حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات ہوتے ہیں یا نہیں اور اگر ہوتے بھی ہیں تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اس سوال کا جواب شاید کوئی دے سکے لیکن 1973ء کے آئین کی نصف صدی مکمل ہونے کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں تو انسان الجھ کر رہ جاتا ہے۔
اسلام اور سوشلزم کا ذائقہ ہم نے چکھا یا نہیں لیکن ان نعروں کا استحصال ہم نے خوب کیا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی وجود میں آگئی جس نے پاکستان کے روائتی نظریاتی پس منظر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کرپشن کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔ اب یہ نعرہ بھی اپنے انجام کو پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔
اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہی اصل سوال ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام بہ انداز دگرزیر بحث لائے ہیں اور وہ بھی یوں کہ اہل سیاست اگر اس سے سبق لیں تو پاکستانی سیاست میں نظریاتی اعتبار سے نئی صف بندی کی راہ ہموار ہو جائے۔ یوں ہمارے یہاں عرصہ ہوا، نظریاتی سیاست ناپید ہو چکی ہے۔ اس کا ایک سبب تو سرد جنگ کا تاریخ کی گزر گاہوں میں گم ہو جانا ہے لیکن دوسری وجہ خالص مقامی ہے اور خاصی دل چسپ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اقتدار سے محروم کیا گیا تو سرد جنگ زوروں پر تھی لیکن ایک طویل جدوجہد کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو یہ دور بیت چکا تھا لہٰذا ان کی سیاست پیپلز پارٹی کی روایتی سیاست سے مختلف نظر آتی ہے پھر جیسے جیسے دنیا بدلتی گئی، پاکستان کی سیاست کا رخ بھی بدلتا چلا گیا۔
دائیں اور بائیں بازو کی ذہنی تقسیم اگر چہ برقرار رہی لیکن نظریات کی تقسیم کا انداز بدل گیا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے کم و بیش دس گیارہ برس بری طرح لڑنے کے بعد عبرت پکڑی اور میثاق جمہوریت کے عنوان سے ایک معاہدہ کر لیا جس کا مقصد پر امن بقائے باہم تھا تا کہ تیسرے فریق کو راستہ نہ مل سکے۔
یہ تجزیہ بھی درست ہے لیکن جزوی طور پر۔ مکمل تجزیہ یہ ہو گا کہ ماضی کی دائیں اور بائیں کی تقسیم ختم ہو جانے کے بعد ضروری تھا کہ ایک نئی نظریاتی جہت پیدا کی جائے۔ نئی جہت یہی تھی یعنی آئین کی بالادستی اور سویلین سپرمیسی۔ ہماری سیاست میں یہ نئی صف بندی تھی جو ایک حد تک مقامی تھی اور پاکستان کے قومی مقاصد کے عین مطابق تھی۔ یہ صف بندی فی الاصل ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی تھی جس میں کھنڈت اس وقت پڑی جب اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
پاکستانی سماج میں کرپشن کا نعرہ پرانا ہے لیکن اس پر پہلا پلیٹ فارم تین شخصیات نے بنانے کی کوشش کی۔ ان میں ایک قاضی حسین احمد تھے، دوسرے جنرل حمید گل اور تیسرے ضیا شاہد تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس محاذ کے قیام کے پس پشت جنرل حمید گل کا ذہن ہی کام کر رہا تھا جو کئی وجوہ سے میاں نواز شریف کے خلاف تھے۔
قاضی حسین احمد بھی اسلامی جمہوری اتحاد کے تجربے کے بعد میاں صاحب کے مخالف بن چکے تھے۔ ضیا شاہد کی ناراضی کی وجوہات جنرل حمید گل کی طرح ذاتی تھیں۔ یہ محاذ عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہا لیکن جنرل حمید گل اپنے مشن پر کار بند رہے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف وجود میں آئی۔
عمران خان یا بالفاظ دیگر جنرل حمید گل جن دنوں نئی جماعت کے قیام کی تیاریوں میں مصروف تھے، قاضی حسین احمد مرحوم نے اسے روکنے کی شعوری کوشش کی۔
انھوں نے ایک بیان دیا کہ عمران خان کوئی نئی جماعت نہ بنائیں، وہ ہمارے ہیں، ہم سے آ ملیں۔ ممکن ہے کہ قاضی صاحب نے محسوس کر لیا ہو کہ اگر یہ جماعت وجود میں آتی تو معاملات کس رخ پر جا نکلیں گے۔ ان کی یہ کوشش ناکام رہی اور پی ٹی آئی قائم کر دی گئی پھر جیسا اندازہ تھا، اس جماعت نے پاکستان کی جمہوری تحریک کو نقصان پہنچایا۔
