدت بعد۔ جس طرح ہر انسان اپنی تقدیر لے کر پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہر گروہ ، قوم ، ملک اور خطے کی تقدیر ہوتی ہے ۔ 1947 اس سے پہلے اور بعد میں ستاروں کی ایسی پوزیشن بنی جس نے برصغیر کو تقسیم کردیا ۔ پرانے حکمران طبقات اپنے انجام کو پہنچے ۔ نئے پیدا ہوئے ۔ جس طرح مغل سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے بعد پیدا ہوئے ۔
اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں ۔ قدرت کا ان دیکھا ہاتھ سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دے گا۔ جس طرح ماضی کی ہزاروں سال کی تاریخ میں ہوتا رہا ہے ۔ زمین میں انسانی ہجرتیں ہوں یا زمینی ماحول ۔ یہ سب کچھ ایک مدت بعد تبدیل ہونا ہی ہوتا ہے ۔ اس سے کوئی مفر نہیں ۔ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے ۔ جس طرح ہم اپنی جینز کے غلام ہیں ۔ جس طرح ہم اپنی کہکشاؤں نظام شمسی کی قید میں ہیں ۔ ایک وقت معین تک ۔ہر عروج کا زوال ہے ۔ اور ہر زوال کو عروج ہے ۔ فکر کوئی نہیں ۔ صرف ٹائم فیکٹر ہے ۔ کبھی جلدی ، کبھی دیر میں ، کبھی بہت دیر میں ۔ چینج تو آنا ہی آتا ہے ۔ ہر صورت۔