دہشت گردی کے خلاف جوابی بیانیہ
20 اور21 دسمبر کی درمیانی شب خوارج کے دہشت گردوں کے ایک گروپ نے جنوبی وزیرستان کے ضلع مکین کے ایک عام علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کی کوشش کی ۔ فورسز کے دستوں نے اس کوشش کو موثر طریقے سے ناکام بنا دیا، فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں فورسز نے آٹھ خوارج کو مار دیا، تاہم شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران سولہ سپوتوں نے دلیرانہ لڑتے ہوئے وطن پر اپنی جان قربان کردی۔
جب سے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی ہے، پاکستان میں دہشت گردوں کی نقل و حمل میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان افغان عبوری حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرے اور پاکستان کو مطلوب دہشت گرد اس کے حوالے کیے جائیں۔
پاکستان کے اس احتجاج اور مطالبے کے ردعمل میں افغانستان پہلے تو یقین دہانیاں کرواتا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو نے دے گا اور دہشت گردوں کے خلاف وہ خود کارروائی کرے گا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ افغان عبوری حکومت کی یہ تمام تر تگ و دو صرف بیان بازی تک محدود ہے اور وہ عملاً دہشت گردوں کے خلاف کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے یا اس حکومت میں شامل مختلف گروپس اپنی مرضی کررہے ہیں اور افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کو پروموٹ کر رہے ہیں اور انھیں ہر قسم کی سہولت مہیا کی جارہی ہے۔
افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف افغان عبوری حکومت اور دوسری جانب القاعدہ اور داعش وغیرہ سرگرم ہیں۔ گزشتہ دنوں افغان طالبان حکومت کی اہم شخصیت خود کش دھماکے میں ماری گئی تھی۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی افغانستان میں مقیم ہیں اور انھیں نقل وحرکت کی پوری آزادی حاصل ہے، ان کے تربیتی کیمپ بھی پوری طرح فعال ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنی رٹ نافذ نہیں کرپا رہی ہے یا پھر وہ چاہتی ہی نہیں ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی یہ کارروائی پہلی دفعہ نہیں ہوئی ہے، ایسا بار بار ہورہا ہے۔دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان کی عبوری حکومت پابند ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ اس کے زیر کنٹرول علاقے کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے پائیں۔
افغانستان کو دہشت گرد گروپوں سے پاک کیا جائے۔ افغانستان میں موجود اسلحہ دہشت گرد گروہوں کے پاس نہ جانے پائے لیکن ان میں سے کسی ایک شرط پر بھی افغان حکومت پورا نہیں اتر پا رہی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہورہی ہیں، ان میں دہشت گرد جدید ترین ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔افغانستان کی عبوری حکومت جب تک اپنے علاقے میں اپنی رٹ قائم نہیں کرتی، اس وقت تک اردگرد کے ممالک میں دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا ۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے ظاہر کرتے ہیں کہ دشمن ایک منصوبے کے تحت پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان کے اندر سے بھی دشمنوں کو سپورٹ مل رہی ہے۔ پاکستان میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو درپردہ دہشت گردوں کی سہولت کاری کررہی ہیں۔
پاکستانیت کا لبادہ اوڑھے یہ قوتیں اس ملک کے وسائل کا بھرپور استمعال کررہی ہیں، پاکستان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ استعمال کررہی ہیں، یہاں کاروبار کررہی ہیں، پاکستان کا انفرااسٹرکچر استعمال کررہی ہیں لیکن اپنے عمل سے اس ملک کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کررہی ہیں۔ پاکستان میں جب بھی کوئی حکومت انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ قوتیں آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔
نصاب تعلیم میں تبدیلی کی بات ہو، نظام تعلیم میں تبدیلی کی بات ہو یا ملک کے خارجہ تعلقات کے حوالے سے کوئی بات ہو، یہ قوتیں اس کی بھرپور مخالفت شروع کردیتی ہیں۔ پاکستان میں جب تک شعور کی شمع روشن نہیں کی جائے گی، جہالت اور دہشت گردی کے اندھیرے مکمل طور پر نہیں مٹائے جا سکتے۔ ہمارا ہدف میٹرک یا ایف اے کے سرٹیفکیٹ کے بجائے ایسی تعلیم فراہم کرنا ہونا چاہیے جو فہم و فراست بخشنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے حصول میں بھی مددگار ثابت ہو۔