وقت نے یہ بھی ثابت کیا کہ ایمان داری اور احتساب کے نعرے پر بنائی جانے والی اس جماعت کا دامن بھی صاف نہ تھا۔ اس کے بانی سے لے کر متعلقین تک کی اکثریت کا دامن داغ دار تھا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اس جماعت نے سماج میں اپنی جگہ بنائی اور مقبولیت حاصل کی۔ جماعت اسلامی اس کی اتحادی تو نہیں لیکن سیاسی اعتبار سے وہ اسی کے قریب دکھائی دیتی ہے اور جب کبھی اسے اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈالنا ہوتا ہے، وہ پی ٹی آئی ہی کا انتخاب کرتی ہے۔
جماعت اسلامی اپنے لیے جس سیاسی راستے کا بھی انتخاب کرے، یہ اس کا حق ہے لیکن اس وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان کی جمہوری جدوجہد کو کمزور کرنے والے تجربے کی خرابیاں ظاہر ہو جانے کے بعد نئی صف بندی کی جائے۔ یہ صف بندی کیا ہو سکتی ہے؟ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کی تازہ کتاب ' آئین پاکستان 1973 اور اسلام ' سے اس جانب راہ نمائی ملتی ہے۔
ستر کی دہائی میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے سوشلزم کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا تو جماعت اسلامی اس کا حصہ نہیں تھی لیکن یہ فتویٰ آ گیا تو جماعت اسلامی نے اس کی تشہیر ضروری سمجھی۔ صرف اتنا نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے سوشل ازم کے خلاف علمی محاذ پر پہلے سے ہی تحریک چلا رکھی تھی۔
پروفیسر خورشید احمد کی زیر ادارت ' چراغ راہ' کا انتہائی ضخیم سوشل ازم نمبر شائع ہو چکا تھا جب کہ مولانا نعیم صدیقی کی زیر قیادت دار الفکر نام سے کام کرنے والا ادارہ اس موضوع پر لٹریچر شائع کر رہا تھا جس کا پھیلا ؤبڑا وسیع تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے سوشل ازم کے خلاف فضا بنانے میں بڑا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ اس فضا کے اثرات نصف صدی سے زاید عرصہ گزر جانے کے باوجود اب بھی موجود ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کی کتاب اس ضمن میں کچھ نئے گوشے سامنے لاتی ہے۔
دائیں بازو کے روایتی دینی طبقات کا عمومی تاثر یہی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک دین بیزار شخص تھے لیکن ڈاکٹر صاحب نے تاریخ کے مصدقہ حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
وہ ذاتی زندگی میں لبرل رویوں کے باوجود اسلام کا گہرا شعور رکھتے تھے اور اس سے بغاوت ان کی سرشت میں نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہی وجہ تھی ان کی قیادت میں بننے والے 1973 کے دستور میں اسلامی قوانین 1956 اور 1962 کے دساتیر س زیادہ تھے۔ تاریخ کے جائزے کے بعد ٹھوس حقائق کی روشنی میں وہ ثابت کرتے ہیں کہ اس زمانے میں سوشل ازم کی مخالفت بھی لایعنی اور وقت کا ضیاع تھی کیوں کہ اول تو سوشل ازم کے بانی یعنی مارکس اور اینگلز بھی مذہب بیزار نہ تھے۔
بھٹو مرحوم کے بارے میں تو وہ کہتے ہیں کہ وہ شعوری طور پر اسلامی نظام زندگی کے حق میں تھے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھٹو کی دین بیزاری کا تاثر کیسے مضبوط ہوا؟ مضبوط حوالوں ساتھ ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ 1968 میں یہ کام ایک منصوبے کے تحت کیا گیا جس سے مستقبل میں بھٹو صاحب کو نقصان پہنچا۔
کتاب کا موضوع پاکستان کی سیاسی صف بندی نہیں ہے لیکن ملک کے حالات سے دل چسپی رکھنے والا کوئی بھی سمجھ دار شخص اس کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے گا کہ نئی سیاسی صف بندی ناگزیر ہے لیکن صف بندی کی موجودہ بنیاد بہر صورت غلط ہے۔
نئی صف بندی مشترکہ نظریاتی مقاصد کے تحت ہونی چاہیے۔ مشترکہ نظریاتی مقصد آئین کی حقیقی بالا دستی ہی ہو سکتا ہے۔ یہی طریقہ ملک میں عدل و انصاف کے فروغ، کرپشن کے خاتمے اور اسلامی نظام حیات کے قیام مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام نے آئین کی اسلامائزیشن کے ضمن میں بھٹو، جنرل ضیا الحق اور دینی قوتوں کے کردار کا جائزہ بھی لیا ہے۔ ان کا تجزیہ یہ ہے کہ ضیا کے دور میں اس جانب مزید پیش رفت ہو سکتی تھی لیکن دینی قوتوں نے اگر ماضی میں سیاست کے وقتی تقاضوں میں وقت ضائع کرنے کے بہ جائے اس جانب سنجیدہ علمی کام کیا ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب کا تجزیہ لمحہ موجود کے حالات میں بھی درست دکھائی دیتا ہے کیوں کہ ہماری سیاسی قوتیں بہ شمول دینی جماعتوں کے یعنی سب کی سب اسی طرح وقت ضائع کر رہی ہیں جیسے انھوں نے ماضی میں وقت ضائع کیا۔