تعلیم دہشت گردی کے خلاف اہم ہتھیار ہے، ضروری ہے کہ ان لوگوں (خاص طو ر پر نوجوان نسل) کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی لائی جائے۔ جو دہشت گرد ایک بھی بے گناہ کو قتل کرتا ہے تو وہ گویا پوری انسانیت کا قتل کرتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی اپنے گھر والوں، والدین، بچوں اور رشتہ داروں کے حقوق کا قتل بھی کرتا اور خود کو ہمیشہ کی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے نوجوانوں کی زندگی آسان بنانے کے لیے نصاب تعلیم مرتب نہیں کیا بلکہ انھیں حقائق سے دور کرنے کی دیدہ دانستہ کوشش کی ہے۔اس صورتحال کو درست کرنے کے لیے ان علاقوں میں سڑکوں، تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ضروری ہے اس کے بغیر نہ تو ان لوگوں اور ان کی نوجوان نسل کو مایوسی سے باہر نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی بیروزگاری، جہالت اور کفر کو ختم کیا جا سکتا ہے ساتھ ہی جب بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہو گی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوںگے، سڑکیں اور مواصلات کا نظام ہو گا تو اسکول، کالج، فیکٹریاں بنیں اور چلیں گی اور ساتھ ہی ان لوگوں کے لیے شہروں کا سفر آسان اور ممکن ہو گا تو ان کو پتہ چلے گا کہ ان کے علاقوں کے علاوہ بھی دنیا موجود ہے۔
جو لوگ اندرونی اور بیرونی وجوہات کی بنا پر ہمارے ملک اور معاشرے کے لیے ناسور بن چکے ہیں ان پر ’’فوجی آپریشن‘‘ کا نشتر چلانا ضروری ہے۔ اس وقت امن نصاب کو آج عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر دہشت گردی کے نظریات کو ختم کیا جا سکے کیونکہ دہشت گردی کی اس خطرناک قسم کا خاتمہ اسلحے کے ذریعہ نہیں بلکہ علمی و فکری حکمت عملی اور ذہنوں کی تبدیلی سے ممکن ہو گا۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس مخصوص سوچ سے نمٹنے کی سعی نہیں کی گئی، اس سوچ کے مقابل کاؤنٹر نیرٹو (counter narrative) پیش نہیں کی گئی اور جس نے بھی اس نوع کی کاوش کی اسے راستے سے ہٹا دیا گیاکیونکہ ان کے نظریے کو عوام و خواص میں قبولیت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور یوں انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو ان سے خطرہ لگا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ان کا چہرہ بے نقاب ہوا۔
حکومت کا المیہ یہ رہا کہ وہ اس طرح کے جرات مندانہ اقدام کرنے والوں کی حفاظت نہ کرسکی۔ اس پس منظر میں ریاست کو اپنی ذمے داریوں سے واقفیت رکھنا اور ان سے عہدہ برآ ہونا بہت ضروری ہے اگر ریاست اپنی ذمے داریاں صحیح معنوں میں انجام دے تو بہتری یقینی ہے البتہ اگر حکومت اپنے فرائض میں کوتاہی کا شکار ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ ہماری ریاست ہی سرے سے غیر اسلامی ہے۔معاشرے میں امن و امان کے فروغ کے لیے عدلیہ اور پولیس وغیرہ کے کردارسے انکار ممکن نہیں، اگر یہ اور دیگر حکومتی ادارے اپنے فرائض کو سمجھیں اور دیانتداری کو مشعل راہ بناتے ہوئے بدعنوانی کے آگے سینہ سپر ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں جب ملک عزیز ایک مثالی نظام کا منظر پیش کرے گا۔
عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ سستے اور بروقت انصاف کو یقینی بنائے اور نظام عدل میں جس قدر خرابیاں وقت کے ساتھ در آئی ہیں ان کا تجزیہ کرتے ہوئے خاتمہ کرکے اس میں اصلاحات کی جائیں اور اس اہم قومی ادارے کو ازسر نو توانا اور مضبوط بنایا جائے تاکہ اس سے معاشرے میں جرائم کا سد باب ہو اور یوں ہی انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ ختم ہو۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم صاف شفاف نظام کی ہر قیمت پر حمایت کرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انصاف کے اصولوں کے نفاذ کے لیے خود کو پیش کردیں۔
سب سے بڑھ کر اہم ترین ذمے داری حکومت کے کندھوں پر آتی ہے کہ وہ اپنے کردار کونہ صرف محسوس کرے بلکہ بلا تاخیر اسے بھرپور طریقے سے انجام دے۔ پاکستان کی تاریخ میں فتنہ و انتشار کوئی ایک دہائی سے زوروں پر ہے لیکن اہل وطن کو تاحال حکومتی کردار پر بہت سے تحفظات ہیں اور دہشت گردی کے ناسور میں نمٹنے کے لیے کسی جماعت یا کسی مخصوص طبقہ کی رعایت کسی طور پر نہ کی جائے اور اس راہ میں جب قوم دہشت گردی کی جنگ میں اپنے فوجی جوانوں کی پشت پناہی پر آمادہ ہے تو اب جو بھی اس قومی اتحاد کے باوجود تذبذب کا شکار نظر آئے اس کے بارے میں سنجیدہ لائحہ عمل مرتب کرے۔
ہر شخص اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں وہ جانے انجانے میں سوشل میڈیا کے ذریعے وطن دشمنوں کو سپورٹ نہ کر بیٹھے کیونکہ آج کل دشمن پاکستان کے خلاف بہت آگے جا چکا ہے اور بالخصوص سوشل میڈیا کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